سیاسی تبدیلی

حکومت کی تبدیلی کا فیصلہ اگر وزیر اعظم عمران خان کریں گے ایسی صورت میں وہ تحریک انصاف کا ہی کوئی سرگرم نوجوان ہوگا۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف کو بیرون ملک علاج کی اجازت کے بعد پاکستان کی سیاست ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔

مختلف حلقوں میں سوال کیا جا رہا ہے کہ سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کو خرابی صحت کی بنیاد پر ضمانت پر رہائی ملے گی یا نہیں۔ کیا وہ بھی بیرون ملک علاج کے لیے جا سکیں گے؟ کچھ لوگوں نے یہ بھی تبصرہ کیا کہ جے یو آئی کے سربراہ کی جانب سے آزادی مارچ بھی اسی سلسلے کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا تاکہ حکومت کی توجہ کو مارچ کی طرف رکھا جائے۔ اب یہ کہا جا رہا ہے کہ جلد ہی پنجاب میں حکومت تبدیل ہوگی۔

حکومت کی تبدیلی کا فیصلہ اگر وزیر اعظم عمران خان کریں گے ایسی صورت میں وہ تحریک انصاف کا ہی کوئی سرگرم نوجوان ہوگا۔ یہ تبدیلی ایک ہی صورت میں ممکن ہوگی جب تحریک انصاف کی قیادت کو یہ یقین ہوگا کہ وہ نیا وزیر اعلیٰ آسانی سے منتخب کرلیں گے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کی تبدیلی آسان مرحلہ نہیں ہے۔

وزیر اعلیٰ کو مستعفیٰ ہونا ہوگا۔ کابینہ بھی مستعفیٰ ہوگی اسمبلی کو پنجاب کا نیا وزیر اعلیٰ منتخب کرنا ہوگا۔ یہ مرحلہ انتہائی پیچیدہ ہے پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کے پاس واضح اکثریت نہیں ہے اتحادیوں کی مرضی اور حمایت کے بغیر یہ تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ اچانک کسی نااتفاقی کی صورت میں اس میں ناکامی بھی ہوسکتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اسی اندیشے کی وجہ سے پنجاب میں تبدیلی سے اجتناب کر رہے ہیں۔

بعض مبصرین کے مطابق مسلم لیگ (ق) کو پنجاب میں آسانی سے حمایت مل سکتی ہے اور ایک مرتبہ پھر پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ پنجاب کا مسند سنبھال سکتے ہیں اپنے سیاسی اثر و رسوخ اور تعلقات کی وجہ سے مسلم لیگ (ق) کی قیادت مسلم لیگ (ن) کے ایک اہم حصے کو اپنے ساتھ ملا سکتی ہے۔ وہ پنجاب کی سطح پر پیپلز پارٹی کی حمایت بھی حاصل کرسکتی ہے۔

یہ معاملہ بھی اس لیے پیچیدہ ہے کہ خود تحریک انصاف کے تمام اراکین پنجاب اسمبلی کو اس طرح کی تبدیلی کے لیے آمادہ کرنا مشکل ہوگا۔ تحریک انصاف کے اراکین اپنی پارٹی کے کسی رکن کے لیے باآسانی تیار ہوں گے۔ اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی نے بھی تردید کردی ہے کہ وہ حکومت کو غیر مستحکم نہیں کریں گے۔

خود وزیر اعظم عمران خان یہ محسوس کریں گے کہ اس طرح کے عمل سے پنجاب پر ان کی گرفت کمزور ہوجائے گی۔ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار ان کی ہی پالیسی کو پنجاب میں نافذ کرنے کے لیے ہر وقت آمادہ ہوں گے جیساکہ اب تک نظر آیا ہے۔ لیکن پنجاب میں مسلم لیگ (ق) کی وزارت اعلیٰ کی صورت میں پنجاب میں مسلم لیگ (ق) کا اثر بڑھتا چلا جائے گا۔

تحریک انصاف کی بھرپور کوشش ہوگی کہ وزارت اعلیٰ انھی کے پاس رہے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ مرکز میں عدم اعتماد کی تحریک کی تیاری ہو رہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف مرکز میں عدم اعتماد زیادہ آسان ہوگا۔ لیکن متبادل وزیر اعظم کا انتخاب انتہائی مشکل مرحلہ ہوگا۔ ایسی صورت میں قومی اسمبلی کی تحلیل کی طرف حالات رخ اختیار کریں گے۔

قومی اسمبلی کے اراکین کی اکثریت قومی اسمبلی کی تحلیل سے بچنے کے لیے عدم اعتماد کا حصہ بننے پر مشکل سے تیار ہوگی۔ اس طرح کے حالات وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو برقرار رکھنے میں معاون ہوں گے۔ تحریک انصاف اور وزیر اعظم عمران خان کے لیے مشکلات کی وجہ مہنگائی، بے روزگاری، اچھی حکمرانی کا نہ ہونا، صنعت، زراعت اور تجارت کو فروغ نہ دینا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی معیشت کی بحالی میں خطرناک حد تک رکاوٹ بن رہی ہے۔

جس پر توجہ بہت کم ہے۔ زرعی زمینوں پر مکانات کی تعمیر، جنگلات کا خاتمہ، پانی کی کمی، فضا میں گاڑیوں کا دھواں، صنعتی فضلے اور اس سے خارج ہونے والی گیسوں کے لیے حفاظتی اقدامات میں کمی، سمندری آلودگی، شہروں میں کچی آبادیوں میں مسلسل اضافے، ٹریفک کے نظم کے لیے اقدامات کی کمی، خواتین میں تعلیم عام کرنے اور انھیں بااختیار بنانے کے لیے غیر موثر حکمت عملی سے صورتحال خراب سے خراب تر ہو رہی ہے، سیاسی جماعتوں نے بھی ان اہم اقدامات کو نظرانداز کر رکھا ہے۔


ملک کی دونوں بڑی جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی اپنی قیادتوں کو مقدمات سے بچانے میں مصروف ہیں۔ ان کا ہدف یہ ہے کہ کسی طرح عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہو، لیکن وہ کوئی متحدہ لائحہ عمل تیار نہیں کرتے لیکن جہاں موقع ملتا ہے حکومت کے کام میں رکاوٹ بنتے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان کے لیے سب سے بڑی مشکل قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کی واضح اکثریت کا نہ ہونا ہے۔ وزیر اعظم کو صحیح معنوں میں طاقت قومی اسمبلی کی اکثریت کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ یہاں وہ کمزور ہیں، اس کی واضح مثال حال ہی میں ڈپٹی اسپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک اور تحریک کی واپسی کا سمجھوتہ ہے۔

ڈپٹی اسپیکر کے خلاف اپوزیشن نے تحریک پیش کی۔ حکومت اس عمل سے بچنا چاہتی تھی۔ اپوزیشن نے موقف اختیارکیا کہ حکومت نے 9 آرڈیننس کے لیے انتہائی عجلت میں قانون سازی کی ہے۔ اس پر مناسب بحث نہیں ہوئی۔ حکومت نے اپوزیشن سے بات کی اور یہ تسلیم کرلیا کہ ان 9 آرڈیننس پر دوبارہ قومی اسمبلی میں بحث ہوگی۔ اپوزیشن اس بات پر آمادہ ہوگئی کہ وہ ڈپٹی اسپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک واپس لے لیں گے جس کے بعد ایوان کی کارروائی میں کافی خوشگوار ماحول نظر آیا۔

اپوزیشن کا سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ آیندہ کے وزیر اعظم کے امیدوار پر اتفاق نہیں ، اگر شہباز شریف مسلم لیگ (ن) کو اس بات کے لیے آمادہ کرلیں کہ فی الحال آیندہ کے لیے مرکز میں پیپلز پارٹی کو موقع دیا جائے اور صوبوں میں بھی کسی طے شدہ فارمولے کے تحت مخلوط حکومت قائم کی جائے تو ایسی صورت میں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی زیادہ قریب آسکتی ہیں۔ اس طرح کا فارمولا عام طور سے انتخابی عمل کے بعد تیار ہوتا ہے۔

مسلم لیگ (ن) میں اندرون خانہ قبل از وقت اس طرح کے سمجھوتے کی مخالفت ہوگی۔ اس وقت مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کی توجہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے علاج کی طرف مرکوز ہے نواز شریف صحت مند ہوکر موثر کردار ادا کریں گے تو مسلم لیگ (ن) اندرونی انتشار سے بچ جائے گی۔ دوسری صورت میں یہ اندرونی انتشار بڑھ سکتا ہے جس کا فائدہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) کو ہوگا، جو رفتہ رفتہ پنجاب پر اپنی گرفت مضبوط کر رہی ہے۔ پاکستان کی سیاست میں جو قوت پنجاب پر حاوی ہوتی ہے وہی ملک پر اپنا اثر و رسوخ قائم کرتی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ عنقریب تحریک انصاف کی حکومت کا خاتمہ ہوگا۔ اس بیان کی وجوہات پر غورکیا جائے تو اس بات کا امکان ہے کہ وہ حکومت کی اتحادی جماعتوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کر رہے ہوں جس میں انھیں کامیابی نظر آرہی ہو۔ لیکن اس کے واضح اشارے موجود نہیں ہیں۔

دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی سندھ پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے کراچی میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی بھی کوشش کر رہی ہے اور کراچی کی حدود میں اضافہ کر رہی ہے۔ ارد گرد کے دیہاتوں اور کچی آبادیوں کو کراچی کا حصہ بنا رہی ہے تاکہ کراچی میں اس کی نشستوں میں اضافہ ہو۔ پیپلز پارٹی اگر اچھی حکمرانی پر توجہ دے، کراچی میں ٹریفک کے نظام کو ٹھیک کرے، صفائی کے نظام کو بہتر بنائے تو اس کے لیے کوئی اور کام کرنے کی ضرورت نہیں۔ دوسری صورت میں پورا کراچی ایک بڑی کچی آبادی میں تبدیل ہوجائے گا۔ بدامنی اور فسادات کا خطرہ بڑھتا جائے گا۔

چھوٹے اور بڑے جرائم کو کنٹرول کرکے کراچی میں امن و امان کے علاوہ تجارت اور صنعت کے فروغ کی ضرورت ہے۔سندھ حکومت پر بھاری ذمے داری ہے کہ وہ کراچی میں مکمل امن و امان کا ماحول رکھے تاکہ صنعت اور تجارت دوسرے صوبوں میں منتقل نہ ہوجائیں۔ اس وقت کراچی میں ٹریفک کی بدنظمی کی وجہ سے لوگوں کو آمد و رفت میں دشواریوں کا سامنا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ٹریفک کا دباؤ مزید بڑھے گا اس کے لیے کوئی تیاری نہیں ہے۔

پیپلز پارٹی کو کراچی کی طرف توجہ دینی ہوگی۔ جس سے اس میں بہتری آئے۔ صفائی، نظم و ضبط، امن و امان، پولیس اور عوام کے درمیان ہم آہنگی، اسپتالوں اور تعلیمی اداروں کے نظام میں بہتری، ماحولیات کو بہتر بنانا اور صاف پانی کی فراہمی کے اقدامات کرنے ہوں گے تو کراچی میں پیپلز پارٹی کی راہ ہموار ہوگی اور اسے عوامی پذیرائی حاصل ہوگی۔

حالات میں بہتری لائی جائے اور ایک مرتبہ پھر ملک کا نظم و نسق پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے حوالے کیا جائے۔ اس کے لیے مختلف راہیں تلاش کی جا رہی ہیں۔ فی الحال سابق وزیر اعظم نواز شریف کی علالت کے باعث صورتحال میں فوری تبدیلی کا امکان نہیں۔ لیکن آیندہ دنوں میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی اچانک کوئی نیا سیاسی دھماکہ بھی کرسکتے ہیں۔

جس کی درپردہ تیاری ہو رہی ہے؟ آیندہ کے حالات میں تمام معاملات کھل جائیں گے۔ نئے سیاسی مراحل کا آغاز ہوگا۔ تحریک انصاف کی حکومت یا اپوزیشن اس مرحلے میں فائدہ حاصل کریں۔ اس کا دارومدار ان جماعتوں کی اپنی سیاسی حکمت عملی پر ہوگا۔ عوام تو اسی صورت میں مطمئن ہوں گے جب معیشت میں بہتری آئے گی، مہنگائی کم ہوگی، روزگار کے مواقعے عام ہوں، ورنہ عوام کے لیے کسی سیاسی تماشے کی کوئی حیثیت نہ ہوگی۔
Load Next Story