ٹیلنٹ کی بھرمار مگر میڈلز کہاں

دعوؤں میں پاکستان کا ہر خطہ ٹیلنٹ سے مالامال ہے، لیکن میڈلز کی دوڑ میں دور دور تک ہمارے زیادہ تر ایتھلیٹس نظر نہیں آتے

نیپال کے شہر کھٹمنڈو میں ساؤتھ ایشین گیمز یکم دسمبر سے ہورہے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

نیپال کے شہر کھٹمنڈو میں ساؤتھ ایشین ممالک کے کھیلوں کا میلہ یکم دسمبر سے لگ رہا ہے، جس کےلیے ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر پاکستان اسپورٹس بورڈ، کھیلوں کے منتظمین اور کھلاڑیوں کی افراتفری اور بھاگ دوڑ کا سلسلہ دیکھنے کو ملا۔ ہمسایہ ملک بھارت نے ہمیشہ ہر گیمز میں بھرپور پلاننگ کے ساتھ سبقت حاصل کی ہے، لیکن اس کے مقابلے میں پاکستانی کھلاڑیوں کو گیمز میں شرکت کا یقین صرف اس وقت آتا ہے جب وہ بورڈنگ کارڈ لے کر جہاز میں بیٹھ چکا ہوتا ہے۔

ساؤتھ ایشین گیمز، کامن ویلتھ گیمز، ایشین گیمز یا اولمپکس، ایونٹ کوئی بھی ہو، ہماری کہانی ایک ہی ہوتی ہے۔ پاکستان میں چالیس سے زیادہ کھیلوں کی فیڈریشنز ہیں، جو پاکستان اسپورٹس بورڈ سے الحاق رکھتی ہیں۔ کھیل کی پروموشن کےلیے پاکستان اسپورٹس بورڈ نہ ہونے کے برابر ہر فیڈریشن کو گرانٹ دیتا ہے۔ جس کےلیے منت سماجت اور اثرورسوخ بھی آپ کو چاہیے۔ دوسری جانب کھیلوں سے وابستہ عہدیدار کئی برسوں سے اپنی اپنی فیدڑیشنز کو حقیقی فیڈریشنز سمجھنے کے ساتھ کھیل کی ترقی کے دعوے کرتے نظر آتے ہیں۔ ان سے جب بھی بات ہو وہ ہمیشہ یہ ہی گلہ کرتے نظر آتے ہیں کہ فنڈز نہیں، ہمارے لیے معاملات چلانا بہت مشکل ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ کھلاڑیوں کی بیرون ملک ٹریننگ، ٹورز کے ساتھ ایک اچھی رقم گرانٹ کی شکل میں جاری کرے۔ ہمسایہ ملک میں فیڈریشنز کو اتنے فنڈز ملتے ہیں، اس کے مقابلے میں ہمار ے ہاں، اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر گرانٹ ملتی ہے، وہ بھی چکر پر چکر لگانے کے بعد۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ چند فیڈریشنز کو چھوڑ کر اتنی ساری مشکلات اور بدنامی کے باوجود ملک اور کھلاڑیوں کے وسیع تر مفاد میں زیادہ تر فیڈریشنز کے کرتا دھرتا اپنے عہدے سے الگ ہونا پسند کرتے ہیں اور نہ ہی پاکستان اسپورٹس بورڈ حکام کے کانوں پر جوں تک رینگتی ہے۔ پاکستان اسپورٹس بورڈ کے افسران فیڈریشنز کے عہدیداروں کو کھیل اور ملک سے مخلص نہیں سمجھتے تو دوسری طرف کچھ ایسی ہی سوچ ان فیڈریشنز والوں کی پاکستان اسپورٹس بورڈ کے حکام کے بارے میں بھی ہے۔


اس لڑائی اور جگ ہنسائی میں پاکستان کے انٹرنیشنل سطح پر میڈلز کی تعداد ہر ایونٹ میں کم سے کم ہورہی ہے۔ کاغذوں اور دعوے میں پاکستان کا ہر خطہ ٹیلنٹ سے مالامال ہے، لیکن میڈلز کی دوڑ میں دور دور تک ہمارے زیادہ تر ایتھلیٹس نظر نہیں آتے۔

اولمپکس، کامن ویلتھ، ایشین اور ساؤتھ ایشین گیمز میں مایوس کن پرفارمنس کے بعد ہر بار اگلی بار زیادہ میڈلز جیتنے کا نعرہ لگایا جاتا ہے، لیکن جب یہ گیمز آتے ہیں تو پرانی کہانی پھر دہرائی جاتی ہے۔ وقت پر کیمپ لگتے ہیں اور نہ ہی آخر تک یہ علم ہوتا ہے کہ ان گیمز میں شرکت بھی ممکن ہوپائے گی یا نہیں۔ کچھ ایسا ہی اتفاق اس بار نیپال ساؤتھ ایشین گیمز کےلیے بھی ہوا ہے۔ صرف دس دن کا کیمپ، دستے کے ارکان کی تعداد پر کٹ اور پھر منظوری کا انتظار۔ نیپال میں رہائش کےلیے فیس کی ادائیگی کا ایشو، ٹکٹ، یونیفارم کے مسائل۔

اللہ اللہ کرکے اب اس بھاگ دوڑ میں نیپال کے شہر کھٹمنڈو میں ساؤتھ ایشین گیمز یکم دسمبر سے ہورہے ہیں، جس میں ساڑھے چار سو ارکان کی تعداد پر کٹ لگا کر تین سو پانچ رکنی دستہ شرکت کررہا ہے۔ ایک بار پھر ہوگا وہی، میڈلز کم اور شور زیادہ۔ گیمز ختم ہونے پر وہی مسائل کی کمی کا رونا اور پھر اگلے گیمز میں بہتر پرفارمنس کے دعوے۔

ہم سے چھوٹے ممالک کھیلوں کے میدان میں ہم سے آگے نکل چکے، لیکن ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں، جہاں سے سفر شروع ہوا تھا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story