مارچ مذاکرات اور نتائج

جے یو آئی کے سربراہ کے راستے میں اچانک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دیوار بن کر کھڑی ہوگئیں

جے یو آئی (ف) کے سربراہ اسلام آباد کی جانب جلوس لانے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ نتیجے میں میڈیا ان کی جانب متوجہ ہوگیا۔ سارے اہم مسائل پیچھے چلے گئے اور پاکستان کے مقبول ٹی وی تبصروں پر بحث کا مرکزی موضوع بھی اسی مارچ کے بارے میں ہے۔

اس بحث اور تبصرے میں حکومت پر مذاکرات کے لیے بھی تجاویز دی جا رہی تھیں یقیناً بعض سیاسی حلقوں کی جانب سے بھی یہ تجویز آئی ہوگی۔ غالب امکان یہی تھا کہ جے یو آئی اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے کے قریب آگئی ہے، ممکن تھا کہ جے یو آئی کے سربراہ وفاقی وزیر کے ہم پلہ عہدہ حاصل کرلیتے اب بھی اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا ہے۔

جے یو آئی کے سربراہ کے راستے میں اچانک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دیوار بن کر کھڑی ہوگئیں۔ وہ مذاکرات جس سے معاملات آگے بڑھتے اچانک التوا کا شکار ہوگئے۔ جے یو آئی سے مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت کا ایک حصہ یہ توقع کر رہا تھا کہ وہ اس مارچ کے ذریعے ملک میں ایسی فضا پیدا کر دیں گے جس سے اپوزیشن کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اسمبلیوں سے مستعفیٰ ہونے کے لیے تیار ہوجائیں۔

ابتدا میں اس خواہش کا اظہار خود جے یو آئی کے سربراہ نے کیا تھا 2018 کے انتخابات کے بعد ان کی تجویز یہی تھی کہ اپوزیشن کے تمام اراکین مستعفی ہوجائیں۔ لیکن پہلے پیپلز پارٹی نے اور بعدازاں مسلم لیگ (ن) نے اسے رد کردیا۔ مذاکرات معطل ہونے کا یہ سلسلہ زیادہ دیر قائم نہیں رہے گا فی الحال کچھ نہ کچھ درپردہ سلسلہ جاری ہوگا۔

موجودہ حالات میں کسی قسم کے تصادم کی راہ جے یو آئی اور اپوزیشن کو مزید نقصان پہنچا سکتی ہے۔ جس طرح سینیٹ کے چیئرمین کے انتخابات میں ہوا تھا۔ مذاکرات کے نتیجے میں کچھ عرصے میں حالات سازگار ہوں گے۔ جے یو آئی کے سربراہ ایک مرتبہ پھر اقتدار کے ایوان میں ہوں گے۔ اپنی سیاسی مہارت کی وجہ سے وہ مزید آگے بڑھ سکتے ہیں۔ وہی حیثیت حاصل کرسکتے ہیں جو سابقہ دور حکومت میں تھی۔

اس بات کا بھی امکان ہے کہ مذاکرات بھی ہوجائیں کوئی اعلان بھی نہ ہو۔ بظاہر حکومت کی مخالفت بھی جاری رہے۔ آزادی مارچ بھی پر امن طور پر یا ہلکی پھلکی طے شدہ چپقلش کے ساتھ منعقد ہوجائے اور اندرون خانہ معاہدے کے تحت کچھ عرصے بعد جے یو آئی حکومت کا حصہ بن جائے۔ ایسی صورت میں مسلم لیگ (ن) مزید انتشار کا شکار ہوجائے گی۔ مذاکرات ہر صورت میں ہوں گے۔ جے یو آئی کے سربراہ منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں انھیں معلوم ہے کہ اگر یہ وقت ہاتھ سے نکل گیا تو طویل عرصے کا انتظار ہوگا اور یہ عرصہ بہت زیادہ طویل بھی ہوسکتا ہے۔

یہ تعطل حقیقی بھی ہو جو میڈیا پر ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کوئی بات چیت نہیں ہو رہی ہے نہ ہی ہوگی۔ ایسی صورت میں بھی بات چیت پر ہی معاملات طے ہوں گے یہ تصور کرلینا کہ جو کچھ سامنے ہے وہی پس پردہ ہے انتہائی غلط ہوگا۔ عوام کے سامنے جو بیانات دیے جاتے ہیں وہ پس پردہ حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے اور بعض اس کے بالکل برخلاف ہوتے ہیں۔

بظاہر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے جے یو آئی کے سربراہ کے پروگرام کی حمایت کی ہے لیکن اس میں عملی شرکت بہت محدود پیمانے پر ہے اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جے یو آئی کے سربراہ اس سلسلے میں مرکزی کردار ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کسی چھوٹی سیاسی جماعت کو حاوی نہیں ہونے دینا چاہتی ہیں۔ اس کا اظہار وہ علی الاعلان نہیں کر رہے لیکن عملاً وہ کسی صورت میں جے یو آئی کو مرکزی کردار نہیں دینا چاہتے ہیں۔ نہ ہی وہ ایسے حالات پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ صرف جے یو آئی ہی کسی معاہدے یا فوائد کے حصول میں کامیاب ہوسکے۔


اسی طرح اپوزیشن کا اندرونی انتشار اپنی جگہ پر قائم ہے۔ آنے والے دنوں میں اسی طرح کی رسہ کشی جاری رہی تو اس کے دو ممکنہ نتائج ہوسکتے ہیں۔ اسلام آباد میں ایک بڑا جلسہ عام ہوجائے اور شرکا واپس چلے جائیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ تصادم اور بڑے پیمانے پرگرفتاریاں ہوں۔

ایسی صورت میں بھی نقصان اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں اور خصوصاً جے یو آئی کو ہوگا۔ ملک میں نظام زندگی کو مفلوج کرنے کا فارمولا کارگر نہیں ہوسکتا ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عوام میں اس کی پذیرائی نہیں ہوگی۔ ماضی میں اس طرح کے حالات پیدا کرنے کے نتائج کبھی اچھے نہیں رہے۔ مختلف تجربات سے گزرنے کے بعد ملک کی انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس طرح کے حالات سے نمٹنے کے لیے زیادہ موثر ہوچکے ہیں۔ جے یو آئی اور اپوزیشن کی جماعتوں کے لیے اہم ترین مسئلہ ایک دوسرے کے ساتھ معاملات کوکسی حتمی لائحہ عمل کی شکل نہ دینا ہے۔ ایک طرف وہ حکومت کی تبدیلی کے خواہاں ہیں، لیکن قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش نہیں کرتے۔

وہ وزیر اعظم کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہیں ، لیکن متبادل وزیر اعظم کا نام پیش نہیں کرتے۔ اسمبلیوں کے خاتمے اور نئے انتخابات کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ وہ یہ مطالبہ کس سے کر رہے ہیں ، وہ ان اسمبلیوں کو تسلیم نہیں کرتے لیکن اس سے مستعفیٰ ہونے کو تیار نہیں ہیں۔ اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں واضح لائحہ عمل طے کر لیں تو انھیں سڑکوں پر اپنے کارکنوں کو نکالنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ایک سادہ سا فارمولا یہ ہوگا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف اس بات پر تیار ہوجائیں کہ اپوزیشن کا ایک وسیع اتحاد ہوگا جس کی سربراہی بلاول بھٹو کریں گے۔

حکومت کی تبدیلی کی صورت میں آیندہ حکومت بلاول بھٹو کی سربراہی میں ہوگی پنجاب کا وزیر اعلیٰ مسلم لیگ (ن) سے ہوگا۔ دیگر صوبوں میں بھی شراکت کا فارمولا پہلے تیارکرلیا جائے۔ یہ سارے معاملات طے کرنے کے بعد قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں وزیر اعظم پاکستان اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جائے۔ اگر بھرپور تیاری ہو تو اس بات کا امکان موجود ہے کہ تحریک کامیاب ہوجائے اور تبدیلی آجائے۔

دوسرا طریقہ کار اسمبلیوں سے استعفوں کا ہے، اس کے لیے بھی بھرپور تیاری کی ضرورت ہے ہر متعلقہ رکن کو مکمل اعتماد میں لینا ہوگا۔ ہنگامہ آرائی اور احتجاج کی فضا پیدا کرکے اپنے ہی اراکین پر مستعفی ہونے کے لیے دباؤ منفی طریقہ کار ہوگا۔ پاکستان میں تشدد اور ہنگامہ آرائی کے تجربات ناکام رہے۔ نقصان ان قوتوں کو ہوا جو تشدد کے ذمے دار تھے۔

ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف جو تحریک چلائی گئی تھی اس میں ہونے والی ہنگامہ آرائی پر اپریل میں قابو پا لیا گیا تھا جس وقت ملک میں مارشل لا لگا تھا۔ اس وقت ملک میں مکمل امن تھا۔ مارشل لا کے بعد انتخابات کا اعلان کیا گیا تھا۔ جب انتخابی مہم عروج پر تھی تو حکومت کو ہر طرف سے یہ اطلاع ملی کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوجائے گی۔ ان اطلاعات کے بعد انتخابات ملتوی ہوئے۔ بعد ازاں سب سے زیادہ سیاسی نقصان جماعت اسلامی کا ہوا جوکہ اس تحریک کی روح رواں تھی۔ اس وقت کے مقابلے میں حالات بھی بہت زیادہ تبدیل ہوچکے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو اندرونی اصلاحات کے ذریعے خود کو طاقتور بنانا ہوگا۔

اس کا واحد طریقہ کار سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت کا عمل ہے ، نئی قیادت کے لیے راہ ہموار کرنا ہے۔ اگر سیاسی جماعتیں خاندانی جاگیر کی طرح کام کریں گی تو وہ روز بروز خود کو کمزور کریں گے۔ جمہوریت کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں بھی صحیح معنوں میں جمہوری ہوں۔ جمہوریت اور سیاست کے ارتقائی عمل میں نت نئی تبدیلیاں آرہی ہیں۔ بہتر معاشی پروگرام ، اچھی حکمرانی موجودہ دورکی بنیادی ضرورت ہیں۔

سیاسی جماعتوں کو اس سلسلے میں خود کو وقت کے دھارے سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ سیاسی جماعتیں خود کو جدید تقاضوں کے مطابق خود کو بہتر بنائیں تو جمہوری عمل مزید مستحکم ہوگا۔ اس بات کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ پاکستان اپنے مخصوص محل وقوع کی وجہ سے بین الاقوامی قوتوں کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ ملک کی تمام مقتدر قوتوں بشمول تمام سیاسی رہنماؤں کو ایسا کردار ادا کرنا چاہیے جس سے عدم استحکام کا خاتمہ ہو اس میں اضافہ انتہائی خوفناک تباہی اور بربادی کی راہ ہموار کرے گا۔ فی الحال عوام اشرافیہ کی اقتدارکی کھینچا تانی میں ایک تماشائی ہیں۔ اگر یہ اشرافیہ کے خلاف متحد ہوکر کسی منظم شکل میں آگے آگئے ایسی صورت میں موجودہ سیاسی قوتیں اپنا وجود بھی کھو دیں گی۔
Load Next Story