بات کرتے ہوئے احتیاط کیجئے

ایک حساس عہدے کے متعلق غیر محتاط گفتگو کرنا، میڈیا میں رپورٹ ہونا اور ٹاک شوز کی زینت بننا کسی صورت مناسب عمل نہیں تھا

گفتگو کرتے ہوئے احتیاط ملحوظ رکھیے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

چند روز قبل دو اہم شحصیات نے دو اہم تقاریر کیں۔ پہلی تقریر ہزارہ موٹر وے کا افتتاح کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کی۔ یہ تقریر مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کی ناکامی اور نواز شریف کی لندن روانگی کے بعد کی گئی۔ توقعات کے عین مطابق خان صاحب حسبِ روایت حزب اختلاف کے رہنماؤں پر خوب گرجے برسے۔ اسی تقریر میں خان صاحب نے پاکستان کی عدلیہ پر طنز کے نشتر برسائے۔ موجودہ چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ اور آنے والے چیف جسٹس گلزار احمد کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ عدلیہ طاقتور اور کمزور کے مابین تفریق کے تاثر کو زائل کرے۔

خان صاحب کی بات وزن رکھتی تھی مگر اندازِتکلم قابلِ رشک نہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس بات کا شدید ردعمل عدلیہ کی جانب سے خلافِ توقع آیا۔

خان صاحب کی تقریر کے دو دن بعد چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے سپریم کورٹ کی تقریب میں ایک خطاب کیا۔ اس خطاب میں کئی موضوعات زیر بحث آئے، لیکن یہ خطاب خان صاحب کےلیے جواب الجواب کی حیثیت اختیار کرگیا، جب جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے خان صاحب کے طنز کا جواب دیا، اور خوب دیا۔

بات اگر اسی جواب الجواب تک ختم ہوجاتی تو کوئی امر مانع نہیں تھا۔ مگر بادی النظرمیں گمان کیا جاسکتا ہے کہ خان صاحب کے طنز کا جواب ایک دو مہینے پرانی درخواست کو زیرِ سماعت لے کر دے دیا گیا، تاکہ اس تاثر کو زائل کیا جا سکے کہ عدلیہ طاقتور اور کمزور کے مابین تفریق کی قائل نہیں۔ یہ اہم درخواست چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف کسی غیر معروف شخصیت نے دائر کر رکھی تھی۔

اس اہم سماعت کے دوران تین دن پورا ملک ہیجان اور اضطراب کی صورتِ حال سے گزرتا رہا۔ تین دن تک جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع پاکستان کے ذرائع ابلاغ کا واحد موضوع رہی۔ عدالتی فیصلے نے ملک کو وقتی بحران اور ہیجان سے باہر نکالا۔ اس پورے ڈرامے میں حکومتی لیگل ٹیم کی خوب لعن طعن ہوئی۔ راقم کی نظر میں یہ لعن طعن بلاشک جائز تھی۔

اس پورے واقعے میں حکومتی حماقتیں کھل کر سامنے آئیں اور ان پر خوب تنقید بھی ہوئی۔ مگر بصد احترام عدالتی کمزوریوں کا تذکرہ بہت کم ہوا۔ یا شاید ہوا ہی نہیں۔ راقم معزز قارئین کی توجہ دو اہم عدالتی کمزوریوں کی طرف لانا چاہتا ہے۔ اس کا مطلب کسی کی تضحیک نہیں، بلکہ یہ ایک تصویر کا دوسرا رخ ہے، جسے معزز قارئین یکسر مسترد کرنے کا حق رکھتے ہیں۔

اس عدالتی کارروائی کا پہلا نقص یہ تھا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف اگست میں موصول ہونے والی درخواست کو تقریباً دو ماہ بعد سماعت کےلیے مقرر کیا گیا۔ عین اس وقت جب جنرل قمر جاوید باجوہ اپنی دوسری مدت کی ابتدا کرنے والے تھے۔ اور یوں ناصرف پاکستان کے عوام بلکہ فوج جیسا ایک اہم ادارہ کشمکش کی صورتِ حال سے دوچار رہا۔


اس کہانی کا دوسرا نقص عدالتی کارروائی کی میڈیا رپورٹنگ تھا۔ یہاں ایک لمحے کےلیے رکتے ہیں اور ماضی میں چلتے ہیں۔ حدیبیہ پیپر ملز کا مقدمہ چند سال قبل سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت تھا۔ اس مقدمے میں پورا شریف خاندان منی لانڈرنگ کے الزامات میں پھنسا تھا۔ اس مقدمے کا فیصلہ فی الوقت موضوعِ بحث نہیں۔ لیکن اس مقدمے کا ایک اہم پہلو یہ تھا کہ عدالت نے اس مقدمے کی میڈیا رپورٹنگ پر مکمل پابندی عائد کرتے ہوئے حکم صادر فرمایا کہ خلاف ورزی توہینِ عدالت تصور ہوگی۔

بہرحال یہ مقدمہ حدیبیہ پیپر ملز کے مقدمے سے زیادہ حساس اور اہم تھا۔ لیکن اس معاملے میں بداحتیاطی برتی گئی جو ناقابلِ فہم تھی۔

آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے خلاف درخواست کی کارروائی کے دوران معزز عدالت کے ریمارکس میڈیا کی زینت بنتے رہے۔ عالمی میڈیا، بالخصوص ہندوستانی میڈیا کو عدالتی کارروائی سے مواد ملا، جسے اُن لوگوں نے پاکستانی آرمی چیف کے خلاف بھرپور استعمال کیا۔ یقیناً پاکستان میں بھی ایسے صحافیوں کی بہتات ہے جنہوں نے فوج سے بغض کو اپنا شعار بنا رکھا ہے۔ اور ان لوگوں کو بھی اپنا حساب برابر کرنے کا بھرپور موقع اس عدالتی کارروائی سے میسر آیا۔

مقدمہ سننا اور اس پر کوئی بھی فیصلہ دینا عدالت کا استحقاق ہے۔ لیکن ایک اہم تقرری پر عمل درآمد تین روز قبل روک دینا، ایک حساس عہدے کے متعلق غیر محتاط گفتگو کرنا، پھر اس گفتگو کا میڈیا میں رپورٹ ہونا، اور ٹی وی ٹاک شوز کی زینت بننا، کسی صورت مناسب عمل نہیں تھا۔

ہمارے ملک کی ایک بدقسمتی ہمیشہ ہی سے رہی ہے۔ پاکستان میں لوگ عدالت کو اس وقت تک آزاد نہیں سمجھتے اگر عدالت فوج کے خلاف فیصلے نہ دے۔ صحافت اور صحافی اس وقت تک آزاد تصور نہیں ہوتے جب تک انہیں فوج کو لعن طعن کرنے کی مکمل آزادی نصیب نہ ہو۔ معاشر ے کے چند دیگر طبقات بشمول سیاست دان اس وقت آزاد تصور نہیں ہوتے جب تک انہیں فوج کے خلاف بولنے کی کماحقہ اجازت نہ ملے۔ اس رجحان پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔

کھوسہ صاحب نے خان صاحب کو جواب دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ عدلیہ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ذرا احتیاط کریں۔ لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ یہ احتیاط عدلیہ تک محدود نہ رہے، بلکہ اس احتیاط کا حقدار فوج کو بھی گردانا جائے۔ کیونکہ اگر فوج کمزور ہوئی تو ہمارا حال عرب ممالک سے بھی بدتر ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story