معاشی مشکلات میں کمی کے اشارے
ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے حکومت کو اپنی حکمت عملی تبدیلی کرنا پڑی ہے
ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے حکومت کو اپنی حکمت عملی تبدیلی کرنا پڑی ہے۔ فوٹو: فائل
PARIS:
مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے ہفتے کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے معاشی روڈ میپ کا اعلان کردیا، جس کے مطابق تمام حکومتی اداروں کے اخراجات کم کیے جائیں گے۔ مشیر خزانہ نے کہا کہ اس کے لیے حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں، بجٹ میں سب کی شراکت داری نظر آئے گی، کفایت شعاری کو اپنایا جائے گا، عالمی مالیاتی فنڈ بورڈ کی منظوری تک معاہدہ منظر عام پر نہیں لا سکتے، اگلے مالی سال کے بجٹ میں ٹیکس وصولیوں کا ہدف 55 سو ارب روپے مقرر کیا جا رہا ہے، آیندہ دنوں میں حالات بہتر ہوں گے، مشکلات اور دقت کے دن ختم ہونے جا رہے ہیں، 6 سے 8 مہینے استحکام کے ہیں یعنی اس دوران ملک میں ترقی ہوگی، 2020 تک ملک سے گردشی قرضے مکمل ختم کر دیں گے۔
ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے حکومت کو اپنی حکمت عملی تبدیلی کرنا پڑی ہے' وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کے مستعفی ہونے کے بعد عبدالحفیظ شیخ کو مشیر خزانہ مقرر کیا گیا جن کے آنے کے بعد ملکی معاشی منظرنامے میں بہت سی بنیادی تبدیلیاں آئی ہیں' بالخصوص آئی ایم ایف کے ساتھ قرضے کے حصول کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔جو یقیناً ایک مثبت پیش رفت ہے جس کے معیشت پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ وفاقی وزراء فردوس عاشق اعوان' وزیر بجلی عمر ایوب' وزیر منصوبہ بندی خسرو بختیار' وزیر مملکت ریونیو حماد اظہر اور چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ 6ارب ڈالر کا 3سال کا پروگرام ہے جس کے قرض کی شرح سود 3.2فیصد ہوگی' آنے والے دنوں میں اے ڈی بی اور ورلڈ بینک سے دو سے تین ارب ڈالر مل جائیں گے، اسلامک بینک سے بھی 1.2 ارب ڈالر ملنے کی توقع ہے۔ 9.2 ارب ڈالر چین سمیت دوست ملکوں سے حاصل کیے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ جب حکومت آئی تو قرضہ 31 ہزار ارب روپے سے زیادہ تھا، برآمدات گر رہی تھیں اور مالی خسارہ 23 کھرب ہوچکا تھا، آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے پر تنقید کرنے والوں کے کئی انداز اور کئی مقاصد ہیں، ملک کو ٹریڈنگ کنٹری کے بجائے مینوفیکچرنگ کنٹری بنانا چاہتے ہیں، صنعتوں کے لیے مینوفیکچرنگ کو فروغ، جو نجی صنعتیں و ادارے گریجویٹس کو ملازمتوں پر رکھیں گے انھیں ٹیکس میں چھوٹ دی جائیں گی۔ نئی معاشی پالیسی کے تحت حکومت نے ملک کو تجارتی منڈی بنانے کے بجائے صنعتی ملک بنانے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ صائب ہے، اس سے ملک میں دم توڑتی ہوئی صنعتوں کو بڑا سہارا ملے گا، نئی صنعتوں کے قیام سے جہاں خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہو گا وہاں بیروز گار افراد کو بڑے پیمانے پر روز گار ملے گا۔
حکومت کو بیمار صنعتوں کی بحالی پر بھی توجہ دینی چاہیے جو حکومتی عدم توجہی کے سبب ملکی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا نہیں کر رہیں۔ معاشی ترقی کی راہ میں مالی خسارہ اور گردشی قرضے بڑی رکاوٹ بن چکے ہیں' مشیر خزانہ نے امید افزا بات کرتے ہوئے کہا کہ کفایت شعاری کو اختیار کیا جائے گا' 2020 تک سرکلر ڈیٹ زیرو کر دیا جائے گا۔ اگر حکومت 2020 تک گردشی قرضے مکمل طور پر ختم کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یقیناً یہ اس کا ایک بڑا کارنامہ ہو گا۔
جہاں تک کفایت شعاری اپنانے کا فیصلہ ہے تو یہ یقیناً قابل ستائش ہے لیکن اس کا آغاز سب سے پہلے پارلیمنٹ اور سرکاری اداروں سے کیا جانا چاہیے۔ حیرت انگیز امر ہے کہ ایک جانب غیرملکی مالیاتی اداروں سے قرضے مانگے جا رہے ہیں تو دوسری جانب ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں بلا جواز اضافہ کر دیا جاتا۔ اگر حکومت سیکریٹریوں اور اعلیٰ افسران کو ملنے والی اربوں روپے کی مراعات میں کمی کر دے تو اس سے بھی ملکی خزانے کو بڑا فائدہ پہنچے گا۔ سرکاری افسران کے غیرملکی دورے' ٹی اے ڈی اے' لامحدود فون کالز اور پٹرول کی سہولتیں ملکی خزانے پر ایک بڑا بوجھ ہیں' حکومت اگر ان مراعات کو ختم یا کم کر دے تو یقیناً کفایت شعاری مہم کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی ہے۔ مشیر خزانہ نے ٹیکس دہندگان کے اعدادوشمار بیان کرتے ہوئے کہا کہ 20لاکھ افراد ٹیکس ادا کرتے ہیں' 6لاکھ تنخواہ دار اور360کمپنیاں پورے ملک کا 85فیصد ٹیکس دیتی ہیں' اسی طرح 5کروڑ بینک اکاؤنٹس ہیں لیکن صرف 10فیصد اکاؤنٹ ہولڈرز ٹیکس بھرتے ہیں۔
حکومت ٹیکس نیٹ بڑھائے تو یقیناً اس کی آمدن میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکتا ہے' حیرت انگیز امر یہ ہے کہ جاگیردار' سیاستدان اور ارکان پارلیمنٹ کی بڑی تعداد ٹیکس نیٹ میں شامل ہی نہیں اور اگر ٹیکس ادا بھی کرتے ہیں تو وہ انتہائی معمولی ہوتا ہے جب کہ ان کا رہن سہن شاہانہ انداز سے کم نہیں۔ بڑی بڑی کوٹھیاں' لگژری گاڑیاں' ملازموں کی فوج ظفر موج ان کی خوشحالی کا واضح پتہ دیتی ہیں۔ لہٰذا تنخواہ دار طبقے اور عام صارف پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنے کے بجائے اس خوشحال طبقے کو حقیقی معنوں میں ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔ مشاہدے کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں چندبڑے شہروں سے ہی ٹیکس وصول ہوتا ہے لیکن خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں سیلز ٹیکس، جی ایس ٹی ، ایکسائز ڈیوٹیز وغیرہ کی وصولی نہ ہونے کے برابر ہے۔اگر صوبائی حکو متیں اپنے دائرہ کار میں آنے والے ٹیکس اکٹھے کریں تو پسماندہ صوبوں کا ریونیو شارٹ فال کم ہوسکتا ہے۔خاص طور پر موٹر کاروں اور موٹر سائیکلز پر عائد ٹوکن ٹیکس کی وصولی کو یقینی بنایا جانا چاہیے اور نان کسٹمز پیڈ گاڑیاں ملک کے کسی بھی حصے میں نہیں چلنی چاہیے۔
مشیر خزانہ نے بجٹ کے خدوخال واضح کرتے ہوئے کہا کہ بجلی کی قیمت میں اضافہ کرتے ہوئے 300یونٹ تک استعمال کرنے والوں پر قطعی اثر نہیں پڑے گا'بجٹ میں اس کے لیے 216ارب روپے' زراعت کے شعبے کی ترقی کے لیے 250ارب روپے' احساس پروگرام کے لیے 180ارب روپے اور فاٹا کے لیے 46ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ حکومت نے اچھے معاشی فیصلے کر کے ملک کے گردشی قرضوں میں ماہانہ 12ارب روپے تک کی کمی کی ہے اور آیندہ کچھ ماہ میں اسے کم کر کے ماہانہ 8ارب روپے تک لایا جائے گا اور پھر 2020ء کے آخر تک اسے صفر پر لایا جائے گا۔ آیندہ چند ماہ میں معیشت کی بہتری کے لیے مزید اچھے فیصلے کیے جائیں گے اور آیندہ 6سے 12ماہ میں حالات مزید بہتر ہوں گے۔
مہنگائی کا ذکر کرتے ہوئے مشیر خزانہ نے کہا کہ لوگوں کو مہنگائی پریشان کر رہی ہے' ہمیں اسے کنٹرول کرنا ہے جس کے لیے مانیٹری پالیسی کو استعمال کیا جائے گا' معاشی حالات کو بالکل بگڑنے سے روکنے کے لیے اقدامات کر لیے' یہ سال ملکی معیشت کے استحکام کا سال ہو گا چند ماہ میں اہم فیصلے کرینگے۔ مشیر خزانہ نے باتیں تو بہت اچھی کی ہیں لیکن اصل صورت حال تو اسی وقت واضح ہو گی جب ان پر اپنے معنی و مفہوم کے مطابق عمل کیا جائے گا اور ملک کو قرضوں سے نجات دلا کر خوشحالی کی راہ پر ڈالا جائے گا۔امید کی جاتی ہے کہ حکومت اپنی بہترحکمت عملی سے مالی اور معاشی مشکلات پر قابو پانے میں کامیاب ہوجائے گی۔
مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے ہفتے کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے معاشی روڈ میپ کا اعلان کردیا، جس کے مطابق تمام حکومتی اداروں کے اخراجات کم کیے جائیں گے۔ مشیر خزانہ نے کہا کہ اس کے لیے حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں، بجٹ میں سب کی شراکت داری نظر آئے گی، کفایت شعاری کو اپنایا جائے گا، عالمی مالیاتی فنڈ بورڈ کی منظوری تک معاہدہ منظر عام پر نہیں لا سکتے، اگلے مالی سال کے بجٹ میں ٹیکس وصولیوں کا ہدف 55 سو ارب روپے مقرر کیا جا رہا ہے، آیندہ دنوں میں حالات بہتر ہوں گے، مشکلات اور دقت کے دن ختم ہونے جا رہے ہیں، 6 سے 8 مہینے استحکام کے ہیں یعنی اس دوران ملک میں ترقی ہوگی، 2020 تک ملک سے گردشی قرضے مکمل ختم کر دیں گے۔
ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے حکومت کو اپنی حکمت عملی تبدیلی کرنا پڑی ہے' وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کے مستعفی ہونے کے بعد عبدالحفیظ شیخ کو مشیر خزانہ مقرر کیا گیا جن کے آنے کے بعد ملکی معاشی منظرنامے میں بہت سی بنیادی تبدیلیاں آئی ہیں' بالخصوص آئی ایم ایف کے ساتھ قرضے کے حصول کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔جو یقیناً ایک مثبت پیش رفت ہے جس کے معیشت پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ وفاقی وزراء فردوس عاشق اعوان' وزیر بجلی عمر ایوب' وزیر منصوبہ بندی خسرو بختیار' وزیر مملکت ریونیو حماد اظہر اور چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ 6ارب ڈالر کا 3سال کا پروگرام ہے جس کے قرض کی شرح سود 3.2فیصد ہوگی' آنے والے دنوں میں اے ڈی بی اور ورلڈ بینک سے دو سے تین ارب ڈالر مل جائیں گے، اسلامک بینک سے بھی 1.2 ارب ڈالر ملنے کی توقع ہے۔ 9.2 ارب ڈالر چین سمیت دوست ملکوں سے حاصل کیے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ جب حکومت آئی تو قرضہ 31 ہزار ارب روپے سے زیادہ تھا، برآمدات گر رہی تھیں اور مالی خسارہ 23 کھرب ہوچکا تھا، آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے پر تنقید کرنے والوں کے کئی انداز اور کئی مقاصد ہیں، ملک کو ٹریڈنگ کنٹری کے بجائے مینوفیکچرنگ کنٹری بنانا چاہتے ہیں، صنعتوں کے لیے مینوفیکچرنگ کو فروغ، جو نجی صنعتیں و ادارے گریجویٹس کو ملازمتوں پر رکھیں گے انھیں ٹیکس میں چھوٹ دی جائیں گی۔ نئی معاشی پالیسی کے تحت حکومت نے ملک کو تجارتی منڈی بنانے کے بجائے صنعتی ملک بنانے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ صائب ہے، اس سے ملک میں دم توڑتی ہوئی صنعتوں کو بڑا سہارا ملے گا، نئی صنعتوں کے قیام سے جہاں خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہو گا وہاں بیروز گار افراد کو بڑے پیمانے پر روز گار ملے گا۔
حکومت کو بیمار صنعتوں کی بحالی پر بھی توجہ دینی چاہیے جو حکومتی عدم توجہی کے سبب ملکی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا نہیں کر رہیں۔ معاشی ترقی کی راہ میں مالی خسارہ اور گردشی قرضے بڑی رکاوٹ بن چکے ہیں' مشیر خزانہ نے امید افزا بات کرتے ہوئے کہا کہ کفایت شعاری کو اختیار کیا جائے گا' 2020 تک سرکلر ڈیٹ زیرو کر دیا جائے گا۔ اگر حکومت 2020 تک گردشی قرضے مکمل طور پر ختم کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یقیناً یہ اس کا ایک بڑا کارنامہ ہو گا۔
جہاں تک کفایت شعاری اپنانے کا فیصلہ ہے تو یہ یقیناً قابل ستائش ہے لیکن اس کا آغاز سب سے پہلے پارلیمنٹ اور سرکاری اداروں سے کیا جانا چاہیے۔ حیرت انگیز امر ہے کہ ایک جانب غیرملکی مالیاتی اداروں سے قرضے مانگے جا رہے ہیں تو دوسری جانب ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں بلا جواز اضافہ کر دیا جاتا۔ اگر حکومت سیکریٹریوں اور اعلیٰ افسران کو ملنے والی اربوں روپے کی مراعات میں کمی کر دے تو اس سے بھی ملکی خزانے کو بڑا فائدہ پہنچے گا۔ سرکاری افسران کے غیرملکی دورے' ٹی اے ڈی اے' لامحدود فون کالز اور پٹرول کی سہولتیں ملکی خزانے پر ایک بڑا بوجھ ہیں' حکومت اگر ان مراعات کو ختم یا کم کر دے تو یقیناً کفایت شعاری مہم کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی ہے۔ مشیر خزانہ نے ٹیکس دہندگان کے اعدادوشمار بیان کرتے ہوئے کہا کہ 20لاکھ افراد ٹیکس ادا کرتے ہیں' 6لاکھ تنخواہ دار اور360کمپنیاں پورے ملک کا 85فیصد ٹیکس دیتی ہیں' اسی طرح 5کروڑ بینک اکاؤنٹس ہیں لیکن صرف 10فیصد اکاؤنٹ ہولڈرز ٹیکس بھرتے ہیں۔
حکومت ٹیکس نیٹ بڑھائے تو یقیناً اس کی آمدن میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکتا ہے' حیرت انگیز امر یہ ہے کہ جاگیردار' سیاستدان اور ارکان پارلیمنٹ کی بڑی تعداد ٹیکس نیٹ میں شامل ہی نہیں اور اگر ٹیکس ادا بھی کرتے ہیں تو وہ انتہائی معمولی ہوتا ہے جب کہ ان کا رہن سہن شاہانہ انداز سے کم نہیں۔ بڑی بڑی کوٹھیاں' لگژری گاڑیاں' ملازموں کی فوج ظفر موج ان کی خوشحالی کا واضح پتہ دیتی ہیں۔ لہٰذا تنخواہ دار طبقے اور عام صارف پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنے کے بجائے اس خوشحال طبقے کو حقیقی معنوں میں ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔ مشاہدے کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں چندبڑے شہروں سے ہی ٹیکس وصول ہوتا ہے لیکن خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں سیلز ٹیکس، جی ایس ٹی ، ایکسائز ڈیوٹیز وغیرہ کی وصولی نہ ہونے کے برابر ہے۔اگر صوبائی حکو متیں اپنے دائرہ کار میں آنے والے ٹیکس اکٹھے کریں تو پسماندہ صوبوں کا ریونیو شارٹ فال کم ہوسکتا ہے۔خاص طور پر موٹر کاروں اور موٹر سائیکلز پر عائد ٹوکن ٹیکس کی وصولی کو یقینی بنایا جانا چاہیے اور نان کسٹمز پیڈ گاڑیاں ملک کے کسی بھی حصے میں نہیں چلنی چاہیے۔
مشیر خزانہ نے بجٹ کے خدوخال واضح کرتے ہوئے کہا کہ بجلی کی قیمت میں اضافہ کرتے ہوئے 300یونٹ تک استعمال کرنے والوں پر قطعی اثر نہیں پڑے گا'بجٹ میں اس کے لیے 216ارب روپے' زراعت کے شعبے کی ترقی کے لیے 250ارب روپے' احساس پروگرام کے لیے 180ارب روپے اور فاٹا کے لیے 46ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ حکومت نے اچھے معاشی فیصلے کر کے ملک کے گردشی قرضوں میں ماہانہ 12ارب روپے تک کی کمی کی ہے اور آیندہ کچھ ماہ میں اسے کم کر کے ماہانہ 8ارب روپے تک لایا جائے گا اور پھر 2020ء کے آخر تک اسے صفر پر لایا جائے گا۔ آیندہ چند ماہ میں معیشت کی بہتری کے لیے مزید اچھے فیصلے کیے جائیں گے اور آیندہ 6سے 12ماہ میں حالات مزید بہتر ہوں گے۔
مہنگائی کا ذکر کرتے ہوئے مشیر خزانہ نے کہا کہ لوگوں کو مہنگائی پریشان کر رہی ہے' ہمیں اسے کنٹرول کرنا ہے جس کے لیے مانیٹری پالیسی کو استعمال کیا جائے گا' معاشی حالات کو بالکل بگڑنے سے روکنے کے لیے اقدامات کر لیے' یہ سال ملکی معیشت کے استحکام کا سال ہو گا چند ماہ میں اہم فیصلے کرینگے۔ مشیر خزانہ نے باتیں تو بہت اچھی کی ہیں لیکن اصل صورت حال تو اسی وقت واضح ہو گی جب ان پر اپنے معنی و مفہوم کے مطابق عمل کیا جائے گا اور ملک کو قرضوں سے نجات دلا کر خوشحالی کی راہ پر ڈالا جائے گا۔امید کی جاتی ہے کہ حکومت اپنی بہترحکمت عملی سے مالی اور معاشی مشکلات پر قابو پانے میں کامیاب ہوجائے گی۔