خوفناک صورت حال

آبادی میں اضافہ کی وجہ سے خوراک کی ضرورت بڑھ رہی ہے

انسانی سرگرمیوں اور بڑھتی ہوئی آبادی نے کرۂ ارض میں ایسی خرابیاں پیدا کر دی ہیں کہ اگر عالمی قیادتوں اور عوام نے ملکر اس کی روک تھام نہ کی تو ہماری آنیوالی نسلیں تباہی کے وہ خوف ناک منظر دیکھیں گی جسکے تصور سے بھی ڈر محسوس ہوتا ہے۔

یہ ہم سب کا مشترکہ مسئلہ ہے، اس سے نظریں چرانا بے حسی کے علاوہ آنے والی نسلوں کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہو گا۔ سب کی توجہ ، آگہی اور عملی کوشش کے علاوہ بچنے کا کوئی راستہ نہیں۔ آج کوئی اس بات کی نفی نہیں کر سکتا کہ ماحولیاتی آلودگی، موسمیاتی تبدیلیاں انسانی زندگی کے لیے بہت بڑا خطرہ ہیں۔

اس سلسلے میں سیکڑوں تحقیقاتی رپورٹس تیارکی جا چکی ہیں۔ جو یہ واضح کرتی ہیں کہ کرۂ ارض کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے ۔ گلیشیئر پگھل رہے ہیں۔ کرۂ ارض کا درجہ حرارت اپنی سطح پر قائم رہنا اور زمین پر موجود برفانی تودوں کا توازن انسان کو زندہ رکھنے میں ہم کردار ادا کرتا ہے۔ سمندر کی سطح میں اسی وجہ سے اضافہ ہو رہا ہے۔ خشکی کے علاقے میںکمی آ رہی ہے۔ آبادی میں اضافے کی وجہ سے آمد ورفت کے لیے گاڑیوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جس سے تیل اور گیس کے قدرتی وسائل کم ہو رہے ہیں۔ فضا میں زہریلی گیس بڑھ رہی ہے۔

تحقیقاتی رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ صنعتی سرگرمیوں اور دیگر انسانی سرگرمیوں کے نتائج میں قدرتی وسائل میں اس قدرکمی ہو گئی ہے کہ آیندہ کی ضروریات کے لیے موجودہ دنیا کے علاوہ مزید نصف دنیا کی ضرورت ہو گی۔ زراعت کے لیے استعمال کی جانے والی کھاد سے گزر کر جانے والا پانی دیگر ذرایع سے آنے والے پانی کے ساتھ مل کر سمندر میں چلا جاتا ہے جس میں شامل نائٹروجن سے سمندری آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ گہرائی میں روشنی کی کمی ہو رہی ہے۔

پانی زندگی ہے جہاں پانی ہوتا ہے وہاں آبادی ہوتی ہے۔ کاشت کاری ہوتی ہے، گائے ، بھینس، بکریوں اور دیگر جانوروں کی افزائش ہوتی ہے۔ میٹھے پانی کی مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ آبی وسائل کے لیے ممالک کے درمیان جنگوں کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ یہ جنگیں انسانی زندگی کے ساتھ دیگر وسائل کو بھی تباہ کر سکتی ہیں۔ صنعتوں سے نکلنے والے فضلے کو محفوظ انداز میں ٹھکانے نہ لگانے سے بھی آلودگی بڑھ رہی ہے۔ کئی مقامات پر یہ فضلہ سمندر میں بھی چلا جاتا ہے۔ اس طرح آبی حیات میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ آبادی میں اضافہ کی وجہ سے خوراک کی ضرورت بڑھ رہی ہے۔

سمندر سے مچھلی پکڑنے کے جدید طریقۂ کار اور بڑے پیمانے پر مچھلیوں کے حصول سے مچھلیوں اور دیگر آبی جانوروں کی تعداد میں کمی ہو رہی ہے۔ آنے والی نسلوں کے خوراک کا حصول مشکل سے مشکل ہوتا جائے گا۔ جوں جوں آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔


رہائش کی ضرورت بڑھ رہی ہے۔ جنگل کاٹے جا رہے ہیں۔ سب سے زیادہ خرابی پہاڑوں پر موجود درختوں کی کٹائی سے ہوتی ہے۔ پہاڑوں پر موجود درخت درجۂ حرارت کو بہتر بناتے ہیں اور گلیشیئرز کو بھی محفوظ رکھنے میں مددگار ہوتے ہیں۔ جنگلات کے خاتمے سے دنیا کے درجۂ حرارت کے توازن میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ فضائی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ جنگلی جانوروں کی تعداد میں کمی ہوتی ہے۔ بعض جنگلی جانور جس میں سفید ہاتھی، سیاہ چیتا وغیرہ شامل ہیں نایاب ہوتے جا رہے ہیں۔ کئی جنگلی جانوروں کی نسلیں ختم ہونے کا خطرہ ہے۔

فضائی آلودگی اور درجۂ حرارت میں اضافے سے جنگلوں میں آگ لگنے اور تیزابی بارشوں کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ حال ہی میں برازیل کے جنگلوں میں ایمیزون میں آگ نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلائی۔ برازیل کی حکومت نے اس تباہی پر پردہ ڈالا اور اسے معمول کی آگ قرار دیا۔ جب کہ آزاد محققین نے اس بات کی نفی کی۔ ماہرین کے مطابق دھواں پورے برازیل میں پھیلا۔ آلودگی، ذرات ، زہریلی گیس جس میں کاربن مونو آکسائیڈ، نائیٹروجن آکسائیڈ اور نان میتھین آرگینک کمپاؤنڈ فضا میں پھیل گئے۔ کروڑوں درخت خاکستر ہو گئے اور کروڑوں درختوں پر منفی اثرات ہوئے۔

ایمیزون کے جنگلات دنیا کے لیے پھیپھڑوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آکسیجن کی فراہمی کا بڑا وسیلہ ہے۔ اس میں یہ تباہی بہت بڑے خطرے کی علامت ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے دیگر اثرات میں مزید گلیشیئر پگھل سکتے ہیں۔ انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے دیہات میں کمی اور شہروں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق شہروں کی ہوا صاف ہوا کے پیمانے کے مطابق 80 فیصد تک خراب ہو رہی ہے یا آنے والے وقت میں خرابی کی اس حد تک پہنچ جائے گی۔ آبادی میں اضافہ ان تمام خرابی میں بنیادی کردار ادا کر رہا ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ دو لاکھ سال میں انسان کی آبادی ایک ارب تک پہنچ چکی تھی لیکن گزشتہ 200 سال میں یہ آبادی7 ارب سے زائد ہو گئی ہے۔ یہ خطرہ موجود ہے کہ آیندہ 60 سے 80 سال میں بھارت کی آبادی 6 ارب ، پاکستان کی آبادی ایک ارب اور کراچی کی آبادی 10کروڑ تک پہنچ سکتی ہے۔ موجودہ آبادی کی سطح خطرناک سطح پر ہے مزید 5 گنا آبادی سے کیا تباہی ہو گی یہ سوچ کر خوف محسوس ہوتا ہے۔ پہلے اوزون کی تہہ جو خلا میں موجود ہے سورج کے تابکاری اثرات کی روک تھام کرتی ہے اس میں پیدا ہونے والا سوراخ بڑھتا جا رہا ہے۔

جس کی وجہ سے خطرناک بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں۔ زمین کی کھدائی، پہاڑوں کی کٹائی اور معدنیات کے حصول کے لیے بنائی گئی سرنگیں زمین کے قدرت نظام میں خرابی پیدا کر رہی ہے۔ انسانی سرگرمیوں کا کوڑا کرکٹ ، انسانی فضلہ صفائی کے جدید نظام نہ ہونے ، کوڑے کو قابل استعمال نہ بنانے سے غریب ممالک میں مزید مسائل پیدا کر رہا ہے۔ سرسبز پہاڑ درختوں سے محروم ہو کر اجڑ رہے ہیں۔ پہاڑوں سے ابلنے والے چشمے خشک ہو رہے ہیں۔ سرسبز وادیوں میں عمارتیں تعمیر ہو رہی ہیں۔ خوب صورت ندی نالے گندگی کی وجہ سے اپنا حسن کھو رہے ہیں۔ سیلاب، زلزلے، سمندری طوفان اور دیگر قدرتی آفات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دریاؤں اور سمندروں میں گندگی بڑھ رہی ہے۔

فطرت کے حسین نظارے ماند پڑ رہے ہیں۔ دنیا کا فطری توازن کے زیادہ بگڑنے کی صورت میں بنی نوع انسان کے وجود کو خطرہ لاحق ہے۔ اس صورت حال سے آگہی اور فوری روک تھام کی ضرورت ہے جو کچھ ہم ضایع کر رہے ہیں اسے کم از کم کریں۔ پھینکی جانے والی اشیا اور کچرے کو کسی اور کام کے قابل بنائیں۔ صفائی اور شجرکاری کی مہم میں حصہ لیں۔ ماحولیات کی تعلیم اور تحقیق کا انتظام کریں، پانی کو ضایع ہونے سے بچائیں۔ خریداری میں عقل مندی اور احتیاط سے کام لیں۔ پلاسٹک کی تھیلیوں کو ٹھکانے لگانے کا مناسب انتظام کریں۔ ہر قسم کی آلودگی کے خاتمے اور پائیدار ترقی کے اقدامات کے لیے با اختیار لوگوں پر دباؤ بڑھائیں۔ خوب صورت دنیاکو خطرناک صورت حال سے بچائیں۔
Load Next Story