امریکا کا فلسطین کے لیے نام نہاد امن منصوبہ

عرب ممالک ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں

عرب ممالک ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ فوٹو: فائل

ایک طرف امریکا اسرائیل کے ساتھ مل کر فلسطینیوں کا ناطقہ بند کرتا چلا جا رہا ہے اور انھیں ان کی صدیوں پرانی ملکیتوںسے محروم کر رہا ہے، دوسری طرف موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد سے قدم قدم پر فلسطینیوں کو پیچھے دھکیلا جا رہا ہے۔ کبھی اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب کے بجائے امریکی سفارتخانے کو مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان کیا گیا اور پھرگولان کی پہاڑیوں کی ملکیت اسرائیل کو سونپنے کا اعلان بھی کر دیا گیا حالانکہ یہ علاقہ شام کی ملکیت ہے،اسرائیل نے ڈونلڈ ٹرمپ کی اس نیکی کا قرض گولان ہائٹس کو ٹرمپ ہائٹس کا نام دے کر ادا کیا ۔یہی نہیں ٹرمپ اردن کا علاقہ کا بھی اسرائیل کو دینا چاہتا ہے۔

اب دنیا کی رائے عامہ کو دھوکا دینے کے لیے فلسطین کے لیے ایک امن منصوبے کا اعلان کیا گیا جس کے تحت 50 ارب ڈالر کے فنڈز اکٹھے کیے جائیں گے اور فلسطینیوں کے لیے دس لاکھ ملازمتیں تخلیق کرنے کی کوشش بھی کی جائے گی۔ تاہم اس ہدف کے حصول کے لیے ایک عشرے کا وقت رکھا گیا ہے۔کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے اس منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس مقصد کے لیے امریکا دنیا بھر سے چندہ اکٹھا کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس بھاری رقم سے مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں انفرااسٹرکچر میں ڈرامائی تبدیلیاں لائی جائیں گی اور اس کو بے حد بہتر بنا دیا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے بحرین میں ایک بین الاقوامی کانفرنس طلب کر لی گئی ہے جس کی قیادت صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد اور ان کے مشیر جارڈ کشنر کریں گے۔ بعد ازاں اس کانفرنس میں امریکا کے اقتصادی اور معاشری ماہرین کی شرکت کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔


تاہم فلسطینیوں کی طرف سے اس کانفرنس کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ فلسطینی عوام مغربی سامراج کی طرف سے اس قدر چرکے کھا چکے ہیں کہ اب انھیں امریکا اور اس کے حواریوں کی کسی پرخلوص پیشکش پر یقین ہی نہیں رہا۔ فلسطین کی سرزمین پر آج سے ٹھیک ایک سو سال قبل برطانوی وزیر خارجہ بالفور کے اعلان سے اسرائیل کی صیہونی ریاست کا قیام عمل میں آیا تھا اور اب امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کے پے در پے اعلانات سے فلسطین کے قبضے کا معاملہ ہمیشہ کے لیے حل کیا جا رہا ہے۔

اگر عرب ممالک کو دیکھا جائے تو ان کے درمیان بھی تنازعات اتنے شدید ہیں کہ عرب ممالک ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ کہنے کو عرب لیگ نام کی ایک تنظیم موجود ہے لیکن اگر اس تنظیم کے عملی کام کو دیکھا جائے تو وہ صفر نظر آتا ہے۔ مشرق وسطیٰ تنازعات کی آماجگاہ بن چکا ہے۔عرب ممالک ایک دوسرے کی دشمنی میں ایک دوسرے کو ہی تباہ کر رہے ہیں۔ لہٰذا اسرائیل کے لیے یہ حالات انتہائی ساز گار ہیں اور وہ ان سے بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔
Load Next Story