سوچ بچار سے محروم حکومت
گیس کی قیمت میں 47 فیصد اضافے کا بم عوام کے سروں پر پھاڑ دیا گیا
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com
سابق وفاقی وزیر ریلوے سعد رفیق نے کہا ہے کہ ساری نئی ٹرینیں خسارے میں چل رہی ہیں ، اس کے جواب میں موجودہ وزیر ریلوے شیخ رشید نے کہا ہے کہ ساری نئی ٹرینیں خسارے میں نہیں چل رہی ہیں بلکہ صرف دو ٹرینیں خسارے میں چل رہی ہیں۔ موجودہ حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے قائمہ کمیٹی نے انکشاف کیا ہے کہ ریلوے کو ابتدائی آٹھ ماہ کے دوران 28 ارب 62 کروڑ روپے کا خسارہ ہوا ہے، اگر ہماری قائمہ کمیٹی کے خسارے کے حوالے سے دیے ہوئے اعداد و شمار درست ہیں تو ہمیں حیرت سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے عوامی لیڈر شیخ رشید اب تک ریلوے کو منافع بخش ادارہ ہونے کی جو رٹ لگائے ہوئے ہیں، قائمہ کمیٹی کے دیے ہوئے اعداد و شمار نے اس کا پول کھول دیا ہے۔ قائمہ کمیٹی کے مطابق ریلوے کو 8 ماہ کے دوران 28 ارب 62 کروڑ روپوں کا خسارہ ہوا ہے۔
ہمارے عوامی وزیر ریلوے وزارت سنبھالنے کے بعد عوام کو مسلسل یہ بتا رہے ہیں کہ ہماری ریلوے اب ایک منافع بخش ادارہ بن گئی ہے اور صرف 2 ٹرینیں خسارے میں چل رہی ہیں، شیخ صاحب کا یہ دعویٰ قائمہ کمیٹی کے انکشاف کے بعد غلط ثابت ہوکر رہ گیا ہے۔ اصل میں مسئلہ صرف منافع یا خسارے کا نہیں بلکہ '' اسٹیٹس کو '' کو توڑ کر ایک مڈل کلاس حکومت کے برسر اقتدار آنے کا ہے، یہ کوئی معمولی بات نہیں بلکہ پاکستانی سیاست پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہونے والے ہیں۔ اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ ''اسٹیٹس کو'' کو توڑنا کوئی آسان کام نہیں تھا ۔ اشرافیہ نے زندگی کے ہر شعبے میں اپنے ہمدرد بھرتی کر رکھے ہیں خاص طور پر بیوروکریسی میں اوپر سے نیچے تک اپنے ایجنٹ بٹھا رکھے ہیں۔
ایسے مضبوط سیٹ اپ میں ایک نئی اور ناتجربہ کار مڈل کلاس حکومت کا کامیاب ہونا کارے دارد ہے لیکن ہماری نئی حکومت کو بھی اس حقیقت کا ادراک ہوگا کہ اپوزیشن قدم قدم پر اس کی راہ میں کانٹے بچھائے گی اور حکومت کے ہر اقدام پر اس کی نظر ہوگی۔ ان حقائق کا تقاضا تو یہ تھا کہ حکومت ایک چھوٹے سے چھوٹا قدم اٹھانے سے پہلے اس کے نتائج کا بھرپور طریقے سے جائزہ لیتی لیکن ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ عمران خان مسئلے کی اہمیت کو سمجھے بغیر قدم پر قدم اٹھاتے چلے جا رہے ہیں اور اس حقیقت سے ناواقف نظر آرہے ہیں کہ ان کی حکومت مڈل کلاس کا ایک ٹیسٹ کیس بن گئی ہے۔ پاکستان کے مستقبل کی سیاست کا دارومدار عمران حکومت کی کامیابی اور ناکامی سے ہے۔
شیخ رشید بارہ گھاٹ کا پانی پیے ہوئے ایک ایسے وزیر ہیں جن پر عمران خان بہت بھروسہ کرتے ہیں اس حقیقت کی روشنی میںان کی یہ ذمے داری تھی کہ اپنی وزارت کے ہر کام، ہر قدم نہایت سوچ بچار کے بعد اٹھاتے لیکن ایسا لگ نہیں رہا ہے ۔ محض نئی نئی ٹرینیں چلانا کوئی کامیابی نہیں بلکہ نقصان دہ ادارے کو منافع بخش بنانا وہ کامیابی ہے جو متعلقہ وزیر ہی کی نہیں بلکہ حکومت کی بھی نیک نامی ہوتی ہے ۔
کیا عمران حکومت کو یہ علم اور اندازہ نہیں کہ ان کی حکومت کے معمولی سے معمولی کام پر بھی اغیار کی نظر ہے اور اغیارکی پروپیگنڈہ مشینری اس قدر فعال ہے کہ وہ معمولی سے معمولی حکومتی غلطی کو رائی کا پہاڑ بناکر اس طرح پیش کر رہی ہے کہ رائے عامہ کا گمراہ ہونا ایک فطری بات ہے۔ پچھلے 9-8 ماہ کے دوران حکومتی کارکردگی پر نظر ڈالی جائے تو یہ دل شکن تصویر سامنے آتی ہے کہ ان نو ماہ میں حکومت نے ایک بھی ایسا کام نہیں کیا جس سے عوام کو ریلیف مل سکے ۔ اس کے برعکس حکومتی اقدامات سے عوام ایک بے چینی میں مبتلا ہیں ابھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھاری اضافے سے عوام سنبھل بھی نہیں پائے تھے کہ گیس کی قیمت میں 47 فیصد اضافے کا بم عوام کے سروں پر پھاڑ دیا گیا۔
یہ بات درست ہے کہ ملکی معیشت کا پچھلے دس سال میں بیڑہ غرق کردیا گیا ہے لیکن عوام ان حقائق سے بے خبر ہوتے ہیں، ایسی صورت میں حکومت کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ کسی شے کی قیمت بڑھانے سے ایک ہفتہ پہلے اس کی وجوہات سے عوام کو باخبر کرے اور خاص طور پر یہ بتائے کہ مذکورہ شے کی قیمت بڑھانے میں سابقہ حکومتوں کی نااہلی اور کرپشن کا کتنا ہاتھ ہے اسی طریقے کو اپنانے سے عوام حقائق سے باخبر بھی ہوں گے اور عوام کا ردعمل بھی محتاط ہوگا۔
جو لوگ ''اسٹیٹس کو '' ٹوٹنے سے خوش تھے اور امید کر رہے تھے کہ آہستہ آہستہ ہماری خواصی جمہوریت عوامی جمہوریت میں بدل جائے گی اور قانون ساز اداروں میں مزدوروں، کسانوں اور عوام کے صحیح نمایندے پہنچیں گے۔ اشرافیہ کا سیاست میں کردار ختم ہوجائے گا ، وہ سخت مایوسی کا شکار ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری مڈل کلاسر حکومت اشرافیہ کی گھاگ حکومت کے مقابلے میں طفل مکتب ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ اسے دانشورانہ رائے سرے سے حاصل ہی نہیں۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ مڈل کلاسر حکومت ہر قدم نتائج و عواقب سے بے خبر ہوکر اٹھا رہی ہے۔ اس حوالے سے نئی کابینہ کے انتخاب کو مثال بناکر پیش کیا جاسکتا ہے کہتے ہیں کہ فرسٹ امپریشن عام طور پر آخری امپریشن سمجھا جاتا ہے۔ اس تناظر میں اگر ہم مڈل کلاسر حکومت کی پہلی کابینہ کا حشر دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ جلد بازی کی ایک مثال تھی۔
عوام مہنگائی بلکہ قیامت خیز مہنگائی سے سخت پریشان ہیں ہماری مہنگائی کا بڑا حصہ ناجائز منافع خوری کا ہے اگر حکومت پرائس کنٹرول کمیشن سے کرپٹ عناصر کو نکال کر ایماندار اور سخت گیر لوگوں کو لائے تو مہنگائی کا 50 فیصد سے زیادہ حصہ ازخود ختم ہوجائے گا کیا عمران حکومت میں کوئی لوگ ایسے نہیں جو ان حقائق کو سمجھتے ہوں؟
ہمارے عوامی وزیر ریلوے وزارت سنبھالنے کے بعد عوام کو مسلسل یہ بتا رہے ہیں کہ ہماری ریلوے اب ایک منافع بخش ادارہ بن گئی ہے اور صرف 2 ٹرینیں خسارے میں چل رہی ہیں، شیخ صاحب کا یہ دعویٰ قائمہ کمیٹی کے انکشاف کے بعد غلط ثابت ہوکر رہ گیا ہے۔ اصل میں مسئلہ صرف منافع یا خسارے کا نہیں بلکہ '' اسٹیٹس کو '' کو توڑ کر ایک مڈل کلاس حکومت کے برسر اقتدار آنے کا ہے، یہ کوئی معمولی بات نہیں بلکہ پاکستانی سیاست پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہونے والے ہیں۔ اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ ''اسٹیٹس کو'' کو توڑنا کوئی آسان کام نہیں تھا ۔ اشرافیہ نے زندگی کے ہر شعبے میں اپنے ہمدرد بھرتی کر رکھے ہیں خاص طور پر بیوروکریسی میں اوپر سے نیچے تک اپنے ایجنٹ بٹھا رکھے ہیں۔
ایسے مضبوط سیٹ اپ میں ایک نئی اور ناتجربہ کار مڈل کلاس حکومت کا کامیاب ہونا کارے دارد ہے لیکن ہماری نئی حکومت کو بھی اس حقیقت کا ادراک ہوگا کہ اپوزیشن قدم قدم پر اس کی راہ میں کانٹے بچھائے گی اور حکومت کے ہر اقدام پر اس کی نظر ہوگی۔ ان حقائق کا تقاضا تو یہ تھا کہ حکومت ایک چھوٹے سے چھوٹا قدم اٹھانے سے پہلے اس کے نتائج کا بھرپور طریقے سے جائزہ لیتی لیکن ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ عمران خان مسئلے کی اہمیت کو سمجھے بغیر قدم پر قدم اٹھاتے چلے جا رہے ہیں اور اس حقیقت سے ناواقف نظر آرہے ہیں کہ ان کی حکومت مڈل کلاس کا ایک ٹیسٹ کیس بن گئی ہے۔ پاکستان کے مستقبل کی سیاست کا دارومدار عمران حکومت کی کامیابی اور ناکامی سے ہے۔
شیخ رشید بارہ گھاٹ کا پانی پیے ہوئے ایک ایسے وزیر ہیں جن پر عمران خان بہت بھروسہ کرتے ہیں اس حقیقت کی روشنی میںان کی یہ ذمے داری تھی کہ اپنی وزارت کے ہر کام، ہر قدم نہایت سوچ بچار کے بعد اٹھاتے لیکن ایسا لگ نہیں رہا ہے ۔ محض نئی نئی ٹرینیں چلانا کوئی کامیابی نہیں بلکہ نقصان دہ ادارے کو منافع بخش بنانا وہ کامیابی ہے جو متعلقہ وزیر ہی کی نہیں بلکہ حکومت کی بھی نیک نامی ہوتی ہے ۔
کیا عمران حکومت کو یہ علم اور اندازہ نہیں کہ ان کی حکومت کے معمولی سے معمولی کام پر بھی اغیار کی نظر ہے اور اغیارکی پروپیگنڈہ مشینری اس قدر فعال ہے کہ وہ معمولی سے معمولی حکومتی غلطی کو رائی کا پہاڑ بناکر اس طرح پیش کر رہی ہے کہ رائے عامہ کا گمراہ ہونا ایک فطری بات ہے۔ پچھلے 9-8 ماہ کے دوران حکومتی کارکردگی پر نظر ڈالی جائے تو یہ دل شکن تصویر سامنے آتی ہے کہ ان نو ماہ میں حکومت نے ایک بھی ایسا کام نہیں کیا جس سے عوام کو ریلیف مل سکے ۔ اس کے برعکس حکومتی اقدامات سے عوام ایک بے چینی میں مبتلا ہیں ابھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھاری اضافے سے عوام سنبھل بھی نہیں پائے تھے کہ گیس کی قیمت میں 47 فیصد اضافے کا بم عوام کے سروں پر پھاڑ دیا گیا۔
یہ بات درست ہے کہ ملکی معیشت کا پچھلے دس سال میں بیڑہ غرق کردیا گیا ہے لیکن عوام ان حقائق سے بے خبر ہوتے ہیں، ایسی صورت میں حکومت کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ کسی شے کی قیمت بڑھانے سے ایک ہفتہ پہلے اس کی وجوہات سے عوام کو باخبر کرے اور خاص طور پر یہ بتائے کہ مذکورہ شے کی قیمت بڑھانے میں سابقہ حکومتوں کی نااہلی اور کرپشن کا کتنا ہاتھ ہے اسی طریقے کو اپنانے سے عوام حقائق سے باخبر بھی ہوں گے اور عوام کا ردعمل بھی محتاط ہوگا۔
جو لوگ ''اسٹیٹس کو '' ٹوٹنے سے خوش تھے اور امید کر رہے تھے کہ آہستہ آہستہ ہماری خواصی جمہوریت عوامی جمہوریت میں بدل جائے گی اور قانون ساز اداروں میں مزدوروں، کسانوں اور عوام کے صحیح نمایندے پہنچیں گے۔ اشرافیہ کا سیاست میں کردار ختم ہوجائے گا ، وہ سخت مایوسی کا شکار ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری مڈل کلاسر حکومت اشرافیہ کی گھاگ حکومت کے مقابلے میں طفل مکتب ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ اسے دانشورانہ رائے سرے سے حاصل ہی نہیں۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ مڈل کلاسر حکومت ہر قدم نتائج و عواقب سے بے خبر ہوکر اٹھا رہی ہے۔ اس حوالے سے نئی کابینہ کے انتخاب کو مثال بناکر پیش کیا جاسکتا ہے کہتے ہیں کہ فرسٹ امپریشن عام طور پر آخری امپریشن سمجھا جاتا ہے۔ اس تناظر میں اگر ہم مڈل کلاسر حکومت کی پہلی کابینہ کا حشر دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ جلد بازی کی ایک مثال تھی۔
عوام مہنگائی بلکہ قیامت خیز مہنگائی سے سخت پریشان ہیں ہماری مہنگائی کا بڑا حصہ ناجائز منافع خوری کا ہے اگر حکومت پرائس کنٹرول کمیشن سے کرپٹ عناصر کو نکال کر ایماندار اور سخت گیر لوگوں کو لائے تو مہنگائی کا 50 فیصد سے زیادہ حصہ ازخود ختم ہوجائے گا کیا عمران حکومت میں کوئی لوگ ایسے نہیں جو ان حقائق کو سمجھتے ہوں؟