ترکی کیخلاف کرد جنگجو اور شامی فوج کا عسکری اتحاد

تل ابیض: ترک فوج کی شام میں کرد کے زیر تسلط علاقوں میں فوجی کارروائی کے جواب میں ایک دوسرے کے سخت مخالف شامی فوج اور کرد جنگجوؤں نے عسکری اتحاد بنالیا ہے۔

بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق شام کے سرکاری ٹیلی ویژن سے نشر ہونے والی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ شامی فوج کے دستے ترک فوج کو کارروائی سے روکنے کے لیے شمالی علاقوں تل ابیض اور راس الن کی جانب پیش قدمی کر رہے ہیں۔

دوسری جانب کردوں کی خود مختار حکومت کے ایک عہدیدار نے سوشل میڈیا پر جاری بیان میں کہا ہے کہ شامی حکومت اور کردوں کے درمیان ترک فوج کے حملوں کو روکنے کے لیے ایک معاہدہ طے پا گیا ہے جس کے تحت شامی فوج شام اور ترکی کی سرحد پر تعینات ہوگی۔

اس معاہدے کے بعد شامی فوج ترک سرحد کے نزدیک تعینات ہوجائے گی جہاں اس سے قبل امریکی فوجی تعینات تھے تاہم ترک صدر کی درخواست پر صدر ٹرمپ نے اپنی فوجی واپس بلالیے تھے تاکہ ترک فوجی بغیر رکاوٹ کے کردوں کے علاقوں میں داخل ہوسکیں۔

شامی حکومت اور کرد جنگجوؤں سخت حریف رہے ہیں اور دونوں کے درمیان اتحاد حیران کن ہے جس کے پیچھے روس کی کاوشیں کار فرما ہیں۔ اس طرح خطے میں ایک نئی صف بندی ہوگئی ہے۔ امریکا جو کردوں کا اتحادی تھا اب بیگانہ ہے جب کہ روس اور شام  کردوں سے جا ملے ہیں۔

ترکی نے بدھ کے روز سے شام کے اُن سرحدی علاقوں میں فوجی کارروائی شروع کی ہے جہاں کردوں کی حکومت ہے، اس علاقے میں امریکا نے کرد جنگجوؤں کے ساتھ مل داعش کے خلاف طویل جنگ لڑی اور کامیابی حاصل کی۔ داعش جنگجو اب بھی کردوں کی قید میں تاہم ترکی فوج کی کارروائی کے بعد سے درجنوں داعش جنگجو جیل سے فرار ہوگئے ہیں۔

شکست خوردہ داعش پھر سے اپنے قدم نہ جمالیں اس خدشے کے پیش نظر عالمی قوتوں نے ترک فوج کی کارروائی کی سخت مخالفت کی ہے۔ ہالینڈ، جرمنی اور فرانس نے ترکی کو اسلحہ فروخت سے انکار کردیا ہے جب کہ امریکا نے بھی ترک فوج سے کارروائی کے دوران داعش قیدیوں کے فرار نہ ہونے کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔