ہوا کے مخالف سمت چلنا سیکھیے
جب ہوا کا رخ تبدیل ہوتا ہے تو کئی لوگ سمت کے مخالف ہوا کے چلنے سے گھبرا کر اپنا ارادہ بدل دیتے ہیں
ہوا کا رخ بھی اللہ رب العالمین کے حکم کا محتاج ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)
لڑکپن میں اپنے استاد محترم سے بادشاہ کی ایک مختصر کہانی سنی تھی جس میں بادشاہ کو اپنی بیٹی کےلیے اس کے جیون ساتھی کی تلاش تھی۔ اس لیے بادشاہ نے کئی خواہشمند افراد کو دربار میں مدعو کیا اور سب سے ایک سوال پوچھنے پر توجہ مرکوز رکھی۔ وہ سوال تھا ''تم میں سے ہوا کے مخالف سمت پر چلنا کون جانتا ہے؟'' یہ سوال جہاں دربار میں موجود لوگوں کےلیے قابل غور تھا تو اس سے کہیں زیادہ مشکل اس کا جواب تھا۔ آخرکار بادشاہ کی بیٹی سے شادی کے خواہشمند افراد تھک ہار کر اپنی خواہش سینے میں لیے واپس لوٹ گئے۔
ایک وزیر نے بادشاہ کی جناب میں اس سوال سے متعلق پوچھنے کی جسارت کی تو بادشاہ نے کچھ یوں کہا: ''انسان کی زندگی میں خوشی اور غم لازم و ملزوم ہیں۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ جب ہوا کا رخ تبدیل ہوتا ہے تو کئی لوگ سمت کے مخالف ہوا کے چلنے سے گھبرا کر اپنا ارادہ بدل دیتے ہیں۔ اپنی ذمے داریوں سے لاپروا ہوجاتے ہیں، جبکہ قابل اور باہمت لوگ ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی منزل پانے کی جستجو میں لگے رہتے ہیں۔ لہٰذا میں ایسے شخص کے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی کرنے کا خواہشمند ہوں جو ہوا کا رخ مخالف سمت ہونے پر اللہ رب العالمین پر پختہ یقین رکھے اور اپنی ہمت، محنت، لگن اور قابلیت کے ذریعے اپنے برے حالات بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہو''۔
بادشاہ کا یہ جملہ ''تم میں سے ہوا کے مخالف سمت پر چلنا کون جانتا ہے؟'' اگرچہ اپنی بیٹی سے شادی کے خواہشمند شخص کےلیے بہت چھوٹا تھا لیکن یہ جملہ بہت معنی خیز ہے۔ اگر ہم اپنے آس پاس اور ملک کے حالات کا جائزہ لیں تو ہمیں لاتعداد ایسے افراد ملیں گے جو ابتر حالات کے پیش نظر ہمت ہار کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ دوسروں پر لعن طعن کرنا، ایک دوسرے سے حسد کرنا، معلومات نہ ہونے کی وجہ سے ملکی حالات پر بے مقصد گفتگو کرنا اور اپنی پریشانی و مشکلات کا ازالہ کرنے کے بجائے اپنی صلاحیتوں کو غیر ضروری کاموں میں صرف کردینا آج کے لوگوں کا مشغلہ نظر آتا ہے۔
اکثر لوگ ملکی حالات سے پریشان ہیں اور ہونا بھی چاہئے لیکن کیا مایوسی، خوداعتمادی اور بے راہ روی پر خود کو اور دوسروں کو دھکیلنے والوں کے پاس اس بات کا جواب ہے کہ آخر انہوں نے اپنی صلاحیت کبھی اپنی کامیابی کےلیے بروئے کار لانے کی کوشش کی؟
کیا کبھی حالات کے ساتھ سمجھوتہ کرنے والوں نے اپنی قابلیت کو اپنے حالات بدلنے میں آزمانے کی کوشش کی؟ یا پھر مایوسی اور ناامید لوگوں نے ہوا کے رخ کے تبدیل ہونے کے بعد اپنے مقصد کے حصول کی کوشش کی؟ اگر نہیں، تو ایسے لوگوں کےلیے یہ قابل فکر ہے کہ حالات کا رونا رونے والوں نے اپنا وقت بے وجہ کے کاموں اور سرگرمیوں میں ضائع کردیا ہے اور کررہے ہیں۔ جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے کہ کوئی شخص اپنی صلاحیت اور قابلیت کا مظاہرہ کرنے کو تیار نہیں اور نہ ہی کسی کو اپنی ذمے داریاں ادا کرنے کی فکر ہے۔
یہاں قرآنی آیات کا ترجمہ یاد آرہا ہے
''یہ اس لیے کہ خدا کسی قوم کو دی ہوئی نعمت کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے تئیں تغیر نہ پیدا کردیں کہ خدا سننے والا بھی ہے اور جاننے والا بھی ہے۔'' (سورۃ انفال، آیت نمبر 53)
لہٰذا حالات سے پریشان اور کسی معجزے کے منتظر افراد کی خدمت میں عرض ہے کہ اگر آپ کی زندگی میں غم کے بادل چھا چکے ہیں اور ہوا نے اپنا رخ تبدیل کرلیا ہے تو بالکل بھی نہ گھبرائیں، کیونکہ ہوا کا رخ بھی اللہ رب العالمین کے حکم کا محتاج ہے۔ اس لیے آپ اسی رب العالمین کی ارفع و اعلیٰ ذات پر پختہ یقین رکھتے ہوئے ہمت، محنت، لگن اور صلاحیت کو آزما کر اپنی قابلیت کا لوہا منوانے کی کوشش کریں۔ ان شاء اللہ کامیابی آپ کا مقدر ہوگی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ایک وزیر نے بادشاہ کی جناب میں اس سوال سے متعلق پوچھنے کی جسارت کی تو بادشاہ نے کچھ یوں کہا: ''انسان کی زندگی میں خوشی اور غم لازم و ملزوم ہیں۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ جب ہوا کا رخ تبدیل ہوتا ہے تو کئی لوگ سمت کے مخالف ہوا کے چلنے سے گھبرا کر اپنا ارادہ بدل دیتے ہیں۔ اپنی ذمے داریوں سے لاپروا ہوجاتے ہیں، جبکہ قابل اور باہمت لوگ ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی منزل پانے کی جستجو میں لگے رہتے ہیں۔ لہٰذا میں ایسے شخص کے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی کرنے کا خواہشمند ہوں جو ہوا کا رخ مخالف سمت ہونے پر اللہ رب العالمین پر پختہ یقین رکھے اور اپنی ہمت، محنت، لگن اور قابلیت کے ذریعے اپنے برے حالات بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہو''۔
بادشاہ کا یہ جملہ ''تم میں سے ہوا کے مخالف سمت پر چلنا کون جانتا ہے؟'' اگرچہ اپنی بیٹی سے شادی کے خواہشمند شخص کےلیے بہت چھوٹا تھا لیکن یہ جملہ بہت معنی خیز ہے۔ اگر ہم اپنے آس پاس اور ملک کے حالات کا جائزہ لیں تو ہمیں لاتعداد ایسے افراد ملیں گے جو ابتر حالات کے پیش نظر ہمت ہار کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ دوسروں پر لعن طعن کرنا، ایک دوسرے سے حسد کرنا، معلومات نہ ہونے کی وجہ سے ملکی حالات پر بے مقصد گفتگو کرنا اور اپنی پریشانی و مشکلات کا ازالہ کرنے کے بجائے اپنی صلاحیتوں کو غیر ضروری کاموں میں صرف کردینا آج کے لوگوں کا مشغلہ نظر آتا ہے۔
اکثر لوگ ملکی حالات سے پریشان ہیں اور ہونا بھی چاہئے لیکن کیا مایوسی، خوداعتمادی اور بے راہ روی پر خود کو اور دوسروں کو دھکیلنے والوں کے پاس اس بات کا جواب ہے کہ آخر انہوں نے اپنی صلاحیت کبھی اپنی کامیابی کےلیے بروئے کار لانے کی کوشش کی؟
کیا کبھی حالات کے ساتھ سمجھوتہ کرنے والوں نے اپنی قابلیت کو اپنے حالات بدلنے میں آزمانے کی کوشش کی؟ یا پھر مایوسی اور ناامید لوگوں نے ہوا کے رخ کے تبدیل ہونے کے بعد اپنے مقصد کے حصول کی کوشش کی؟ اگر نہیں، تو ایسے لوگوں کےلیے یہ قابل فکر ہے کہ حالات کا رونا رونے والوں نے اپنا وقت بے وجہ کے کاموں اور سرگرمیوں میں ضائع کردیا ہے اور کررہے ہیں۔ جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے کہ کوئی شخص اپنی صلاحیت اور قابلیت کا مظاہرہ کرنے کو تیار نہیں اور نہ ہی کسی کو اپنی ذمے داریاں ادا کرنے کی فکر ہے۔
یہاں قرآنی آیات کا ترجمہ یاد آرہا ہے
''یہ اس لیے کہ خدا کسی قوم کو دی ہوئی نعمت کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے تئیں تغیر نہ پیدا کردیں کہ خدا سننے والا بھی ہے اور جاننے والا بھی ہے۔'' (سورۃ انفال، آیت نمبر 53)
لہٰذا حالات سے پریشان اور کسی معجزے کے منتظر افراد کی خدمت میں عرض ہے کہ اگر آپ کی زندگی میں غم کے بادل چھا چکے ہیں اور ہوا نے اپنا رخ تبدیل کرلیا ہے تو بالکل بھی نہ گھبرائیں، کیونکہ ہوا کا رخ بھی اللہ رب العالمین کے حکم کا محتاج ہے۔ اس لیے آپ اسی رب العالمین کی ارفع و اعلیٰ ذات پر پختہ یقین رکھتے ہوئے ہمت، محنت، لگن اور صلاحیت کو آزما کر اپنی قابلیت کا لوہا منوانے کی کوشش کریں۔ ان شاء اللہ کامیابی آپ کا مقدر ہوگی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔