ڈیٹا اسٹرکچرز سے ڈیٹا سائنس تک

حکومت آئے روز ایسے منصوبوں کا اعلان کرتی رہتی ہے جن کے تحت نوجوانوں کو ہنرمند بنا کر برسرِ روزگار کیا جاسکے گا؛ چاہے وہ ملازمت کی شکل میں ہو یا پھر فری لانسر کی حیثیت میں۔ یہ سوچ یقیناً قابلِ تعریف ہے لیکن جب روزگار کی بات ہو تو پھر ایسے ہنر کو زیادہ ترجیح دینی چاہیے جن کی مانگ زیادہ ہو۔ ڈیٹا سائنس بھی آج کے زمانے میں ایسا ہی ایک شعبہ ہے۔

زیرِ نظر بلاگ بھی اسی اہمیت کے پیشِ نظر تحریر کیا جارہا ہے۔

چند دن پہلے ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی اور محترمہ ثناء رشید کی مشترکہ تصنیف ’’ڈیٹا سائنس: ایک تعارف‘‘ شائع ہوئی ہے جو اس ذیل میں نئے لوگوں کی خصوصی رہنمائی کرسکتی ہے۔ ویسے اس کتاب کی قیمت تو ایک ہزار (1,000) روپے ہے لیکن اس کے ذریعے قارئین کو حاصل ہونے والی، کروڑوں روپے کی رہنمائی سے اس کا موازنہ کیا جائے تو یہ قیمت کچھ زیادہ نہیں۔

ویسے آپس کی بات ہے، اگر آپ اسے ’’خرچہ‘‘ تصور کریں گے تو یقیناً یہ خطیر رقم ہے؛ لیکن اگر آپ اسے مستقبل پر کی جانے والی ’’سرمایہ کاری‘‘ سمجھیں گے تو یہ رقم بہت معمولی ہے… ارے! آج کل یار لوگ تو اس سے زیادہ رقم پیزا اور برگر پر خرچ کردیتے ہیں۔

132 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں کُل 12 ابواب ہیں جن کی ترتیب کچھ اس طرح سے ہے:

ابواب کی فہرست دیکھ کر آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ اس کتاب کا کچھ حصہ تو کم و بیش سب لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں لیکن پروگرامنگ اور تکنیکی پہلوؤں سے تعلق رکھنے والے کچھ ابواب صرف وہی قارئین سمجھ سکتے ہیں جو پہلے ہی کمپیوٹر پروگرامنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ البتہ، ایک مدیر کی حیثیت سے میرا مشورہ ہوگا کہ اگر آپ کمپیوٹر پروگرامنگ کے میدان میں اپنا کیریئر بنانا چاہتے ہیں یا کمپیوٹر سائنس ہی میں کسی نئے ذیلی شعبے میں قدم رکھنا چاہتے ہیں، تو اس سے بہتر کتاب آپ کو کہیں نہیں ملے گی… وہ بھی اردو میں۔

حال کے ’ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی‘ نے 1999 میں ایک نوجوان کی حیثیت سے پیٹرومین سکھر سے بی سی ایس کیا تھا۔ تب ان کا فائنل پروجیکٹ ’’ڈیٹا اسٹرکچرز ٹیوٹر‘‘ تھا۔ آج، 21 سال بعد، ان کا شمار پاکستان میں صفِ اوّل کے ڈیٹا سائنٹسٹس میں ہوتا ہے۔ یہ الگ بات کہ آج بھی ان کی صلاحیتوں سے دوسرے ممالک والے ہی زیادہ فائدہ اٹھا رہے ہیں اور پاکستان میں صرف نام نہاد شہرت رکھنے والے اناڑیوں ہی کو بڑے بڑے سرکاری عہدوں سے نوازا جارہا ہے۔ (جہاں تک سینیارٹی کا تعلق ہے تو ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی اس وقت پورے پاکستان میں سب سے زیادہ تجربہ کار ڈیٹا سائنٹسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ مصنوعی ذہانت یعنی آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے بڑے ماہرین میں بھی شمار ہوتے ہیں۔)

مذکورہ کتاب کی شریک مصنفہ محترمہ ثناء رشید ہیں جو نہ صرف ڈیٹا سائنس میں ماسٹرز ہیں بلکہ اس وقت بلاک چین میں پی ایچ ڈی بھی کررہی ہیں۔ ان کا زیادہ تر قیام یورپی ممالک میں رہتا ہے اور آج کل ایک بین الاقوامی کنسلٹنگ کمپنی میں لیڈ ڈیٹا سائنٹسٹ اور مینٹور کے طور پر کام کررہی ہیں۔ یہ ان کی دوسری کتاب ہے جبکہ اس سے قبل وہ ’’آر پروگرامنگ‘‘ پر اردو میں ایک کتاب لکھ چکی ہیں۔

یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ جس طرح آج سے اکیس سال پہلے ایک سینئر سائنس جرنلسٹ نے ذیشان الحسن عثمانی کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں آگے بڑھایا تھا، آج اسی روایت پر عمل کرتے ہوئے ذیشان الحسن عثمانی خود بھی اپنے میدان میں نیا ٹیلنٹ ڈھونڈ رہے ہیں اور اس کی حوصلہ افزائی بھی کررہے ہیں۔

اگر آپ یہ کتاب براہِ راست خریدنا چاہتے ہیں تو برائے مہربانی اس ’’لنک‘‘ پر کلک کیجیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔