بھارتی ’’یوم سیاہ‘‘ اور دنیا بھر میں احتجاج

دنیا کے ضمیر نے پہلی بار کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و جبر پر اہل کشمیر سے والہانہ اظہار یکجہتی کیا۔

دنیا کے ضمیر نے پہلی بار کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و جبر پر اہل کشمیر سے والہانہ اظہار یکجہتی کیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور نہتے کشمیریوں پر جارحیت کے خلاف پاکستان سمیت دنیا بھر میں مقیم پاکستانیوں اور کشمیریوں نے پندرہ اگست کو بھارت کا یوم آزادی یوم سیاہ کے طور پر منایا۔ تاہم بھارت اپنی شرانگیزیوں اور کشمیر پر مظالم روا رکھنے سے باز نہ آیا اور معاندانہ انگیجمنٹ کی آڑ میں اپنے یوم آزادی پر، جو پاکستان سمیت دنیا بھر میں یوم سیاہ کے طور پر منایا گیا، لائن آف کنٹرول پر فائرنگ اور گولہ باری جاری رکھی۔ جس کے نتیجہ میں پاک فوج کے 3 جوان اور 2 شہری شہید ہوئے، جب کہ جوابی کارروائی میں 5 بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے۔

میڈیا کے مطابق بھارتی فوج نے لیپا کے گاؤں کو نشانہ بنایا۔ نائیک تنویر، لانس نائیک تیمور، سپاہی رمضان شہید ہوئے اور 2 افراد نے بٹل سیکٹر میں شہادت پائی۔ پاکستانی فوج کی موثر جوابی کارروائی سے متعدد بھارتی بنکر تباہ ہوئے۔

ترجمان پاک فوج کے مطابق بھارت نے موجودہ صورتحال سے توجہ ہٹانے کے لیے فائرنگ کی۔ پاکستان نے سیزفائر معاہدے کی خلاف ورزی پر احتجاج کرتے ہوئے بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو طلب کرلیا۔ بھارت کو بڑی سفارتی شکست کا سامنا ہوا ہے، کیونکہ مسئلہ کشمیر پر 50 سال بعد سلامتی کونسل کا اجلاس سولہ اگست کو طلب کیا گیا۔

پاکستان کو بڑا بریک تھرو ملا ۔ جواب میں بھارتی سفارتی کوششیں اجلاس رکوانے کے لیے نقش بر آب ثابت ہوئیں، رسوائی اس کا مقدر بنی۔ چین کے بعد روس نے بھی اجلاس کی حمایت کی۔ چین نے یہ اجلاس پاکستان کی درخواست کے سیاق وسباق میں بلانے کی استدعا کی تھی ، جو در اصل کشمیریوں کے دکھوں کے مداوے کے لیے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی ایک ویک اپ کال تھی۔ سلامتی کونسل اجلاس سے بھارت میں شدید اضطراب پیدا ہوا ہے، اور وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ بھارت میں سنجیدہ سیاسی اور عوامی طبقہ مودی سے متنفر ہوگیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے ضمیر نے پہلی بار کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و جبر پر اہل کشمیر سے والہانہ اظہار یکجہتی کیا۔ لندن میں بھارتی سفارت خانے کے باہر احتجاج میں15 ہزار افراد نے شرکت کی۔ پاکستان میں بھارت کا یوم آزادی پہلی دفعہ سرکاری سطح پر یوم سیاہ کے طور پر منایا گیا۔

کراچی سے خیبر تک عوام مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور وادی میں مظالم پر بھارت کے خلاف سراپا احتجاج ہوگئے، اور مقبوضہ کشمیر کے عوام کو حق خود ارادیت دینے کا مطالبہ کیا۔ ملک بھر میں قومی پرچم سرنگوں رہا، چاروں صوبائی حکومتوں نے بھی بھارت کا یوم آزادی یوم سیاہ کے طور پر منایا۔ پاکستان، آزادکشمیر، گلگت بلتستان، مقبوضہ کشمیر میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے اور بھارتی مظالم کی مذمت کی گئی۔

شہروں، دیہاتوں اور گلی محلوں میں احتجاج کیا گیا، عمارتوں پر سیاہ جھنڈے لہرائے گئے اور ہزاروں افراد نے سیاہ لباس پہن کر اور بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر بھارت کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرایا۔ کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں بھارت کے یوم آزادی کو یوم سیاہ کے طور پر منایا گیا۔ صوبے کے تمام اضلاع میں احتجاجی ریلیاں، مودی کے پتلے اور ترنگا نذرآتش کیا گیا۔ ہندو برادری بھی احتجاج میں پیش پیش رہی۔ 'کشمیر بن کر رہے گا پاکستان' اور 'بھارت مردہ باد' کے نعرے اور عوام نے پاک فوج کے ساتھ مل کر دشمن کے خلاف جنگ لڑنے کا عزم کیا۔

بلوچستان اسمبلی، ہائی کورٹ سمیت سرکاری عمارتوں پر قوم پرچم سرنگوں رہا۔ بھاگ، کوہلو، نوشکی، پنجگور، خالق آباد، چاغی، ڈیرہ مرادجمالی، نصیرآباد، صحبت پور، مستونگ، ڈیرہ بگٹی، قلات، دکی، ژوب، لورالائی، موسیٰ خیل سمیت کئی اضلاع میں ریلیوں میں عوام نے بھرپور شرکت کی۔ ہندو پنچایت بھاگ کے زیر اہتمام کشمیر کی حمایت اور آزادی کے حوالے سے چبوترا مندر سے چوہدری جیٹھانند، سردار رمیش کمار منیش، گیلا رام کی قیادت میں احتجاجی ریلی نکالی گئی۔

لاہور، اسلام آباد، پشاور، کراچی، راولپنڈی، مظفرآباد، گلگت بلتستان سمیت دیگر شہروں میں بھی یوم سیاہ بھرپور طریقے سے منایا گیا۔ پاکستان کے ساتھ ساتھ بیرون ملک بھی بھارت کے یوم آزادی کو یوم سیاہ کے طور پر منایا گیا۔ اس حوالے سے ہزاروں افراد نے لندن میں بھارتی ہائی کمیشن کے باہر احتجاج و مظاہرہ کیا۔ اس دوران متعدد مظاہرین ہاتھوں میں پاکستانی اور کشمیری پرچم تھامے ہوئے تھے جب کہ کئی افراد نے پلے کارڈ بھی اٹھا رکھے تھے، جس پر کشمیر کے حق میں نعرے درج تھے۔

بھارت مخالف نعرے لگاتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ انڈیا کشمیر میں مظالم بند کرے اور کشمیر کو آزاد کرے۔ اس موقع پر امن و امان برقرار رکھنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری بھی تعینات تھی۔ مظاہرین میں سکھوں کے علاوہ ترکی اور دوسرے ممالک کے شہریوں نے بھی شرکت کی۔دنیا بھر کے میڈیا نے مظاہرے کو بھرپور کوریج دی۔

محتاط اندازے کے مطابق مظاہرین کی تعداد 15ہزار سے زائد تھی۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی زلفی نے مظاہرے سے خطاب میں کہا کہ سلامتی کونسل میں پاکستانی موقف کو تائید حاصل ہوئی، جموں و کشمیر کی صورتحال پر سلامتی کونسل کا اجلاس اس بات کا ثبوت ہے کہ جموں و کشمیر دو طرفہ مسئلہ نہیں، ہم ایک فاشسٹ اور نسل پرست حکومت کے خلاف کھڑے ہیں، ہم ہر فورم پر کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کرتے رہیں گے، مودی گجرات کا قصاب ہے اور امریکا نے اس پر پابندیاں لگائیں، مودی نے اربوں روپے اپنا امیج تبدیل کرنے پر خرچ کیے۔


مظاہرے میں معروف کشمیری رہنما اور برطانوی پارلیمنٹ کے تاحیات رکن پارلیمنٹ لارڈ نذیر نے بھی شرکت کی۔ مانچسٹر میں ہونے والے مظاہرے میں وزیر ریلوے شیخ رشید نے بھی شرکت کی۔ انھوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ مودی کسی غلط فہمی میں نہ رہے، مودی سن لے پاکستان72 سال سے کشمیریوں کے ساتھ کھڑا تھا اور کھڑا رہے گا۔

ٹوکیو میں کشمیر یکجہتی فورم کے زیر اہتمام مظاہرے میں پاکستانی و کشمیری کمیونٹی کے سیکڑوں مرد و خواتین اور بچوں نے شرکت کی۔ کشمیرکونسل یورپ کے زیراہتمام برسلز میں بھارتی سفارتخانے کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔

کشمیر میڈیا سروس کے مطابق مظاہرے میں کشمیریوں، پاکستانیوں، بیلجیم اور دیگر یورپی ممالک میں قائم مختلف تنظیموں کے نمایندوں سمیت مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوںکی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ مسئلہ کشمیر کے ایک بار پھر منظر شہود پر آنے کا نوٹس عالمی میڈیا نے بھی بھرپور طریقہ سے لیا ہے۔ اگرچہ عالمی لیڈر اپنے مفادات کے تحت خاموش ہیں، مگر بی بی سی، سی این این ، آبزرور، گارڈین، نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ اور دیگر اخبارات اور چینلز نے بھارت کی شدید مذمت کی۔

واشنگٹن پوسٹ نے لکھا کہ مودی اور امیت شاہ کے ہوتے ہوئے بھارت سیکولر ملک نہیں رہا۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق بھارتی حکومت بدمعاش بن گئی۔ آبزرور کے استدلال کے تحت مودی نے خود کو غلط راستے پر ڈال لیا۔ گارڈین کا کہنا تھا کہ کشمیریوں کو ریاستی ہندوتوا کا سامنا ہے۔ دی گلوب کی رپورٹ کے مطابق مودی مرد آہن بننا چاہتے ہیں۔ یہی بات ٹورنٹو اسٹار نے لکھی کہ بھارت ہندوتوا کے قریب ہوتا جارہا ہے۔ بی بی سی نے اس ساری کہانی کو مودی کے انتخابات میں فائدہ اٹھانے سے جوڑ دیا ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے خطرہ ظاہر کیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں قتل عام ہوا تو نتائج خطرناک ہونگے، آر ایس ایس کے غنڈے بھیجے جارہے ہیں، مواصلات کا بلیک آؤٹ ہے، اقدامات گجرات میں مسلم نسل کشی کی مثال ہیں۔

اپنے ٹویٹ میں وزیراعظم نے سوال کیا کہ کیا عالمی برادری سربیا طرز کے قتل عام کو خاموشی سے دیکھے گی۔ اس بات کی شدت بھی اب محسوس کی جانی چاہیے کہ مقبوضہ کشمیر میں مسلسل کرفیو اور خوراک و دواؤں میں قلت سے انسانی بحران جنم لے رہا ہے۔ وہ سب کچھ، جسے دنیا نے جنگ عراق میں اپنی آنکھوں سے دیکھا، اسے بھارت کشمیر میں دکھانے کی تیاریاں کررہا ہے۔ چنانچہ حریت رہنماؤں نے اقوام متحدہ سے اپیل کی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں امن فوج بھیجی جائے، قبل اس کے کہ دیر ہوجائے۔

پارلیمانی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین فخر امام نے کہا ہے کہ مودی نے کشمیر پر انتہائی اقدام اٹھا دیا، اب دنیا کو فیصلہ کرنا ہے۔ انھوں نے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں مظالم جیسی مثال کہیں نہیں ملتی، ہر گھر کے باہر ایک فوجی کھڑا ہے۔ فخر امام کا کہنا تھا کہ ہمیں مل کر نیا راستہ اپنانا ہوگا۔ وزیراعظم کی مشیر اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس اعوان نے کہا کہ 5دہائیوں بعد کشمیر پر سلامتی کونسل کا اجلاس پاکستان کی فتح ہے۔

وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جنگ نہیں چاہتے لیکن دفاع کا حق ہے۔ سلامتی کونسل میں نئی چیز نہیں لے کرگئے، کشمیر اس کے ایجنڈے پر موجود ہے۔ امریکا میں پاکستان کے سفیر اسد مجید خان نے کہا کہ اقوام متحدہ کو بھارت کے خلاف سخت کارروائی کرنا ہوگی۔

برطانوی وزیر خارجہ اور کامن ویلتھ کے وزیر ڈاکٹر اینڈریو موریسن نے برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر محمد نفیس ذکریا کو یقین دلایا ہے کہ ان کا ملک مقبوضہ جموں و کشمیر سے آگاہ ہے اور گہری تشویش رکھتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بھارت کے اقدامات سے خطے کو خطرات کا سامنا ہے۔ ایل او سی اور ورکنگ باؤنڈری پر بھی صورتحال کی کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا کہ ہر فورم پر کشمیریوں کا مقدمہ لڑیں گے۔

اگر بھارت کے اندر کی سیاسی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو بظاہر ایک خاموشی نظر آتی ہے۔ کانگریس انتخابات میں شکست کے صدمے سے باہر نہیں نکل سکی ہے۔ راہول گاندھی پارٹی کی سربراہی سے دستبردار ہوچکے ہیں، جس پر بھارتی صحافی سوال کررہے ہیں کہ صرف راہول کا اعتراف پارٹی کی ناکامیوں کے داغ نہیں دھو سکتا، کانگریسی رہنما اور نہرو کے پیروکار کیوں اجتماعی شکست کا اعتراف نہیں کرتے، کیا انھوں نے مودی سے کھانے والی شکست کے بعد عوام سے سچ بولنا بھی چھوڑ دیا ہے۔

جس وقت کانگریس میں پارٹی سطح پر داخلی خلفشار پر بات چیت اور بحث و مباحثہ جاری تھا، امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے یہ بیان داغ دیا کہ امریکا اور بھارت کے مابین اسٹرٹیجک تعلقات اب اسٹرٹیجک شراکت دار میں بدل گئے ہیں۔

لیکن ''نیو انڈین ایکسپریس'' کے ایک مبصر کا یہ مقولہ قابل غور ہے کہ Congress,nothing succeeds like failure In یعنی مبصر نے مودی کی جارحیت کے سامنے کانگریس کے سرینڈر ہونے کو شکست و ناکامی کے کولیٹرول ڈیمج سے تعبیر کیا ہے۔ ایک ایسے سقوط زدہ سیکولر ملک میں مودی کیا کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، اس پر قلم کا گنگ ہوجانا کوئی معنی نہیں رکھتا۔
Load Next Story