ایران پر مزید حملے کی امریکی دھمکیاں
خطے کے تمام ممالک کو اپنے اختلافات بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرنا چاہیے
خطے کے تمام ممالک کو اپنے اختلافات بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ فوٹو: فائل
بغداد میں امریکا کے ڈرون حملے میں ایران جنرل کی ہلاکت کے بعد مشرق وسطیٰ میں صورت حال مزید تشویشناک ہونے سے جنگ کے بادل گہرے ہونے لگے ہیں'امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی عروج پر پہنچ چکی ہے۔
اگلے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے 52اہم اور حساس ترین مقامات کو نشانہ بنانے کی دھمکی دے ڈالی ہے تو جواب میں ایران بھی خطے میں 35کے قریب امریکی اہداف کے ساتھ ساتھ اسرائیلی دارالحکومت تب ابیب کو نشانہ بنانے کی دھمکی د ے رہا ہے' اس طرح دونوں جانب سے ایک دوسرے کو نشانہ بنانے کی دھمکیاں دینے سے خطے کی صورت حال مزید بگڑنے کے خدشے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔
بغداد میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کے امریکی حملے میں مارے جانے کے بعد ایرانیوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور وہ امریکا سے انتقام لینے کے نعرے لگانے لگے ہیں' اگلے روز شمالی بغداد میں امریکی ایئربیس اور امریکی فوجیوں کی رہائشی کالونی پر راکٹوں سے حملہ کیا گیا، فوجی اڈے پر دو راکٹ فائر کیے گئے جس میں پانچ افراد زخمی ہو گئے۔
تین زخمی عراقی فوجی ہیں، اس اڈے پر امریکی فوجی تعینات ہیں' بغداد کے قریب گرین زون پر راکٹ امریکی سفارت خانے کے قریب گرا۔ ممکنہ طور پر یہ حملے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کا ردعمل ہیں۔ امریکا نے عراق پر حملہ کرنے سے قبل وہاں مہلک ہتھیاروں کی موجودگی کا ڈراما رچایا تھا، اب پھر ایسا ہی کھیل کھیلتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی پر حملے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی جنرل سلیمانی امریکی فوجیوں اور سفارت کاروں پر حملے کا منصوبہ بنا رہے تھے' ہم امریکیوں کا ہر جگہ دفاع کریں گے، قاسم سلیمانی کو جنگ شروع کرنے کے لیے نہیں روکنے کے لیے مارا ہے۔ صدر ٹرمپ کی اس انوکھی منطق پر سوائے افسوس کے اور کیا کیا جاسکتا ہے۔
ادھر عراق کے شہرکربلا میں جنرل قاسم سلیمانی' عراقی کمانڈر ابو مہدی المہندس اور دیگر فوجیوں کی نماز جنازہ میں لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے شرکت کی۔ امریکا کے محکمہ دفاع پینٹاگان نے اعلان کیا ہے کہ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو نشانہ بنانے والے حملے کے ممکنہ ردعمل کا مقابلہ کرنے کے لیے مشرق وسطیٰ میں مزید تین ہزار فوجی خطے میں پہنچ گئے ہیں۔ امریکا کے اس جارحانہ حملے کے بعد چین سمیت خطے کی حکومتیں مشرق وسطیٰ کی صورت حال کو مزید بگڑنے سے بچانے کے لیے سرگرم ہو گئی ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ امریکا ایران پر حملے سے ہر ممکن طور پر باز رہے اور یہ خطہ جنگ سے دور رہے۔
ایرانی جنرل قاسم سلیمانی پر حملے کے بعد چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی نے اپنے ایرانی ہم منصب سے ٹیلیفونک گفتگو میں کہا کہ امریکا کو طاقت کا غلط استعمال نہیں کرنا چاہیے بلکہ بات چیت کے ذریعے مسئلے کا حل تلاش کیا جائے۔ چین کی وزارت خارجہ کے مطابق وانگ ژی نے ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کو بتایا کہ خطرناک امریکی فوجی آپریشن سے بین الاقوامی تعلقات کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہوئی اور اس سے علاقائی تناؤ اور انتشار بڑھ سکتا ہے۔
ایران کے صدر حسن روحانی نے بھی ترک صدر رجب طیب اردگان سے ٹیلی فون پر امریکی حملے سے پیدا ہونے والی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا، ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا کہ ایران اور ترکی مل کر امریکا کی مخالفت کریں ورنہ امریکا جارحیت اور سرکشی کے مزید اقدامات کر سکتا ہے۔ چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی نے بھی اپنے روسی ہم منصب سے ٹیلی فون پر مشرق وسطیٰ کی صورت حال پر بات چیت کی۔ سعودی فرمانروا شاہ سلمان نے عراقی صدر ڈاکٹر صالح سے ٹیلی فون پر خطے میں ہونے والی تازہ پیش رفت پر بات چیت کرتے ہوئے اس بحران کو ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ شاہ سلمان نے عراق کی سلامتی اور استحکام کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خطے میں تناؤ کو کم کرنے کے لیے تمام اقدامات اٹھائے جائیں۔ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے لیے فوجی تربیتی پروگرام، انٹرنیشنل ملٹری ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ پروگرام (آئی ایم ای ٹی) بحال کرنے کے فیصلے کی توثیق کر دی ہے۔
امریکا کی معاون نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز نے ایک بیان میں کہا کہ اس پروگرام کی بحالی کا فیصلہ امریکا کی قومی سلامتی کے پیش نظر کیاگیا ہے جس سے دونوں ملکوں کے درمیان فوجی تعاون مزید مضبوط ہوگا، ایلس ویلز نے کہا کہ پاکستان کے لیے مجموعی امریکی فوجی امداد بدستور معطل رہے گی۔ پاکستان کے ساتھ ''آئی ایم ای ٹی'' پروگرام ایک سال سے معطل تھا۔ علاوہ ازیں امریکا کے فوجی تربیتی پروگرام کی بحالی پر بھی بھارت نے پروپیگنڈا شروع کردیا۔دوسری جانب ماہرین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ آخر ایسی کیا مجبوری آن پڑی تھی کہ امریکا نے بغداد میں ایرانی جنرل کو نشانہ بنا ڈالا جب کہ ایران امریکا کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کر رہا تھا، اس طرح مشرق وسطیٰ کی صورت حال بگاڑنے کے لیے امریکا نے پہل کی ہے جس پر ایران کا جواب دینا فطری عمل ہے۔ اگر امریکا نے ایران پر مزید حملے کیے اور جواب میں ایران نے امریکی اہداف کو نشانہ بنایا تو خطے میں جنگ چھڑنے کا خدشہ خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔
امریکا کو اپنے جارحانہ رویے سے روکنے کے لیے روس اور چین کو فوری طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلا کر صورت حال کو مزید بگڑنے سے بچانے کے لیے اقدامات کرنا چاہئیں۔ اگر عراق پر حملے کی طرز پر برطانیہ اور نیٹو افواج نے امریکا کا اس بار بھی ایران پر حملے کے لیے ساتھ دیا تو اس کے نہ صرف اس خطے بلکہ عالمی سطح پر منفی اثرات مرتب ہوں گے جنھیں کئی برسوں تک محسوس کیا جاتا رہے گا۔ اقوام متحدہ کا چارٹر تمام ممالک کے احترام اور سلامتی کو یقینی بنانے کا درس دیتا ہے لیکن حیرت انگیز امر یہ ہے کہ امریکا اقوام متحدہ کے چارٹر کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے جب چاہتا ہے کسی نہ کسی اسلامی ملک پر حملہ کرنے کے لیے چل پڑتا ہے اور اس کے اس جارحانہ عمل میں برطانیہ اور نیٹو افواج بھی شریک ہو جاتی ہیں۔ ایران کے پاس بھی جدید میزائل اور ہتھیار ہیں اگر امریکا نے اس پر حملہ کیا تو ایرانی ردعمل سے اسے بھی نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران خلیج میں امریکی فوجی اڈوں کو نشانہ بنا سکتا یا پھر آبنائے ہرمز میں کسی امریکی تیل بردار جہاز یا امریکا کے کسی اتحادی ملک کے جہاز کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ایران کے پاس ایک آپشن ایٹمی سمجھوتے سے مکمل طور پر دستبردار ہو کر ایٹمی ہتھیار بنانے کا اعلان بھی موجود ہے' ایران کی کوشش ہوگی کہ امریکا پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ عراق سے اپنی فوج نکال لے۔ ایران کے امکانی جوابی حملے سے بچنے کے لیے اسرائیل بھی سرگرم ہوگیا ہے۔ مشرق وسطیٰ کا خطہ مزید کسی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا اس لیے مزید کسی بگاڑ سے بچنے کے لیے خطے کے تمام ممالک کو اپنے اختلافات بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔
اگلے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے 52اہم اور حساس ترین مقامات کو نشانہ بنانے کی دھمکی دے ڈالی ہے تو جواب میں ایران بھی خطے میں 35کے قریب امریکی اہداف کے ساتھ ساتھ اسرائیلی دارالحکومت تب ابیب کو نشانہ بنانے کی دھمکی د ے رہا ہے' اس طرح دونوں جانب سے ایک دوسرے کو نشانہ بنانے کی دھمکیاں دینے سے خطے کی صورت حال مزید بگڑنے کے خدشے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔
بغداد میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کے امریکی حملے میں مارے جانے کے بعد ایرانیوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور وہ امریکا سے انتقام لینے کے نعرے لگانے لگے ہیں' اگلے روز شمالی بغداد میں امریکی ایئربیس اور امریکی فوجیوں کی رہائشی کالونی پر راکٹوں سے حملہ کیا گیا، فوجی اڈے پر دو راکٹ فائر کیے گئے جس میں پانچ افراد زخمی ہو گئے۔
تین زخمی عراقی فوجی ہیں، اس اڈے پر امریکی فوجی تعینات ہیں' بغداد کے قریب گرین زون پر راکٹ امریکی سفارت خانے کے قریب گرا۔ ممکنہ طور پر یہ حملے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کا ردعمل ہیں۔ امریکا نے عراق پر حملہ کرنے سے قبل وہاں مہلک ہتھیاروں کی موجودگی کا ڈراما رچایا تھا، اب پھر ایسا ہی کھیل کھیلتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی پر حملے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی جنرل سلیمانی امریکی فوجیوں اور سفارت کاروں پر حملے کا منصوبہ بنا رہے تھے' ہم امریکیوں کا ہر جگہ دفاع کریں گے، قاسم سلیمانی کو جنگ شروع کرنے کے لیے نہیں روکنے کے لیے مارا ہے۔ صدر ٹرمپ کی اس انوکھی منطق پر سوائے افسوس کے اور کیا کیا جاسکتا ہے۔
ادھر عراق کے شہرکربلا میں جنرل قاسم سلیمانی' عراقی کمانڈر ابو مہدی المہندس اور دیگر فوجیوں کی نماز جنازہ میں لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے شرکت کی۔ امریکا کے محکمہ دفاع پینٹاگان نے اعلان کیا ہے کہ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو نشانہ بنانے والے حملے کے ممکنہ ردعمل کا مقابلہ کرنے کے لیے مشرق وسطیٰ میں مزید تین ہزار فوجی خطے میں پہنچ گئے ہیں۔ امریکا کے اس جارحانہ حملے کے بعد چین سمیت خطے کی حکومتیں مشرق وسطیٰ کی صورت حال کو مزید بگڑنے سے بچانے کے لیے سرگرم ہو گئی ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ امریکا ایران پر حملے سے ہر ممکن طور پر باز رہے اور یہ خطہ جنگ سے دور رہے۔
ایرانی جنرل قاسم سلیمانی پر حملے کے بعد چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی نے اپنے ایرانی ہم منصب سے ٹیلیفونک گفتگو میں کہا کہ امریکا کو طاقت کا غلط استعمال نہیں کرنا چاہیے بلکہ بات چیت کے ذریعے مسئلے کا حل تلاش کیا جائے۔ چین کی وزارت خارجہ کے مطابق وانگ ژی نے ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کو بتایا کہ خطرناک امریکی فوجی آپریشن سے بین الاقوامی تعلقات کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہوئی اور اس سے علاقائی تناؤ اور انتشار بڑھ سکتا ہے۔
ایران کے صدر حسن روحانی نے بھی ترک صدر رجب طیب اردگان سے ٹیلی فون پر امریکی حملے سے پیدا ہونے والی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا، ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا کہ ایران اور ترکی مل کر امریکا کی مخالفت کریں ورنہ امریکا جارحیت اور سرکشی کے مزید اقدامات کر سکتا ہے۔ چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی نے بھی اپنے روسی ہم منصب سے ٹیلی فون پر مشرق وسطیٰ کی صورت حال پر بات چیت کی۔ سعودی فرمانروا شاہ سلمان نے عراقی صدر ڈاکٹر صالح سے ٹیلی فون پر خطے میں ہونے والی تازہ پیش رفت پر بات چیت کرتے ہوئے اس بحران کو ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ شاہ سلمان نے عراق کی سلامتی اور استحکام کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خطے میں تناؤ کو کم کرنے کے لیے تمام اقدامات اٹھائے جائیں۔ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے لیے فوجی تربیتی پروگرام، انٹرنیشنل ملٹری ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ پروگرام (آئی ایم ای ٹی) بحال کرنے کے فیصلے کی توثیق کر دی ہے۔
امریکا کی معاون نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز نے ایک بیان میں کہا کہ اس پروگرام کی بحالی کا فیصلہ امریکا کی قومی سلامتی کے پیش نظر کیاگیا ہے جس سے دونوں ملکوں کے درمیان فوجی تعاون مزید مضبوط ہوگا، ایلس ویلز نے کہا کہ پاکستان کے لیے مجموعی امریکی فوجی امداد بدستور معطل رہے گی۔ پاکستان کے ساتھ ''آئی ایم ای ٹی'' پروگرام ایک سال سے معطل تھا۔ علاوہ ازیں امریکا کے فوجی تربیتی پروگرام کی بحالی پر بھی بھارت نے پروپیگنڈا شروع کردیا۔دوسری جانب ماہرین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ آخر ایسی کیا مجبوری آن پڑی تھی کہ امریکا نے بغداد میں ایرانی جنرل کو نشانہ بنا ڈالا جب کہ ایران امریکا کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کر رہا تھا، اس طرح مشرق وسطیٰ کی صورت حال بگاڑنے کے لیے امریکا نے پہل کی ہے جس پر ایران کا جواب دینا فطری عمل ہے۔ اگر امریکا نے ایران پر مزید حملے کیے اور جواب میں ایران نے امریکی اہداف کو نشانہ بنایا تو خطے میں جنگ چھڑنے کا خدشہ خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔
امریکا کو اپنے جارحانہ رویے سے روکنے کے لیے روس اور چین کو فوری طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلا کر صورت حال کو مزید بگڑنے سے بچانے کے لیے اقدامات کرنا چاہئیں۔ اگر عراق پر حملے کی طرز پر برطانیہ اور نیٹو افواج نے امریکا کا اس بار بھی ایران پر حملے کے لیے ساتھ دیا تو اس کے نہ صرف اس خطے بلکہ عالمی سطح پر منفی اثرات مرتب ہوں گے جنھیں کئی برسوں تک محسوس کیا جاتا رہے گا۔ اقوام متحدہ کا چارٹر تمام ممالک کے احترام اور سلامتی کو یقینی بنانے کا درس دیتا ہے لیکن حیرت انگیز امر یہ ہے کہ امریکا اقوام متحدہ کے چارٹر کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے جب چاہتا ہے کسی نہ کسی اسلامی ملک پر حملہ کرنے کے لیے چل پڑتا ہے اور اس کے اس جارحانہ عمل میں برطانیہ اور نیٹو افواج بھی شریک ہو جاتی ہیں۔ ایران کے پاس بھی جدید میزائل اور ہتھیار ہیں اگر امریکا نے اس پر حملہ کیا تو ایرانی ردعمل سے اسے بھی نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران خلیج میں امریکی فوجی اڈوں کو نشانہ بنا سکتا یا پھر آبنائے ہرمز میں کسی امریکی تیل بردار جہاز یا امریکا کے کسی اتحادی ملک کے جہاز کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ایران کے پاس ایک آپشن ایٹمی سمجھوتے سے مکمل طور پر دستبردار ہو کر ایٹمی ہتھیار بنانے کا اعلان بھی موجود ہے' ایران کی کوشش ہوگی کہ امریکا پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ عراق سے اپنی فوج نکال لے۔ ایران کے امکانی جوابی حملے سے بچنے کے لیے اسرائیل بھی سرگرم ہوگیا ہے۔ مشرق وسطیٰ کا خطہ مزید کسی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا اس لیے مزید کسی بگاڑ سے بچنے کے لیے خطے کے تمام ممالک کو اپنے اختلافات بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔