اساتذہ کا عالمی دن
ایک بار پھر عالمی سطح پر یوم اساتذہ کی تقریبات کا سلسلہ جاری ہے۔ انٹر نیٹ اور موبائل پر تہنیتی پیغامات اور ٹیلی فون...
ایک بار پھر عالمی سطح پر یوم اساتذہ کی تقریبات کا سلسلہ جاری ہے۔ انٹر نیٹ اور موبائل پر تہنیتی پیغامات اور ٹیلی فون پر اظہار ممنونیت اور اعلانات تشکر شروع ہو گئے ہیں۔ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی بیشتر کامیاب شخصیات اپنی بھولی بسری یادوں کے خزینے سے اپنے لڑکپن کے دنوں کو یاد کرتی ہیں تو اپنے اس عہد کے اساتذہ کو بھی گزرے ہوئے کل کی یاد دلا دیتی ہیں۔ کہا تو جاتاہے کہ اساتذہ ہمارے مستقبل کے معمار اور طلبا ہمارے مستقبل کی امید ہیں لیکن ہم ان دونوں کی بے اعتنائی پر سنجیدہ اقدامات سے گریزاں رہے ہیں۔
ہمارے اساتذہ ایک مدت سے وسائل اور وقار میں اضافے کے متمنی رہے ہیں جب کہ سرکاری تعلیمی اداروں کے اساتذہ بڑی شدت سے تعلیمی انتظامیہ کے سخت گیر اور تضحیک آمیز رویہ کے شاکی رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ان کے ملازمتی امور کی فائلیں دفاتر کی گرد میں اٹی رہتی ہیں اور انھیں اپنے جائز کاموں کے لیے بھی خوشامدوں سے کام لینا پڑتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انتظامی عہدوں پر براجمان افراد بھی اساتذہ ہی میں سے منتخب کیے جاتے۔ آج بھی جب کلاس روم میں پڑھانے والے کسی استاد کو عارضی طور پر کسی دفتر میں متعین کیا جاتا ہے تو اس کے طور طریقے بدلتے دیر نہیں لگتی۔ اساتذہ کی بہت ساری شکایتوں کی ذمے داری انھی کے ساتھیوں پر آتی ہے۔ ماضی میں تو اساتذہ اور ائمہ وقت کے حکمرانوں کے احکامات پر عمل درآمد کرنے سے انکار کردیتے تھے، آج کا استاد اور استاد سے بننے والا افسر ''اوپر والوں'' کے غلط احکامات پر عمل کیوں کرتا ہے، آج کا دن ہمیں اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
پاکستان میں تعلیم صوبائی معاملات میں شامل ہے اور بیشتر صوبائی حکومتیں تعلیم کے لیے کئی ترغیبات بھی دیتی ہیں مگر مطلوبہ نتائج نہیں ملتے۔ معیار تعلیم ہے کہ ہر دن پست ہوتا جا رہا ہے۔ سرکاری اسکول اور کالج بنجر اور ان کے کلاس روم ویران کیوں ہیں؟ استاد کے کام کو ''پیغمبری پیشہ'' کہنے کی روایت بھی تسلیم لیکن کیا اساتذہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے ان مقولوں اور روایتوں پر عمل کر رہے ہیں یا معاشرے کے دیگر طبقات کی طرح استحصال کے عمل میں حصہ دار بن رہے ہیں۔
کئی قومی اور بین الاقوامی ادارے کئی عشروں سے کلاس روم میں اساتذہ کی تدریس کو موثر بنانے کے عمل میں مصروف ہیں۔ اساتذہ کو تربیت دی جاتی ہے، ورکشاپ منعقد کیے جاتے ہیں، ان سے مشاورت کی جاتی ہے اور آیندہ رہنمائی کے لیے کتابچے تیار کیے جاتے ہیں۔ اساتذہ کے فرسودہ تربیتی کورسز کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالا گیا ہے اور تدریسی رہنمائی کے لیے کئی مواقع اور وسائل فراہم کیے گئے ہیں۔ ایسی تمام سرگرمیوں کا مقصد یہی نہیں ہے کہ تدریس کے عمل کو بامقصد بنایا جائے بلکہ یہ بھی ہے کہ طلبا کو کس طرح ایک دوستانہ ماحول فراہم کیا جائے اور والدین کو بچوں کی تعلیم کے عمل میں کیسے متحرک کیا جائے۔ کثیر سرمایہ، وقت اور افرادی قوت سے روبہ عمل لائی جانے والی ان مشقوں کے نتائج میں کچھ رکاوٹیں ضرور حائل ہوں گی لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اساتذہ کی اکثریت کو تربیت کے ان مواقع سے استفادہ کا موقع ملا ہے۔ ایسے اساتذہ کی تعداد ہزاروں میں ہو گی لیکن کیا کبھی انھوں نے سیکھی ہوئی باتوں پر عمل کرنے کی کوشش کی۔ آج سلام ٹیچر کے حوالے سے مبارکبادیں وصول کرنے والے اطمینان اور مسرت کے ان لمحات میں غور کریں کہ کیا ان سے وابستہ توقعات پوری ہو رہی ہیں؟
صوبائی حکومتوں کے زیر انتظام محکمہ تعلیم ہے جس کے ملازمین کی کثیر تعداد اساتذہ پر مشتمل ہے۔ یہ سب سرکاری خزانے سے تنخواہیں پاتے ہیں جن میں وقتاً فوقتاً اضافہ بھی ہوتا رہتا ہے۔ پھر بھی سرکاری تعلیمی ادارے ویران اور کوچنگ سینٹرز آباد رہتے ہیں۔ اساتذہ کی ان داروں سے عدم دلچسپی جہاں وہ باقاعدہ ملازمت کرتے ہیں اور عوام کے ٹیکسز سے جمع ہونے الی رقم سے تنخواہ پاتے ہیں اس وقت اور تکلیف دہ صورت اختیار کر لیتی ہے جب قوم انھی اساتذہ کو نجی ٹیوشن سینٹرز اور کوچنگ سینٹرز پر بڑی تندہی اور انہماک سے کام کرتے ہوئے دیکھتی ہے۔ وہاں وہ وقت کی پابندی کرتے ہیں اور انتظامیہ کے ہر حکم پر سرتسلیم خم کرتے ہیں۔ اگر یہ سب نجی اداروں یا ان کے مالکان سے ملنے والی تنخواہوں اور مراعات کا تقاضا ہے تو پھر سرکاری خزانے سے ملنے والی تنخواہوں اور مراعات کے تقاضے کیا ہوئے؟
سرکاری مشینری کی غیر فعالیت، ملکی سرمایہ کے زیاں اور تعلیمی اداروں کی زبوں حالی میں سب حصے دار ہیں۔ کیا اساتذہ اس سے بری الذمہ ہو سکتے ہیں، کیا امتحانات کے انعقاد اور جدید طریقوں کے استعمال کے باوجود نتائج کی شفافیت پر انگلیاں نہیں اٹھائی جاتیں؟ رفتہ رفتہ قوم کو انٹری ٹیسٹ کی کڑوی گولی بھی نگلنی پڑی جس سے والدین کا نہیں بلکہ اساتذہ کا بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر فائدہ ہوتا ہے۔ اگرچہ انجمن سازی ہر شہری کا بنیادی حق ہے لیکن یہ حق کسی بھی کارکن کو فرائض سے غفلت، کار منصبی سے کوتاہی اور کام میں تساہل برتنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اساتذہ تنظیمیں اتنی فعال نہیں جتنے فعال ان تنظیموں کے عہدیداران دکھائی دیتے ہیں، کئی ایک کے بارے میں یہ بات عام ہے کہ وہ کلاس روم میں جانے کے تکلف سے بھی ماوراء ہیں۔
اسکولوں اور کالجوں کے تدریسی اوقات میں ان میں سے بیشتر کو سرکاری دفاتر میں افسروں سے مذاکرات کرتے ہوئے دیکھا جاتا ہے۔ اساتذہ کے حقوق کے لیے آیندہ کی حکمت عملیاں مرتب کرنے کے لیے بھی یہ تنظیمیں تدریسی اوقات ہی سے وقت نکالتی ہیں۔ یہ بھی کبھی تعلیم کے مسائل حل کرنے کے لیے اساتذہ کے کردار کو موثر بنانے کی تدابیر سامنے لائیں۔ کوئی ایسا منصوبہ تشکیل دیں جس کے تحت طلبا کو کلاس رومز میں لایا جا سکے اور اداروں کی رونقیں بحال ہوں، انھیں آج یہ غور کرنا چاہیے کہ وہ طالب علم جو آج سلام ٹیچر کا پرخلوص ہدیہ پیش کر رہا ہے، نایاب کیوں ہوتا جا رہا ہے۔ استاد اور طالب علم کے مابین خلوص اور عقیدت کا رشتہ عنقا کیوں ہو چلا ہے، آج کے اساتذہ کو طلبا اور ان کے والدین کی جانب سے وہ پذیرائی کیوں نہیں مل رہی جو ان کے اساتذہ کو حاصل تھی۔
ماضی میں اساتذہ کی تنخواہیں کم تھیں لیکن ان کا احترام بہت زیادہ تھا اب تنخواہوں میں قدرے اضافہ ہو چکا ہے لیکن احترام میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ معاشرتی اقدار کا زوال بھی ہو سکتا ہے لیکن اس زوال کو روکنے کے لیے اساتذہ کو بھی اپنا طرز عمل تبدیل کرنا ہو گا۔ اساتذہ آج بھی اپنے طلبا کے آئیڈیل ہیں اور پاکستان اپنی بقا اور ترقی کے لیے اساتذہ پر انحصار کرتا ہے۔ اس اعتماد کو بحال رکھنا اور مسابقت کے اس دور میں ثابت قدم رہنا اساتذہ ہی کو زیب دیتا ہے وہ ہمت ہار بیٹھیں تو پوری قوم ماضی کی تاریکیوں میں گم ہو جاتی ہے۔ آج کا دن اساتذہ کو ان کی اہمیت اور افادیت کا احساس دلا دے تو یہی ہماری کامیابی ہے اور یہی اس عالمی دن کا مقصد ہے۔
ہمارے اساتذہ ایک مدت سے وسائل اور وقار میں اضافے کے متمنی رہے ہیں جب کہ سرکاری تعلیمی اداروں کے اساتذہ بڑی شدت سے تعلیمی انتظامیہ کے سخت گیر اور تضحیک آمیز رویہ کے شاکی رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ان کے ملازمتی امور کی فائلیں دفاتر کی گرد میں اٹی رہتی ہیں اور انھیں اپنے جائز کاموں کے لیے بھی خوشامدوں سے کام لینا پڑتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انتظامی عہدوں پر براجمان افراد بھی اساتذہ ہی میں سے منتخب کیے جاتے۔ آج بھی جب کلاس روم میں پڑھانے والے کسی استاد کو عارضی طور پر کسی دفتر میں متعین کیا جاتا ہے تو اس کے طور طریقے بدلتے دیر نہیں لگتی۔ اساتذہ کی بہت ساری شکایتوں کی ذمے داری انھی کے ساتھیوں پر آتی ہے۔ ماضی میں تو اساتذہ اور ائمہ وقت کے حکمرانوں کے احکامات پر عمل درآمد کرنے سے انکار کردیتے تھے، آج کا استاد اور استاد سے بننے والا افسر ''اوپر والوں'' کے غلط احکامات پر عمل کیوں کرتا ہے، آج کا دن ہمیں اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
پاکستان میں تعلیم صوبائی معاملات میں شامل ہے اور بیشتر صوبائی حکومتیں تعلیم کے لیے کئی ترغیبات بھی دیتی ہیں مگر مطلوبہ نتائج نہیں ملتے۔ معیار تعلیم ہے کہ ہر دن پست ہوتا جا رہا ہے۔ سرکاری اسکول اور کالج بنجر اور ان کے کلاس روم ویران کیوں ہیں؟ استاد کے کام کو ''پیغمبری پیشہ'' کہنے کی روایت بھی تسلیم لیکن کیا اساتذہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے ان مقولوں اور روایتوں پر عمل کر رہے ہیں یا معاشرے کے دیگر طبقات کی طرح استحصال کے عمل میں حصہ دار بن رہے ہیں۔
کئی قومی اور بین الاقوامی ادارے کئی عشروں سے کلاس روم میں اساتذہ کی تدریس کو موثر بنانے کے عمل میں مصروف ہیں۔ اساتذہ کو تربیت دی جاتی ہے، ورکشاپ منعقد کیے جاتے ہیں، ان سے مشاورت کی جاتی ہے اور آیندہ رہنمائی کے لیے کتابچے تیار کیے جاتے ہیں۔ اساتذہ کے فرسودہ تربیتی کورسز کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالا گیا ہے اور تدریسی رہنمائی کے لیے کئی مواقع اور وسائل فراہم کیے گئے ہیں۔ ایسی تمام سرگرمیوں کا مقصد یہی نہیں ہے کہ تدریس کے عمل کو بامقصد بنایا جائے بلکہ یہ بھی ہے کہ طلبا کو کس طرح ایک دوستانہ ماحول فراہم کیا جائے اور والدین کو بچوں کی تعلیم کے عمل میں کیسے متحرک کیا جائے۔ کثیر سرمایہ، وقت اور افرادی قوت سے روبہ عمل لائی جانے والی ان مشقوں کے نتائج میں کچھ رکاوٹیں ضرور حائل ہوں گی لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اساتذہ کی اکثریت کو تربیت کے ان مواقع سے استفادہ کا موقع ملا ہے۔ ایسے اساتذہ کی تعداد ہزاروں میں ہو گی لیکن کیا کبھی انھوں نے سیکھی ہوئی باتوں پر عمل کرنے کی کوشش کی۔ آج سلام ٹیچر کے حوالے سے مبارکبادیں وصول کرنے والے اطمینان اور مسرت کے ان لمحات میں غور کریں کہ کیا ان سے وابستہ توقعات پوری ہو رہی ہیں؟
صوبائی حکومتوں کے زیر انتظام محکمہ تعلیم ہے جس کے ملازمین کی کثیر تعداد اساتذہ پر مشتمل ہے۔ یہ سب سرکاری خزانے سے تنخواہیں پاتے ہیں جن میں وقتاً فوقتاً اضافہ بھی ہوتا رہتا ہے۔ پھر بھی سرکاری تعلیمی ادارے ویران اور کوچنگ سینٹرز آباد رہتے ہیں۔ اساتذہ کی ان داروں سے عدم دلچسپی جہاں وہ باقاعدہ ملازمت کرتے ہیں اور عوام کے ٹیکسز سے جمع ہونے الی رقم سے تنخواہ پاتے ہیں اس وقت اور تکلیف دہ صورت اختیار کر لیتی ہے جب قوم انھی اساتذہ کو نجی ٹیوشن سینٹرز اور کوچنگ سینٹرز پر بڑی تندہی اور انہماک سے کام کرتے ہوئے دیکھتی ہے۔ وہاں وہ وقت کی پابندی کرتے ہیں اور انتظامیہ کے ہر حکم پر سرتسلیم خم کرتے ہیں۔ اگر یہ سب نجی اداروں یا ان کے مالکان سے ملنے والی تنخواہوں اور مراعات کا تقاضا ہے تو پھر سرکاری خزانے سے ملنے والی تنخواہوں اور مراعات کے تقاضے کیا ہوئے؟
سرکاری مشینری کی غیر فعالیت، ملکی سرمایہ کے زیاں اور تعلیمی اداروں کی زبوں حالی میں سب حصے دار ہیں۔ کیا اساتذہ اس سے بری الذمہ ہو سکتے ہیں، کیا امتحانات کے انعقاد اور جدید طریقوں کے استعمال کے باوجود نتائج کی شفافیت پر انگلیاں نہیں اٹھائی جاتیں؟ رفتہ رفتہ قوم کو انٹری ٹیسٹ کی کڑوی گولی بھی نگلنی پڑی جس سے والدین کا نہیں بلکہ اساتذہ کا بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر فائدہ ہوتا ہے۔ اگرچہ انجمن سازی ہر شہری کا بنیادی حق ہے لیکن یہ حق کسی بھی کارکن کو فرائض سے غفلت، کار منصبی سے کوتاہی اور کام میں تساہل برتنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اساتذہ تنظیمیں اتنی فعال نہیں جتنے فعال ان تنظیموں کے عہدیداران دکھائی دیتے ہیں، کئی ایک کے بارے میں یہ بات عام ہے کہ وہ کلاس روم میں جانے کے تکلف سے بھی ماوراء ہیں۔
اسکولوں اور کالجوں کے تدریسی اوقات میں ان میں سے بیشتر کو سرکاری دفاتر میں افسروں سے مذاکرات کرتے ہوئے دیکھا جاتا ہے۔ اساتذہ کے حقوق کے لیے آیندہ کی حکمت عملیاں مرتب کرنے کے لیے بھی یہ تنظیمیں تدریسی اوقات ہی سے وقت نکالتی ہیں۔ یہ بھی کبھی تعلیم کے مسائل حل کرنے کے لیے اساتذہ کے کردار کو موثر بنانے کی تدابیر سامنے لائیں۔ کوئی ایسا منصوبہ تشکیل دیں جس کے تحت طلبا کو کلاس رومز میں لایا جا سکے اور اداروں کی رونقیں بحال ہوں، انھیں آج یہ غور کرنا چاہیے کہ وہ طالب علم جو آج سلام ٹیچر کا پرخلوص ہدیہ پیش کر رہا ہے، نایاب کیوں ہوتا جا رہا ہے۔ استاد اور طالب علم کے مابین خلوص اور عقیدت کا رشتہ عنقا کیوں ہو چلا ہے، آج کے اساتذہ کو طلبا اور ان کے والدین کی جانب سے وہ پذیرائی کیوں نہیں مل رہی جو ان کے اساتذہ کو حاصل تھی۔
ماضی میں اساتذہ کی تنخواہیں کم تھیں لیکن ان کا احترام بہت زیادہ تھا اب تنخواہوں میں قدرے اضافہ ہو چکا ہے لیکن احترام میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ معاشرتی اقدار کا زوال بھی ہو سکتا ہے لیکن اس زوال کو روکنے کے لیے اساتذہ کو بھی اپنا طرز عمل تبدیل کرنا ہو گا۔ اساتذہ آج بھی اپنے طلبا کے آئیڈیل ہیں اور پاکستان اپنی بقا اور ترقی کے لیے اساتذہ پر انحصار کرتا ہے۔ اس اعتماد کو بحال رکھنا اور مسابقت کے اس دور میں ثابت قدم رہنا اساتذہ ہی کو زیب دیتا ہے وہ ہمت ہار بیٹھیں تو پوری قوم ماضی کی تاریکیوں میں گم ہو جاتی ہے۔ آج کا دن اساتذہ کو ان کی اہمیت اور افادیت کا احساس دلا دے تو یہی ہماری کامیابی ہے اور یہی اس عالمی دن کا مقصد ہے۔