وقار یونس کی قذافی اسٹیڈیم آمد ذمہ داری ملنے کا امکان

تبدیلیوں کے مطالبات کی ہوا نے واٹمور اور فاؤنٹین کو بہت کچھ سوچنے پرمجبور کردیا

تبدیلیوں کے مطالبات کی ہوا نے واٹمور اور فاؤنٹین کو بہت کچھ سوچنے پرمجبور کردیا۔ فوٹو: رائٹرز/فائل

وقار یونس کی پی سی بی ہیڈ کوارٹرز آمد سے انھیں مستقبل میں کوئی ذمہ داری سونپنے کی اطلاعات گردش کرنے لگیں۔

تبدیلیوں کے مطالبات کی ہوا نے کوچ ڈیو واٹمور اور فیلڈنگ کوچ جولین فاؤنٹین کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا، دونوں ایمرجنگ کرکٹزر کیمپ کے دوران کافی دیر تک مینجمنٹ اور ٹیم میں ممکنہ اکھاڑ پچھاڑ پر غور کرتے رہے۔ تفصیلات کے مطابق وقار یونس جمعرات کو اچانک قذافی اسٹیڈیم آئے، بورڈ ذرائع کے مطابق قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان کا دورہ نجی نوعیت کا تھا اور وہ اپنے بیٹوں کو سیر و تفریح کی غرض سے لائے تھے، دوسری طرف ان کی آمد کوچ ڈیو واٹمور اور فیلڈنگ کوچ جولین فاؤنٹین کی بات چیت کا بھی موضوع بن گئی۔

ذرائع کے مطابق دونوں ایمرجنگ کرکٹرزکیمپ کے دوران کافی دیر تک کھلاڑیوں کی رہنمائی کے بجائے نیٹ سے تھوڑے فاصلے پر کھڑے ہوکر پاکستان کرکٹ کی غیر یقینی صورتحال پر بات چیت کرتے رہے۔




وقار یونس کی اچانک آمد ڈیو واٹمور کیلیے بھی حیران کن اطلاع تھی، دونوں غیر ملکی کوچز کا اتفاق تھا کہ پاکستان میں شائقین ہر فیصلہ جلد بازی میں کرانا چاہتے ہیں،ایسے میں کسی بھی شخص کا ایک دن میں بوریا بستر گول کیا جا سکتا ہے، نتائج توقعات کے مطابق نہ ہوں تو فوری طور پر سب کچھ بدل دینے کا مطالبہ شروع کردیا جاتا ہے، نوجوانوں سے نتائج حاصل کرنے کیلیے تھوڑا انتظار کرنا پڑتا ہے لیکن یہاں لوگ فوری نتائج چاہتے ہیں۔ دونوں اپنی گفتگو کے دوران ٹیم میں چند تبدیلیوں کو نوشتہ دیوار سمجھتے ہوئے کسی بھی کھلاڑی کو ٹیم میں قبول کرنے کیلیے ذہنی طور پر تیار نظر آئے۔

شعیب ملک اور عبدالرزاق کی واپسی کے امکانات پر بھی بات ہوئی، نیٹ پریکٹس میں مصروف اوپننگ بیٹسمین توفیق عمر کی ماضی اور حال کی فارم اور فٹنس پر بات کرتے ہوئے کوچ ڈیوواٹمور نے اطمینان کا اظہار کیا۔ ذرائع کے مطابق غیر ملکی کوچز کو اطمینان ہے کہ ٹیم کے نتائج کچھ بھی ہوں، کنٹریکٹ کی مدت ختم ہونے تک تنخواہیں کھری ہونے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی، دونوں پاکستان کرکٹ کا مزاج اچھی طرح سمجھ چکے اور اب بورڈ کی چند طاقتور شخصیات کے فیصلوں کو خوش دلی سے قبول کرنے کو ہی اپنی پروفیشنل کامیابی خیال کرنے لگے ہیں، افادیت پر کئی بار سوالیہ نشان لگنے کے باوجود ان کو ٹیم کی گرتی ہوئی ساکھ کے بارے میں کوئی فکر مندی لاحق نہیں۔
Load Next Story