معاشی مشکلات اور ترقی کا خواب
موجودہ حکومت گرداب میں پھنسی ملکی معیشت کو نکالنے کے لیے ہاتھ پاؤں ماررہی ہے
موجودہ حکومت گرداب میں پھنسی ملکی معیشت کو نکالنے کے لیے ہاتھ پاؤں ماررہی ہے (فوٹو: فائل)
مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے ہفتے کو گورنر ہاؤس لاہور میں تاجر برادری اور صنعت کاروں سے تین گھنٹے تک جاری رہنے والی ملاقات میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ حکومت کی مجبوریاں ہیں، ملک کو معاشی طور پرمضبوط کرنے کے لیے حکومت مشکل فیصلے کر رہی ہے، آئی ایم ایف پروگرام میں جانا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، عالمی اور ایشیائی بینک سے بھی کم شرح سود پر 2 تا 3 ارب ڈالر قرض ملنے کی توقع ہے جس سے ملک کی معاشی پوزیشن مزید مضبوط ہوگی' نئے ٹیکسز اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے جیسے اقدامات سے عوام کو مشکل آئے گی مگر پاکستان کا مستقبل ترقی یافتہ اور خوشحال بنا رہے ہیں۔ اس موقع پر گورنر پنجاب چوہدری سرور، مشیر تجارت اینڈ ٹیکسٹائل عبدالرزاق داؤد، وزیر مملکت ریونیو حماد اظہر اور صوبائی وزراء بھی موجود تھے۔
مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان سے میری جب بھی ملاقات ہوتی ہے تو وہ عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے کی بات کرتے ہیں، ملک کو معاشی طور پر مضبوط کرنے کے لیے لانگ ٹرم پالیسیاں بنائی جا رہی ہیں جس کی وجہ سے ہم معاشی استحکام کی جانب آرہے ہیں، آئی ایم ایف سے معاہدے میں تین چار چیزیں ایسی ہیں جو ملک کے کمزور طبقے کے فائدے میں ہیں، آئی ایم ایف نے این ایف سی ایوارڈ پر بات کی اور نہ یہ ان کا حق ہے۔ بجلی قیمت میں اضافے سے 300یونٹس سے کم بجلی استعمال کرنے والوں کو بوجھ سے بچانے کے لیے 216 ارب روپے رکھے جا رہے۔ حکومت نے تجارتی خسارہ کم کیا، زرمبادلہ پر دباؤکم ہوا، بجٹ میں تین بڑی ترجیحات ہیں، ان میں مشکل حالات میں عوام کی بنیادی ضروریات پوری کرنا، معاشی بحران حل کرنا، اخراجات میں کمی اور ٹیکس وصولیاں بڑھانا شامل ہیں۔ قرضوں کا بوجھ عوام پر کم از کم رکھنے کی کوشش کی جائے گی، بجٹ میں اولین ترجیح عام آدمی کو ریلیف دینا ہے۔
موجودہ حکومت گرداب میں پھنسی ملکی معیشت کو نکالنے کے لیے ہاتھ پاؤں ماررہی ہے' کبھی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کی منظوری کے ذریعے حکومتی آمدن میں اضافے کا ڈول ڈالا جاتا ہے تو کبھی نئے ٹیکسز اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے عوام کو ملکی ترقی اور معاشی استحکام کی خوشخبری سنائی جاتی ہے۔ حکومت اپوزیشن پر الزامات کے ذریعے اپنا بچاؤ کر رہی ہے کہ ملکی معاشی بحران کے ذمے دار سابق حکمران ہیں اور آج اسے ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لیے مشکل فیصلے کرنا پڑ رہے ہیں۔ مشیر خزانہ یہ ''خوشخبری'' سنا رہے ہیں کہ حکومت موجودہ حالات میں مراعات دینے کی متحمل نہیں ہو سکتی' بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانا مجبوری ہے' عوام کو ٹیکسوں کا بوجھ کچھ عرصے کے لیے برداشت کرنا پڑے گا۔ عوام تو گزشتہ 70سال سے نہ صرف ٹیکسوں کا بوجھ برداشت کر رہے ہیں بلکہ حکومتی اور پارلیمانی ارکان کو ملنے والی تمام تر مراعات اور سہولتوں کا بوجھ بھی اپنا پیٹ کاٹ کر اٹھا رہے ہیں لیکن صلے میں انھیں ریلیف کے نام پر مہنگائی کا تحفہ ہی ملتا ہے۔
ملکی نظام کو درست کرنا حکمرانوں کی ذمے داری ہے' ہر حکومت نے اپنے تئیں ملکی نظام کو درست کرنے کے لیے پالیسیاں تشکیل دیں لیکن ہر نئی آنے والی حکومت نے سابق حکومت پر الزامات کی بوچھاڑ کر کے خود کو ہر بحران سے بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کی۔ وزیر مملکت میاں حماد اظہر کا کہنا ہے کہ ایف بی آر میں بہت زیادہ تبدیلیوں کی ضرورت ہے' وفاق جو ٹیکس جمع کرتا ہے اس کا 57فیصد صوبوں کو چلا جاتا ہے' حکومت نے آیندہ مالی سال کے لیے ٹیکس ریونیو کا نیا ٹارگٹ فائنل کر لیا اور یقین ہے کہ وہ اسے حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ معاشی چیلنج سے نمٹنے کے لیے ٹیکس ریونیو میں اضافہ ضروری ہے لیکن عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ مزید ڈالنے کی بجائے ٹیکس نیٹ کو بڑھایا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔
چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کہہ رہے ہیں کہ 31لاکھ تاجروں میں سے 90لاکھ ٹیکس سے باہر ہیں جب کہ85فیصد سے زائد ٹیکس ملک کی 300کمپنیاں دیتی ہیں۔ ایف بی آر قانون سے بالاتر ارکان پارلیمنٹ' حکومتی ارکان، سیاستدانوں' جاگیرداروں اور ارب پتی کاروباری لوگوں سے ٹیکس وصول کرے تو اس سے ٹیکس ریونیو میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکتا ہے۔ حکومت 75 فیصدسے زائد ٹیکس مینوفیکچرنگ نظام سے حاصل کر رہی ہے لیکن حکومتی پالیسیوں کے باعث مینوفیکچرنگ کا شعبہ بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ حکومت بجلی اور پٹرول کی قیمتیں بڑھا کر ریونیو میں اضافے کے بجائے زرعی اور صنعتی شعبے کو ترقی دے تو اس سے ہی خاطرخواہ ٹیکس اکٹھا ہو سکتا ہے لیکن اس کے برعکس صنعتی شعبے کو ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبا کر ملکی خوشحالی کے جو خواب دکھائے جا رہے ہیں وہ شرمندہ تعبیر ہوتے ہوئے دکھائی نہیں دے رہے۔
مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان سے میری جب بھی ملاقات ہوتی ہے تو وہ عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے کی بات کرتے ہیں، ملک کو معاشی طور پر مضبوط کرنے کے لیے لانگ ٹرم پالیسیاں بنائی جا رہی ہیں جس کی وجہ سے ہم معاشی استحکام کی جانب آرہے ہیں، آئی ایم ایف سے معاہدے میں تین چار چیزیں ایسی ہیں جو ملک کے کمزور طبقے کے فائدے میں ہیں، آئی ایم ایف نے این ایف سی ایوارڈ پر بات کی اور نہ یہ ان کا حق ہے۔ بجلی قیمت میں اضافے سے 300یونٹس سے کم بجلی استعمال کرنے والوں کو بوجھ سے بچانے کے لیے 216 ارب روپے رکھے جا رہے۔ حکومت نے تجارتی خسارہ کم کیا، زرمبادلہ پر دباؤکم ہوا، بجٹ میں تین بڑی ترجیحات ہیں، ان میں مشکل حالات میں عوام کی بنیادی ضروریات پوری کرنا، معاشی بحران حل کرنا، اخراجات میں کمی اور ٹیکس وصولیاں بڑھانا شامل ہیں۔ قرضوں کا بوجھ عوام پر کم از کم رکھنے کی کوشش کی جائے گی، بجٹ میں اولین ترجیح عام آدمی کو ریلیف دینا ہے۔
موجودہ حکومت گرداب میں پھنسی ملکی معیشت کو نکالنے کے لیے ہاتھ پاؤں ماررہی ہے' کبھی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کی منظوری کے ذریعے حکومتی آمدن میں اضافے کا ڈول ڈالا جاتا ہے تو کبھی نئے ٹیکسز اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے عوام کو ملکی ترقی اور معاشی استحکام کی خوشخبری سنائی جاتی ہے۔ حکومت اپوزیشن پر الزامات کے ذریعے اپنا بچاؤ کر رہی ہے کہ ملکی معاشی بحران کے ذمے دار سابق حکمران ہیں اور آج اسے ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لیے مشکل فیصلے کرنا پڑ رہے ہیں۔ مشیر خزانہ یہ ''خوشخبری'' سنا رہے ہیں کہ حکومت موجودہ حالات میں مراعات دینے کی متحمل نہیں ہو سکتی' بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانا مجبوری ہے' عوام کو ٹیکسوں کا بوجھ کچھ عرصے کے لیے برداشت کرنا پڑے گا۔ عوام تو گزشتہ 70سال سے نہ صرف ٹیکسوں کا بوجھ برداشت کر رہے ہیں بلکہ حکومتی اور پارلیمانی ارکان کو ملنے والی تمام تر مراعات اور سہولتوں کا بوجھ بھی اپنا پیٹ کاٹ کر اٹھا رہے ہیں لیکن صلے میں انھیں ریلیف کے نام پر مہنگائی کا تحفہ ہی ملتا ہے۔
ملکی نظام کو درست کرنا حکمرانوں کی ذمے داری ہے' ہر حکومت نے اپنے تئیں ملکی نظام کو درست کرنے کے لیے پالیسیاں تشکیل دیں لیکن ہر نئی آنے والی حکومت نے سابق حکومت پر الزامات کی بوچھاڑ کر کے خود کو ہر بحران سے بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کی۔ وزیر مملکت میاں حماد اظہر کا کہنا ہے کہ ایف بی آر میں بہت زیادہ تبدیلیوں کی ضرورت ہے' وفاق جو ٹیکس جمع کرتا ہے اس کا 57فیصد صوبوں کو چلا جاتا ہے' حکومت نے آیندہ مالی سال کے لیے ٹیکس ریونیو کا نیا ٹارگٹ فائنل کر لیا اور یقین ہے کہ وہ اسے حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ معاشی چیلنج سے نمٹنے کے لیے ٹیکس ریونیو میں اضافہ ضروری ہے لیکن عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ مزید ڈالنے کی بجائے ٹیکس نیٹ کو بڑھایا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔
چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کہہ رہے ہیں کہ 31لاکھ تاجروں میں سے 90لاکھ ٹیکس سے باہر ہیں جب کہ85فیصد سے زائد ٹیکس ملک کی 300کمپنیاں دیتی ہیں۔ ایف بی آر قانون سے بالاتر ارکان پارلیمنٹ' حکومتی ارکان، سیاستدانوں' جاگیرداروں اور ارب پتی کاروباری لوگوں سے ٹیکس وصول کرے تو اس سے ٹیکس ریونیو میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکتا ہے۔ حکومت 75 فیصدسے زائد ٹیکس مینوفیکچرنگ نظام سے حاصل کر رہی ہے لیکن حکومتی پالیسیوں کے باعث مینوفیکچرنگ کا شعبہ بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ حکومت بجلی اور پٹرول کی قیمتیں بڑھا کر ریونیو میں اضافے کے بجائے زرعی اور صنعتی شعبے کو ترقی دے تو اس سے ہی خاطرخواہ ٹیکس اکٹھا ہو سکتا ہے لیکن اس کے برعکس صنعتی شعبے کو ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبا کر ملکی خوشحالی کے جو خواب دکھائے جا رہے ہیں وہ شرمندہ تعبیر ہوتے ہوئے دکھائی نہیں دے رہے۔