بشارالاسد مخالف جنگجو پسپا ہونے لگے
کہا جاتا ہے کہ بشارالاسد کی متحارب فورسز میں القاعدہ الائنس کے کچھ عناصر بھی شامل تھے۔
کہا جاتا ہے کہ بشارالاسد کی متحارب فورسز میں القاعدہ الائنس کے کچھ عناصر بھی شامل تھے۔ فوٹو : فائل
KARACHI:
شام کی بشار الاسد حکومت کے خلاف برسرپیکار جنگجوؤں نے دارالحکومت دمشق کے بعد سب سے بڑا شہر ادلیب خالی کرنا شروع کر دیا، پسپائی کے اس عمل سے علاقے کی تزویراتی حیثیت میں نمایاں تبدیلی واقع ہو گی۔
شام کی خانہ جنگی کو کئی سال ہو چکے ہیں اس دوران کئی دیگر ممالک بھی اس علاقے کی مار دھاڑ میں شامل ہو گئے ،اس پر مستزاد امریکی جنگی طیاروں کی بمباری نے دنیا کے قدیم ترین تاریخی شہر دمشق کا حلیہ بگاڑ دیا اور شہر کی سربلند عمارات ملبے کا ڈھیر بن کر رہ گئیں۔ عمارتوں کی تباہی میں وسیع پیمانے پر جو انسانی جانوں کا اتلاف ہوا اس کا حساب اب تک نہیں لگایا جا سکا۔
ایران کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بشار الاسد حکومت کا حامی ہے اور اپنے تئیں بشار کی حفاظت کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہا ہے۔ دوسری طرف خلیج عرب کی ریاستیں شامی حکومت کے خلاف ہیں اور اس کی بیخ کنی کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس جنگ زدہ ملک میں خوراک و ادویات کی کمی کی وجہ سے قحط سالی کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔اطلاعات کے مطابق صدر بشارالاسد کی فورسز نے اپنے مخالف برسرپیکار جہادیوں اور ان کے اتحادی گروہوں کو ادلیب شہر سے پیچھے دھکیل دیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ بشارالاسد کی متحارب فورسز میں القاعدہ الائنس کے کچھ عناصر بھی شامل تھے۔ اس علاقے کے مکینوں کی تعداد تیس لاکھ نفوس سے زیادہ ہے جو جنگ و جدل سے بری طرح متاثر ہو چکے ہیں اور ان کی حالت خراب ہے۔
منگل کی صبح ادلیب کے علاقے سے جو ترکی کی سرحد کے قریب واقع ہے جہاں تیس لاکھ کے قریب آبادی بتائی جاتی ہے اس علاقے میں ہلاکتوں کی تعداد نو سو کے لگ بھگ ہے جو سب سویلین ہیں۔ منگل کی صبح بشارالاسد کے خلاف جنگ کرنے والے خان شیخوں کے قصبے کو چھوڑ کر باہر نکلنے پرمجبور ہو گئے۔
شام میں حقوق انسانی پر نگاہ رکھنے والے ادارے جنگ کی صورت حال کو مانیٹر کر رہے ہیں۔ اس علاقے سے باہر نکلنے والی تمام سڑکوں کو سرکاری افواج نے گھیرے میں لے رکھا ہے اور کوئی بھی راستہ ان کی بندوقوں کی زد میںآنے کے سبب محفوظ نہیں رہا۔
ادھر ترکی کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ان کا ملک جنگجوؤں کے خالی کردہ علاقے میں اپنی فوج داخل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا البتہ ہم اپنی فوج کو دشمنوں کی فائرنگ کی زد میں بے آسرا نہیں چھوڑیں گے۔
واضح رہے 2000ء سے جاری ہونے والی اس خانہ جنگی میں تین لاکھ ستر ہزار سے زائد شہری نشانۂاجل بن چکے ہیں اس علاقے کی ابتر جنگی حالت دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ کی طرف سے بھی مصالحت کرانے کی کوشش کی گئی ہے مگر اس میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔
شام کی بشار الاسد حکومت کے خلاف برسرپیکار جنگجوؤں نے دارالحکومت دمشق کے بعد سب سے بڑا شہر ادلیب خالی کرنا شروع کر دیا، پسپائی کے اس عمل سے علاقے کی تزویراتی حیثیت میں نمایاں تبدیلی واقع ہو گی۔
شام کی خانہ جنگی کو کئی سال ہو چکے ہیں اس دوران کئی دیگر ممالک بھی اس علاقے کی مار دھاڑ میں شامل ہو گئے ،اس پر مستزاد امریکی جنگی طیاروں کی بمباری نے دنیا کے قدیم ترین تاریخی شہر دمشق کا حلیہ بگاڑ دیا اور شہر کی سربلند عمارات ملبے کا ڈھیر بن کر رہ گئیں۔ عمارتوں کی تباہی میں وسیع پیمانے پر جو انسانی جانوں کا اتلاف ہوا اس کا حساب اب تک نہیں لگایا جا سکا۔
ایران کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بشار الاسد حکومت کا حامی ہے اور اپنے تئیں بشار کی حفاظت کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہا ہے۔ دوسری طرف خلیج عرب کی ریاستیں شامی حکومت کے خلاف ہیں اور اس کی بیخ کنی کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس جنگ زدہ ملک میں خوراک و ادویات کی کمی کی وجہ سے قحط سالی کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔اطلاعات کے مطابق صدر بشارالاسد کی فورسز نے اپنے مخالف برسرپیکار جہادیوں اور ان کے اتحادی گروہوں کو ادلیب شہر سے پیچھے دھکیل دیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ بشارالاسد کی متحارب فورسز میں القاعدہ الائنس کے کچھ عناصر بھی شامل تھے۔ اس علاقے کے مکینوں کی تعداد تیس لاکھ نفوس سے زیادہ ہے جو جنگ و جدل سے بری طرح متاثر ہو چکے ہیں اور ان کی حالت خراب ہے۔
منگل کی صبح ادلیب کے علاقے سے جو ترکی کی سرحد کے قریب واقع ہے جہاں تیس لاکھ کے قریب آبادی بتائی جاتی ہے اس علاقے میں ہلاکتوں کی تعداد نو سو کے لگ بھگ ہے جو سب سویلین ہیں۔ منگل کی صبح بشارالاسد کے خلاف جنگ کرنے والے خان شیخوں کے قصبے کو چھوڑ کر باہر نکلنے پرمجبور ہو گئے۔
شام میں حقوق انسانی پر نگاہ رکھنے والے ادارے جنگ کی صورت حال کو مانیٹر کر رہے ہیں۔ اس علاقے سے باہر نکلنے والی تمام سڑکوں کو سرکاری افواج نے گھیرے میں لے رکھا ہے اور کوئی بھی راستہ ان کی بندوقوں کی زد میںآنے کے سبب محفوظ نہیں رہا۔
ادھر ترکی کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ان کا ملک جنگجوؤں کے خالی کردہ علاقے میں اپنی فوج داخل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا البتہ ہم اپنی فوج کو دشمنوں کی فائرنگ کی زد میں بے آسرا نہیں چھوڑیں گے۔
واضح رہے 2000ء سے جاری ہونے والی اس خانہ جنگی میں تین لاکھ ستر ہزار سے زائد شہری نشانۂاجل بن چکے ہیں اس علاقے کی ابتر جنگی حالت دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ کی طرف سے بھی مصالحت کرانے کی کوشش کی گئی ہے مگر اس میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔