حکومت نے کیا ایکشن لیا
ملک کے اسپتالوں کی تاریخ میں پی سی آئی کا واقعہ کئی حوالوں سے سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔
ملک کے اسپتالوں کی تاریخ میں پی سی آئی کا واقعہ کئی حوالوں سے سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔ فوٹو : فائل
لاہور کے امراض قلب کے اسپتال (پی سی آئی) پر وکلا کے حملہ کو قومی صدمہ سے تعبیر کیا جا رہا ہے، قوم ابھی اس کے صدمہ سے باہر نہیں نکل نہیں سکی۔ لاہور ہائیکورٹ نے پی آئی سی حملہ کیس میں وکلا کی گرفتاری کے خلاف ایک ہی نوعیت کی تین درخواستوں پر سی سی پی او لاہور سے واقعہ کی تفصیلی رپورٹ طلب کر لی، اسپتال کے درد ناک سانحہ پر عدالت عالیہ نے چشم کشا اور فکر انگیز ریمارکس دیے۔
ملک کے اسپتالوں کی تاریخ میں پی سی آئی کا واقعہ کئی حوالوں سے سوالیہ نشان بنا ہوا ہے، ایک طرف تو حکومت نے انتظامی سطح پر صائب ایکشن لینے سے قطعاًگریز کیا ہے اور تاحال صورتحال کو کنٹرول کرنے کی ضرورت، ہنگامی اقدامات اور براہ راست یا بالواسطہ ناکامی کو تسلیم ہی نہیں کیا اور ذمے داروں کو گرفت میں لانے سے بوجوہ گریز پائی کی انتہا کی گئی، دوسری جانب جتنے احکامات اور ہدایات وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ پنجاب ، چیف سیکریٹری، وزیر صحت اور دیگر اعلیٰ حکام کی طرف سے جاری کی گئیں وہ وکلا کے مشتعل، اور غضبناک جم غفیر کو بروقت روکنے کی تدبیر اور تدبر سے خالی تھیں جب کہ وضاحتوں پر انحصار کیا گیا، عملی طور پر صرف بادل ناخواستہ ، نیم دلانہ اور اشک شوئی تک محدود کارروائی عمل میں لائی گئی جو افسوس ناک اور تعجب انگیز ہے ۔
ادھر ہائیکورٹ نے صورتحال کی سنگینی کے پیش نظر قرار دیا کہ جنگی حالات میں بھی اسپتالوں پر حملہ نہیں کیا جاتا، عدالت نے استفسار کیا کہ یہ حملہ کیوں کیا گیا؟ یہ بنیادی سوال تھا۔ ایک اور حقیقت بھی قابل غور ہے کہ وکلا کا جلوس منظم تھا، وہ ہیری پوٹر کے افسانوی ایلنیز یا خلائی لشکر کی طرح نازل نہیں ہوا بلکہ 7 کلومیٹر فاصلہ طے کرتا ہوا کارڈیالوجی انسٹیٹیوٹ پہنچا اور اس نے آناً فاناً تباہی مچا دی، اسپتال میں داخل ہو کر خوف و دہشت کا لرزہ خیز ماحول پیدا کیا، مریضوں ، پیرا میڈیکل اسٹاف، ڈاکٹرز کو زد و کوب کیا، ڈنڈے مارے ، وہ شور و غل مچا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی، ہر شے تہس نہس کی گئی، ایمرجنسی وارڈ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، یہاں تک ظلم ہوا کہ مریض کا ماسک نوچا گیا، سیلنڈر پھینکے گئے، کھڑکیوں کے شیشے چکنا چور ہوئے، آتشزنی، مارپیٹ، توڑ پھوڑ اور ہلڑبازی کی گئی، پھر یہ بھی کہا گیا کہ وکلا بھارت سے جنگ لڑنے تو نہیں آئے تھے۔
سوال مگر یہ ہے کہ دشمن سے اگر جنگ نہ تھی تو آخر معمولی تنازع اور جھگڑے کو بنیاد بنا کر دل کے امراض کے حساس ترین مقام پر دھاوا بولنے کے پیچھے عزائم کی تشریح کون کریگا؟ ڈاکٹروں کو سبق سکھانے کے غصہ کے جواز، اس کی دلیل، اسباب، برہمی اور طیش کی ریشنلٹی کا عدالت جواب مانگ رہی ہے، یہ دکھی انسانیت پر حملہ کا گمبھیر معاملہ ہے۔ مسئلہ یہ بھی تھا کہ اہل اقتدار کو ''حادثہ'' کا پیشگی ادراک تھا مگر سب بے دست و پا تھے، چپ رہے ،کیوں؟
لاہور ہائیکورٹ کے دو رکنی بنچ کے روبرو درخواستوں پر سماعت ہوئی تو اعظم نذیر تارڑ، احسن بھون، مسعود چشتی سمیت دیگر رہنما پیش ہوئے، اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ وکلا برادری اس واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتی ہے،کچھ لوگوں نے موقع پر کپڑے تبدیل کیے اور افسوسناک واقعہ پیش آیا، گرفتار وکلا کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا، معاشرے میں پولیس کو اس طرح کے تشدد کا اختیار نہیں ہے؟
وکلا کوئی بھارت سے جنگ لڑنے نہیں آئے تھے، جسٹس نجفی نے ناراضی کا اظہار کیا اور باور کرایا کہ وکلا کی اسپتال پر حملہ کرنے کی جرات کیسے ہوئی، ایسا تو جنگوں میں بھی نہیں ہوتا، آپ نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا، فاضل جج نے ریمارکس دیے کہ وکلا میں کوئی ایک بھی یہ وضاحت دے سکتا ہے کہ یہ حملہ کیوں کیا گیا، جسٹس انوار الحق پنوں نے استفسار کیا کہ کیا اس بات کی توقع کر سکتے ہیں کہ کوئی بار اس پر کارروائی کرے اور واقعے میں ملوث الیکشن میں حصہ لینے والے وکلاء امیدواروں کے لائسنس منسوخ کرے، وکلا کی طرف سے اعظم نذیر تارڑ نے وضاحت کی کہ ٹی وی پروگرامز میں اس واقعہ کی مذمت کی گئی جس پر جسٹس نجفی نے ریمارکس دیے کہ وکلاء کے پیشے میں کالی بھیڑیں ہیں، آپ اسے وقوعہ کہتے ہیں۔
کیا آپ کو اندازہ ہے ہم کس قدر دکھ میں ہیں اور بڑی مشکل سے درخواستوں پر سماعت کر رہے ہیں، جسٹس انوار الحق پنوں نے باور کرایا کہ ایک بڑی عجیب ویڈیو ہے جس میں کہا گیا کہ یہ ڈاکٹر کی موت ہے، فاضل بنچ نے ایک موقع پر ریمارکس دیے کہ یہ مقدمہ دہشت گردی کا ہے، عدالت نے لاہور ہائیکورٹ بار کی درخواست پر عائد دفتری اعتراض ختم کر دیا جب کہ پولیس نے عدالت میں وکلا کے خلاف انسداد دہشت گردی دفعات کے تحت مقدمات درج ہونے کی رپورٹ پیش کی، جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ اس کی کوئی وضاحت ہے آپ کے پاس؟ آپ نے اسپتال میں تمام آلات توڑ د یئے ، اعظم تارڑ ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہمارا ایک بار لیڈر بھی ایسا نہیں ہے جس نے اس وقوعہ کی وضاحت دینے کی کوشش کی ہو، جو ملوث ہیں ان کے لائسنس معطل کیے جائیں گے، اس معاملے کا اختتام بھی تو ہے۔ علی باقر نجفی نے کہا کہ اینڈ تو ہو گا ہی، وہ ہم کریں گے، جنگل کے قانون میں معاشرے نہیں بچتے ۔
دوسری جانب پاکستان بار کونسل اور وکلا جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی کال پر وکلا کی گرفتاری کے خلاف وکلا نے ملک بھر میں دوسرے روز بھی ہڑتال اور عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا۔ تاہم یہ خوش آیند اطلاع ہے کہ جمعہ کو پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی او پی ڈی کو تیزی سے فعال کر دیا گیا ، ایمرجنسی بھی کھل گئی ہے، ہفتہ سے ایمرجنسی میں معمول کے مطابق کام شروع کر دیا۔
ایم ایس ڈاکٹر امیر الدین کا کہنا ہے کہ تمام ڈاکٹرز اور عملہ اپنی ڈیوٹی پر موجود ہیں ، دوسری جانب ینگ ڈاکٹرز نے بھی صوبے کے تمام اسپتالوں میں احتجاج کیا ، جنرل اسپتال میں احتجاجی واک کا انعقاد کیا گیا، گرینڈ ہیلتھ الائنس کی کال پر ڈاکٹروں، نرسز اورپیرا میڈیکس نے گزشتہ روز بھی بازوؤں پر سیاہ پٹیاںباندھ کر فرائض سر انجام دیے جب کہ پاکستان میڈیکل کونسل کی جانب سے واقعہ کے خلاف سرکاری اسپتالوں میں ٹوکن احتجاج کیا گیا، شرکاء نے علاج معالجہ معطل ہونے سے جاں بحق ہونے والے افراد کی یاد میں شمعیں بھی روشن کیں ، جی ایچ اے نے ہر سال 11دسمبر کو یوم سیاہ قرار دینے کا مطالبہ کر دیا ۔
امید کی جانی چاہیے کہ ارباب اختیار اس سانحہ کی روک تھام میں انتظامی اور پولیس کی قانون نافذ کرنے اور لا اینڈ آرڈر برقرار رکھنے میں کھلی ناکامی پر احساس زیاںکا قوم کے سامنے اعتراف کریں گے، ایسا نہ ہوا تو پھر کسی گروپ کی طرف سے طالع آزمائی اور مہم جوئی کا خدشہ ہو سکتا ہے۔ جمہوری معاشروں میں احتجاج اور مظاہرے کا سب کو آئینی حق ہے مگر جب ہمہ اقسام کے vibrant قانونی فورم، عدالتیں، وزیر اعلی، اسمبلی، سول سوسائٹی اور میڈیا موجود ہوں توقانون کو ہاتھ میں لینے کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ اہل وطن کو افسوس اور حیرت اس بات پر ہے کہ وکلا پر قانون کو ہاتھ میں لینے کی بات آئی ہے ۔
موسم آیا تو نخل دار پہ میرؔ
سرِ منصور ہی کا بار آیا
ملک کے اسپتالوں کی تاریخ میں پی سی آئی کا واقعہ کئی حوالوں سے سوالیہ نشان بنا ہوا ہے، ایک طرف تو حکومت نے انتظامی سطح پر صائب ایکشن لینے سے قطعاًگریز کیا ہے اور تاحال صورتحال کو کنٹرول کرنے کی ضرورت، ہنگامی اقدامات اور براہ راست یا بالواسطہ ناکامی کو تسلیم ہی نہیں کیا اور ذمے داروں کو گرفت میں لانے سے بوجوہ گریز پائی کی انتہا کی گئی، دوسری جانب جتنے احکامات اور ہدایات وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ پنجاب ، چیف سیکریٹری، وزیر صحت اور دیگر اعلیٰ حکام کی طرف سے جاری کی گئیں وہ وکلا کے مشتعل، اور غضبناک جم غفیر کو بروقت روکنے کی تدبیر اور تدبر سے خالی تھیں جب کہ وضاحتوں پر انحصار کیا گیا، عملی طور پر صرف بادل ناخواستہ ، نیم دلانہ اور اشک شوئی تک محدود کارروائی عمل میں لائی گئی جو افسوس ناک اور تعجب انگیز ہے ۔
ادھر ہائیکورٹ نے صورتحال کی سنگینی کے پیش نظر قرار دیا کہ جنگی حالات میں بھی اسپتالوں پر حملہ نہیں کیا جاتا، عدالت نے استفسار کیا کہ یہ حملہ کیوں کیا گیا؟ یہ بنیادی سوال تھا۔ ایک اور حقیقت بھی قابل غور ہے کہ وکلا کا جلوس منظم تھا، وہ ہیری پوٹر کے افسانوی ایلنیز یا خلائی لشکر کی طرح نازل نہیں ہوا بلکہ 7 کلومیٹر فاصلہ طے کرتا ہوا کارڈیالوجی انسٹیٹیوٹ پہنچا اور اس نے آناً فاناً تباہی مچا دی، اسپتال میں داخل ہو کر خوف و دہشت کا لرزہ خیز ماحول پیدا کیا، مریضوں ، پیرا میڈیکل اسٹاف، ڈاکٹرز کو زد و کوب کیا، ڈنڈے مارے ، وہ شور و غل مچا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی، ہر شے تہس نہس کی گئی، ایمرجنسی وارڈ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، یہاں تک ظلم ہوا کہ مریض کا ماسک نوچا گیا، سیلنڈر پھینکے گئے، کھڑکیوں کے شیشے چکنا چور ہوئے، آتشزنی، مارپیٹ، توڑ پھوڑ اور ہلڑبازی کی گئی، پھر یہ بھی کہا گیا کہ وکلا بھارت سے جنگ لڑنے تو نہیں آئے تھے۔
سوال مگر یہ ہے کہ دشمن سے اگر جنگ نہ تھی تو آخر معمولی تنازع اور جھگڑے کو بنیاد بنا کر دل کے امراض کے حساس ترین مقام پر دھاوا بولنے کے پیچھے عزائم کی تشریح کون کریگا؟ ڈاکٹروں کو سبق سکھانے کے غصہ کے جواز، اس کی دلیل، اسباب، برہمی اور طیش کی ریشنلٹی کا عدالت جواب مانگ رہی ہے، یہ دکھی انسانیت پر حملہ کا گمبھیر معاملہ ہے۔ مسئلہ یہ بھی تھا کہ اہل اقتدار کو ''حادثہ'' کا پیشگی ادراک تھا مگر سب بے دست و پا تھے، چپ رہے ،کیوں؟
لاہور ہائیکورٹ کے دو رکنی بنچ کے روبرو درخواستوں پر سماعت ہوئی تو اعظم نذیر تارڑ، احسن بھون، مسعود چشتی سمیت دیگر رہنما پیش ہوئے، اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ وکلا برادری اس واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتی ہے،کچھ لوگوں نے موقع پر کپڑے تبدیل کیے اور افسوسناک واقعہ پیش آیا، گرفتار وکلا کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا، معاشرے میں پولیس کو اس طرح کے تشدد کا اختیار نہیں ہے؟
وکلا کوئی بھارت سے جنگ لڑنے نہیں آئے تھے، جسٹس نجفی نے ناراضی کا اظہار کیا اور باور کرایا کہ وکلا کی اسپتال پر حملہ کرنے کی جرات کیسے ہوئی، ایسا تو جنگوں میں بھی نہیں ہوتا، آپ نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا، فاضل جج نے ریمارکس دیے کہ وکلا میں کوئی ایک بھی یہ وضاحت دے سکتا ہے کہ یہ حملہ کیوں کیا گیا، جسٹس انوار الحق پنوں نے استفسار کیا کہ کیا اس بات کی توقع کر سکتے ہیں کہ کوئی بار اس پر کارروائی کرے اور واقعے میں ملوث الیکشن میں حصہ لینے والے وکلاء امیدواروں کے لائسنس منسوخ کرے، وکلا کی طرف سے اعظم نذیر تارڑ نے وضاحت کی کہ ٹی وی پروگرامز میں اس واقعہ کی مذمت کی گئی جس پر جسٹس نجفی نے ریمارکس دیے کہ وکلاء کے پیشے میں کالی بھیڑیں ہیں، آپ اسے وقوعہ کہتے ہیں۔
کیا آپ کو اندازہ ہے ہم کس قدر دکھ میں ہیں اور بڑی مشکل سے درخواستوں پر سماعت کر رہے ہیں، جسٹس انوار الحق پنوں نے باور کرایا کہ ایک بڑی عجیب ویڈیو ہے جس میں کہا گیا کہ یہ ڈاکٹر کی موت ہے، فاضل بنچ نے ایک موقع پر ریمارکس دیے کہ یہ مقدمہ دہشت گردی کا ہے، عدالت نے لاہور ہائیکورٹ بار کی درخواست پر عائد دفتری اعتراض ختم کر دیا جب کہ پولیس نے عدالت میں وکلا کے خلاف انسداد دہشت گردی دفعات کے تحت مقدمات درج ہونے کی رپورٹ پیش کی، جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ اس کی کوئی وضاحت ہے آپ کے پاس؟ آپ نے اسپتال میں تمام آلات توڑ د یئے ، اعظم تارڑ ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہمارا ایک بار لیڈر بھی ایسا نہیں ہے جس نے اس وقوعہ کی وضاحت دینے کی کوشش کی ہو، جو ملوث ہیں ان کے لائسنس معطل کیے جائیں گے، اس معاملے کا اختتام بھی تو ہے۔ علی باقر نجفی نے کہا کہ اینڈ تو ہو گا ہی، وہ ہم کریں گے، جنگل کے قانون میں معاشرے نہیں بچتے ۔
دوسری جانب پاکستان بار کونسل اور وکلا جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی کال پر وکلا کی گرفتاری کے خلاف وکلا نے ملک بھر میں دوسرے روز بھی ہڑتال اور عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا۔ تاہم یہ خوش آیند اطلاع ہے کہ جمعہ کو پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی او پی ڈی کو تیزی سے فعال کر دیا گیا ، ایمرجنسی بھی کھل گئی ہے، ہفتہ سے ایمرجنسی میں معمول کے مطابق کام شروع کر دیا۔
ایم ایس ڈاکٹر امیر الدین کا کہنا ہے کہ تمام ڈاکٹرز اور عملہ اپنی ڈیوٹی پر موجود ہیں ، دوسری جانب ینگ ڈاکٹرز نے بھی صوبے کے تمام اسپتالوں میں احتجاج کیا ، جنرل اسپتال میں احتجاجی واک کا انعقاد کیا گیا، گرینڈ ہیلتھ الائنس کی کال پر ڈاکٹروں، نرسز اورپیرا میڈیکس نے گزشتہ روز بھی بازوؤں پر سیاہ پٹیاںباندھ کر فرائض سر انجام دیے جب کہ پاکستان میڈیکل کونسل کی جانب سے واقعہ کے خلاف سرکاری اسپتالوں میں ٹوکن احتجاج کیا گیا، شرکاء نے علاج معالجہ معطل ہونے سے جاں بحق ہونے والے افراد کی یاد میں شمعیں بھی روشن کیں ، جی ایچ اے نے ہر سال 11دسمبر کو یوم سیاہ قرار دینے کا مطالبہ کر دیا ۔
امید کی جانی چاہیے کہ ارباب اختیار اس سانحہ کی روک تھام میں انتظامی اور پولیس کی قانون نافذ کرنے اور لا اینڈ آرڈر برقرار رکھنے میں کھلی ناکامی پر احساس زیاںکا قوم کے سامنے اعتراف کریں گے، ایسا نہ ہوا تو پھر کسی گروپ کی طرف سے طالع آزمائی اور مہم جوئی کا خدشہ ہو سکتا ہے۔ جمہوری معاشروں میں احتجاج اور مظاہرے کا سب کو آئینی حق ہے مگر جب ہمہ اقسام کے vibrant قانونی فورم، عدالتیں، وزیر اعلی، اسمبلی، سول سوسائٹی اور میڈیا موجود ہوں توقانون کو ہاتھ میں لینے کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ اہل وطن کو افسوس اور حیرت اس بات پر ہے کہ وکلا پر قانون کو ہاتھ میں لینے کی بات آئی ہے ۔
موسم آیا تو نخل دار پہ میرؔ
سرِ منصور ہی کا بار آیا