فوج کو متنازع نہ بنائیے
پاکستان کی ایک اور بدقسمتی ہے کہ ملک میں ایک مخصوص ٹولہ پاک فوج کو بلاوجہ تنقید کا نشانہ بناتا ہے
پاک فوج نے ملک کو دہشت گردی سے پاک کیا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)
کہانی کا ایک رخ یہ ہے کہ پاکستان کی افواج نے قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے خاتمے کےلیے جو کاررروائیاں کیں اس کے نتیجے میں قبائلی عوام متاثر ہوئے۔ کہانی کا یہ رخ بالکل درست ہے۔ اب آتے ہیں دوسرے رخ کی جانب، جسے دانستہ فراموش کیا جاتا ہے۔
9/11 کے بعد پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پوری دنیا کا ساتھ دیا، جس کے باعث افغان طالبان، تحریک طالبان پاکستان اور ان جیسی کئی تنظیوں نے پاکستان کے خلاف کھلم کھلا جنگ کی۔ اور یوں پورا پاکستان کئی سال تک میدان جنگ بنا رہا۔ اور بے شک قبائلی علاقے اس جنگ کے مرکز و محور تھے۔ اسی صورتِ حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کے دشمن ممالک نے بھی اندرونی کشیدگی کو ہوا دی۔ مقصد صرف پاکستان کو کمزور کرنا تھا۔
کہانی کا تیسرا رخ بھی ملاحظہ ہو۔ افغانستان میں گزشتہ دو دہائیوں سے امریکا اپنی اتحادی فوجوں کے ہمراہ جنگ لڑ رہا ہے۔ ایسی فوج جو دنیا کے جدید ترین جنگی سازوسامان سے لیس ہے، مگر شکست سے دوچار ہے۔ پچاس فیصد سے زیادہ افغانستان نہ تو افغان حکومت کے زیر اثر ہے اور نہ ہی امریکا اور اس کی اتحادی فوج کے۔ ایک لمحے کو یہاں رکیے اور سوچیں کہ ایسا کیوں ہے؟
پاکستان کے موجودہ وزیراعظم عمران خان شاید پہلے وزیراعظم ہیں جو قبائلی علاقوں، قبائلی عوام اور قبائلی رسم و رواج کو بہت قریب سے جانتے ہیں۔ وہ اس بات کا احساس رکھتے ہیں کہ شورش کی وجہ سے پاکستان کے قبائلی علاقے بہت متاثر ہوئے ہیں اور وہ ہر ممکن کو شش کررہے ہیں کہ امن کی واپسی کے بعد قبائلی علاقوں میں تعمیرو ترقی کا کام برق رفتاری سے کیا جائے۔ اس جہد میں حکومتِ پاکستان اور پاک افواج کی سنجیدگی لائقِ تحسین ہے۔
ان تمام کوششوں کو ایک تنظیم ہضم نہیں کر پارہی، جس نے امن کا لبادہ اوڑھ کر پشتون قوم کے حقوق کا علم بلند کیا ہوا ہے۔ کیونکہ اگر حکومت اور فوج قبائلی عوام کی دادرسی کردیتی ہے تو اس تنظیم کی سیاست ہی ختم ہوجاتی ہے۔ بہرکیف اس تنظیم کے مطالبات جائز ہوسکتے ہیں، جیسا کہ میں نے ابتدا میں کہا، لیکن اس تنظیم کے مقاصد اب کسی سے پنہاں نہیں۔ گزشتہ چند روز کے واقعات شک و شبہات پر تصدیق کی مہر ثبت کرتے ہیں۔ مطالبات کو بنیاد بنا کر پاکستانی فوج کو گالیاں دینا، پاکستان کے عوام اور فوج کے مابین ایک خلیج پیدا کرنا ہی اس تنظیم کا بنیادی مقصد ہے۔
پاکستان کی ایک اور بدقسمتی ہے کہ ملک میں ایک مخصوص ٹولہ پاک فوج کو بلاوجہ تنقید کا نشانہ بناتا ہے۔ اس ٹولے میں چند سیاست دان، صحافی، دانشور اور این جی اوز وغیرہ شامل ہیں۔ تنقید پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں، لیکن تنقید اور تضحیک کے درمیان جب لائن عبور کی جائے، تو یہ امر ناقابل برداشت ہے۔
سوشل میڈیا دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے پشتونوں کے حقوق کی علمبردار تنظیم، چند سیاست دان، صحافی، دانشور اور این جی اوز سب کے سب ایک بات پر متفق ہیں، اور وہ یہ کہ پاکستان میں تمام تر خرابیوں کی ذمے دار فوج ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے پی پی پی بھی اسی گروہ کا حصہ بن گئی ہے۔ ان تمام لوگوں کا مقصد صرف ایک ہے ''فوج کو متنازع بنانا''۔ جو کہ ایک افسوس ناک امر ہے۔
پاکستان کی فوج نے عوام کے بھرپور ساتھ کی وجہ سے ملک کو دہشت گردی سے پاک کیا۔ اس دوران فوج کے جوانوں، پولیس کے جوانوں اور عام لوگوں نے شہادتوں کے نذرانے پیش کیے، اور رفتہ رفتہ شہدا کے خون کے عوض پاکستان میں امن واپس آیا۔ اس کامیابی کا سہرا پاکستانی افواج اور عوام کے سر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کم وسائل کے باوجود پاکستان کی فوج نے کامیابیوں کی داستان رقم کی اور امریکی فوج افغانستان میں ذلیل و رسوا ہوگئی۔ یہی کامیابی چند لوگ ہضم نہیں کرپارہے۔
لہٰذا ہمیں عام پاکستانی کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ جس نے پاکستان کا دفاع قابل لوگوں کے سپرد کیا۔ بصورت دیگر ہمارا حال لیبیا، شام، عراق اور فلسطین سے بھی بدتر ہوتا۔ پاکستان کا عام شہری پاکستان کی فوج کے شانہ بشانہ کھڑا ہے، اور فوج کے خلاف ہونے والے اندرونی اور بیرونی حملوں کو یکسر مسترد کرتا ہے۔ ﷲ تعالیٰ پاکستان کو شرپسندوں کے شر سے محفوظ رکھے (امین)۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
9/11 کے بعد پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پوری دنیا کا ساتھ دیا، جس کے باعث افغان طالبان، تحریک طالبان پاکستان اور ان جیسی کئی تنظیوں نے پاکستان کے خلاف کھلم کھلا جنگ کی۔ اور یوں پورا پاکستان کئی سال تک میدان جنگ بنا رہا۔ اور بے شک قبائلی علاقے اس جنگ کے مرکز و محور تھے۔ اسی صورتِ حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کے دشمن ممالک نے بھی اندرونی کشیدگی کو ہوا دی۔ مقصد صرف پاکستان کو کمزور کرنا تھا۔
کہانی کا تیسرا رخ بھی ملاحظہ ہو۔ افغانستان میں گزشتہ دو دہائیوں سے امریکا اپنی اتحادی فوجوں کے ہمراہ جنگ لڑ رہا ہے۔ ایسی فوج جو دنیا کے جدید ترین جنگی سازوسامان سے لیس ہے، مگر شکست سے دوچار ہے۔ پچاس فیصد سے زیادہ افغانستان نہ تو افغان حکومت کے زیر اثر ہے اور نہ ہی امریکا اور اس کی اتحادی فوج کے۔ ایک لمحے کو یہاں رکیے اور سوچیں کہ ایسا کیوں ہے؟
پاکستان کے موجودہ وزیراعظم عمران خان شاید پہلے وزیراعظم ہیں جو قبائلی علاقوں، قبائلی عوام اور قبائلی رسم و رواج کو بہت قریب سے جانتے ہیں۔ وہ اس بات کا احساس رکھتے ہیں کہ شورش کی وجہ سے پاکستان کے قبائلی علاقے بہت متاثر ہوئے ہیں اور وہ ہر ممکن کو شش کررہے ہیں کہ امن کی واپسی کے بعد قبائلی علاقوں میں تعمیرو ترقی کا کام برق رفتاری سے کیا جائے۔ اس جہد میں حکومتِ پاکستان اور پاک افواج کی سنجیدگی لائقِ تحسین ہے۔
ان تمام کوششوں کو ایک تنظیم ہضم نہیں کر پارہی، جس نے امن کا لبادہ اوڑھ کر پشتون قوم کے حقوق کا علم بلند کیا ہوا ہے۔ کیونکہ اگر حکومت اور فوج قبائلی عوام کی دادرسی کردیتی ہے تو اس تنظیم کی سیاست ہی ختم ہوجاتی ہے۔ بہرکیف اس تنظیم کے مطالبات جائز ہوسکتے ہیں، جیسا کہ میں نے ابتدا میں کہا، لیکن اس تنظیم کے مقاصد اب کسی سے پنہاں نہیں۔ گزشتہ چند روز کے واقعات شک و شبہات پر تصدیق کی مہر ثبت کرتے ہیں۔ مطالبات کو بنیاد بنا کر پاکستانی فوج کو گالیاں دینا، پاکستان کے عوام اور فوج کے مابین ایک خلیج پیدا کرنا ہی اس تنظیم کا بنیادی مقصد ہے۔
پاکستان کی ایک اور بدقسمتی ہے کہ ملک میں ایک مخصوص ٹولہ پاک فوج کو بلاوجہ تنقید کا نشانہ بناتا ہے۔ اس ٹولے میں چند سیاست دان، صحافی، دانشور اور این جی اوز وغیرہ شامل ہیں۔ تنقید پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں، لیکن تنقید اور تضحیک کے درمیان جب لائن عبور کی جائے، تو یہ امر ناقابل برداشت ہے۔
سوشل میڈیا دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے پشتونوں کے حقوق کی علمبردار تنظیم، چند سیاست دان، صحافی، دانشور اور این جی اوز سب کے سب ایک بات پر متفق ہیں، اور وہ یہ کہ پاکستان میں تمام تر خرابیوں کی ذمے دار فوج ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے پی پی پی بھی اسی گروہ کا حصہ بن گئی ہے۔ ان تمام لوگوں کا مقصد صرف ایک ہے ''فوج کو متنازع بنانا''۔ جو کہ ایک افسوس ناک امر ہے۔
پاکستان کی فوج نے عوام کے بھرپور ساتھ کی وجہ سے ملک کو دہشت گردی سے پاک کیا۔ اس دوران فوج کے جوانوں، پولیس کے جوانوں اور عام لوگوں نے شہادتوں کے نذرانے پیش کیے، اور رفتہ رفتہ شہدا کے خون کے عوض پاکستان میں امن واپس آیا۔ اس کامیابی کا سہرا پاکستانی افواج اور عوام کے سر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کم وسائل کے باوجود پاکستان کی فوج نے کامیابیوں کی داستان رقم کی اور امریکی فوج افغانستان میں ذلیل و رسوا ہوگئی۔ یہی کامیابی چند لوگ ہضم نہیں کرپارہے۔
لہٰذا ہمیں عام پاکستانی کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ جس نے پاکستان کا دفاع قابل لوگوں کے سپرد کیا۔ بصورت دیگر ہمارا حال لیبیا، شام، عراق اور فلسطین سے بھی بدتر ہوتا۔ پاکستان کا عام شہری پاکستان کی فوج کے شانہ بشانہ کھڑا ہے، اور فوج کے خلاف ہونے والے اندرونی اور بیرونی حملوں کو یکسر مسترد کرتا ہے۔ ﷲ تعالیٰ پاکستان کو شرپسندوں کے شر سے محفوظ رکھے (امین)۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔