سنیما اور ہمارا لڑکپن

انوار احمد  جمعرات 2 مئ 2024
سنیما ہال پہلے تو ویران ہوئے، پھر مسمار کردیے گئے اور ان کی جگہ شاپنگ پلازہ بن گئے۔ (فوٹو: فائل)

سنیما ہال پہلے تو ویران ہوئے، پھر مسمار کردیے گئے اور ان کی جگہ شاپنگ پلازہ بن گئے۔ (فوٹو: فائل)

میرا آج کا موضوع ہے تو ’’سنیما اور ہمارا لڑکپن‘‘ لیکن پہلے تھیٹر، سنیما اور دوسرے ابلاغ کی تاریخ پر بھی ایک سرسری نظر ڈال لیتے ہیں۔

تھیٹر کی تاریخ قدیم یونان اور روم سے دور حاضر تک کسی نہ کسی شکل میں ہمیشہ موجود رہی ہے۔ رومن ایمپائر میں حکومت کی جانب سے بڑے پیمانے پر ڈرامے اسٹیج کیے جاتے تھے، اس کی ایک شکل گلیڈی ایٹرز کا خونی کھیل بھی تھا۔ اسی طرح قدیم یونانی تہذیب میں بھی تھیٹروں میں دیومالائی کہانیاں اور دیوی دیوتاؤں کے کردار پیش کیے جاتے تھے۔

زمانہ قدیم سے ہی قصہ گوئی یا اپنی بات کو آگے بڑھانا کے فن کےلیے تھیٹر کے علاوہ نوٹنکی، کٹھ پتلی تماشا، بھانڈ اور میراثی اپنی جگت اور برجستہ مکالموں کے ذریعے عوام سے بہت کچھ کہہ جاتے اور لوگ اس سے محظوظ بھی ہوتے۔

اٹھارہویں صدی کے آخر میں ہندوستان میں ان ابلاغ کے علاوہ سنیما اور بعد میں ٹی وی اور جدید دور میں سوشل میڈیا نے اہم کردار ادا کیا۔ داستان گوئی یا اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کا یہ سلسلہ جاری ہے اور جاری رہے گا، بس اس کی ہیئت اور ذرائع بدلتے رہیں گے۔

یورپ میں صنعتی انقلاب اور زار روس کے خلاف بالشویک تحریک کے پیچھے جہاں اس دور کے فلاسفرز اور مصنفین نے اہم کردار ادا کیا، وہیں تھیٹر نے بھی عوام کو شعور و آگہی دی۔ اس دور میں شکسپیئر کے علاوہ تھامس ڈیکر، جان فورڈ اور دوسرے بہت سے ڈرامہ نگاروں نے یورپ میں تفریح کے ساتھ عوام کی ذہن سازی بھی کی، جو یورپ کی ترقی کا سبب بنا۔ آج بھی امریکا اور یورپ میں تھیٹر اور اوپیرا بہت مقبول ہیں۔ ہالی وڈ کے اکثر عظیم اداکار فلم سے پہلے تھیٹر ایکٹر تھے جہاں ان کی اداکارانہ صلاحیتوں کو جلا ملی۔

برصغیر میں قصہ گوئی، نوٹنکی اور کٹھ پتلی تماشا کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ آج بھی پشاور کے مرکزی شہر میں ’’قصہ خوانی بازار‘‘ موجود ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ قصہ گوئی ہی ہے۔ اس بازار میں کبھی قافلے اور تجارتی کارواں آکر ٹھہرتے تھے اور رات کے وقت ماہر قصہ گو اپنے اور دوسروں کے سفری تجربات اور واقعات دلچسپ پیرائے میں بیان کرتے، جو تھکے ہارے مسافروں کےلیے تفریح کے ساتھ معلومات کا بھی سبب بنتے۔

ہندوستانی معاشرے میں نوٹنکی، بھانڈ، جگت باز اور کٹھ پتلی تماشا کا اہم کردار ہے، جس میں گاؤں دیہات کے لوگ لوک ورثہ اور روایتی کرداروں جیسے آلھا اودل، رامائن، شیخ چلی، الف لیلیٰ اور دیگر کرداروں کی تمثیل سے لطف اندوز ہوتے تھے۔

ہندوستان میں تھیٹر اٹھارہویں صدی کے آخر میں آیا۔ اس کو متعارف کرانے میں پارسی سیٹھوں کا بڑا حصہ ہے، انہوں نے ملک بھر میں تھیٹریکل کمپنیاں قائم کیں اور گاؤں گاؤں کھیل پیش کیے، جو زیادہ تر دیومالائی کہانیوں پر مشتمل ہوتے۔ آغا حشر کاشمیری ہندوستانی تھیٹر کے شکسپیئر کا مقام رکھتے ہیں۔ ان کے لکھے ڈرامے آنکھ کا نشہ، یہودی کی لڑکی، سفید خون، مدھر مرلی اور دوسرے بہت سے ڈراموں نے دھوم مچادی تھی۔ تھیٹر ہی ہندوستانی سنیما کی بنیاد بنا اور اسے بہترین اداکار دیے جن میں سہراب مودی، پرتھوی راج اور اس دور میں نصیر الدین شاہ، شبانہ اعظمی، اوم پوری اور بہت سے دوسرے شامل ہیں۔

انیسویں صدی کے شروع میں پہلی بار دو انگریز بھائیوں نے چلتی پھرتی فلم بمبئی کے ایک ہوٹل میں اسکرین کی۔ اس کے کچھ عرصے بعد ایک ہندوستانی دادا صاحب پھالکے نے پہلی ہندوستانی فلم راجہ ہریش چندرا پیش کی۔ خاموش فلموں کے دور میں چلتی پھرتی تصاویر تو دکھائی جاتیں لیکن اس وقت تک فلم کے سلیو لائیڈ پر آواز نہیں ریکارڈ ہوتی بلکہ پردے کی پیچھے صداکار ہوتے جو سین اور کرداروں کے مکالمے بولتے۔ اسی طرح سازندے اپنے سازوں کے ساتھ پس پردہ بیٹھے موقع کی مناسبت سے ساز بجاتے۔ دادا صاحب پھالکے ہندوستانی سنیما کے موجد ٹھہرے۔ ان کے نام سے موسوم ایوارڈ کا ملنا آج کسی بھی بھارتی فنکار کےلیے ایک اعزاز ہے۔

پہلی ہندوستانی بولتی فلم ’’عالم آرا‘‘ بنی، جو ایک پارسی سیٹھ اردشیر ایرانی نے بنائی اور پھر اس کے بعد فلم میکنگ کا سلسلہ چل نکلا۔ ہندوستانی سنیما نے آزادی اور انگریز راج کے خلاف موضوعات پر فلمیں بنائیں اور عوام کو متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ سنیما انڈسٹری نے ہندوستان میں بے پناہ ترقی کی۔ آج بھارتی فلم انڈسٹری ہالی وڈ سے ٹکر لے رہی ہے۔ بھارتی سنیما سے جڑے فنکاروں کی ساری دنیا میں پذیرائی ہوتی ہے اور اس انڈسٹری سے نہ صرف ملک کو خطیر زرمبادلہ مل رہا ہے بلکہ اس نے دنیا کو بھارت کا ایک سافٹ امیج بھی دیا ہے۔

تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں بھی اعلیٰ درجے کی فلمیں بنیں اور عظیم فنکار، موسیقار اور گلوکار سامنے آئے۔ ستر کی دہائی تک پاکستانی سنیما ترقی کی جانب رواں تھا۔ لاہور، کراچی اور ڈھاکا میں فلمیں بنتیں اور خوب چلتی تھیں بلکہ بھارتی فلموں کے مقابلے میں رش بھی لیتیں۔ اسٹوڈیو آباد تھے اور نئے سنیما گھر بھی بن رہے تھے۔ صرف کراچی میں ڈیڑھ سو سے زیادہ سنیما ہال تھے۔ لاہور فلم انڈسٹری کا گڑھ تھا۔ کراچی میں بھی معیاری فلمیں بن رہی تھیں اور نئے فنکار بھی سامنے آرہے تھے جبکہ ڈھاکا سینٹر بنگالی کے علاور اردو زبان میں بھی فلمیں بنارہا تھا۔ چندا، آخری اسٹیشن اور چکوری جیسی لاجواب فلمیں بنیں۔ بنگالی سنیما ہم سے بہت آگے تھا، ان کی فلمیں حقیقت سے زیادہ قریب تھیں۔

بھٹو کے زمانے میں فلم کی ترقی کےلیے ایک ادارہ NAFDEC نیف ڈیک (نیشنل فلم ڈیولپمنٹ کارپوریشن) قائم ہوا۔ اس ادارے کا اسلام آباد میں اپنا ایک سنیما بھی تھا۔ نیف ڈیک کے تعاون سے کئی اعلیٰ اور معیاری فلمیں بنیں جیسے کہ جاگو ہوا سویرا، سکھ کا سپنا اور قسم اس وقت کی۔ بدقسمتی سے یہ ادارہ بھی سیاست اور بدانتظامی کی وجہ سے ختم ہوگیا۔

80 کی دہائی تک سنیما کے ساتھ تھیٹر بھی عروج پر تھا۔ کراچی میں خواجہ معین الدین اور دوسرے ڈرامہ نگاروں کے کھیل کیٹرک ہال، تھیوفیسیکل ہال میں دکھائے جاتے۔ اسی طرح لاہور کے الحمرا ہال اور دوسرے اسٹیج پر بھی معیاری کھیل پیش کیے جاتے رہے۔ اجوکا تھیٹر نے عمدہ کھیل نہ صرف اسٹیج پر پیش کیے بلکہ گاؤں اور گلیوں میں بھی عوامی تھیٹر لگائے۔

اسی دور میں ریڈیو سے بھی نہایت عمدہ ڈرامے نشر ہوئے۔ اسٹوڈیو نمبر دو اور ’’حامد میاں کے ہاں‘‘ نے معاشرے کی خوبصورت تصویر پیش کی اور روزمرہ کے مسائل کو بہت موثر طریقے سے نشر کیا۔ آواز کی دنیا کے بہترین صداکار سامنے آئے، جن کے فن کا آج بھی زمانہ معترف ہے۔ ریڈیو نے نہ صرف ڈرامہ بلکہ عزاداری اور دیگر مذہبی پروگرام پیش کیے، جو اپنی مثال آپ تھے۔

ساٹھ کی دہائی میں سنیما منی اسکرین ٹی وی کی شکل میں گھروں تک پہنچ گیا۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے تمام سینٹرز نے ایسے ایسے تاریخی، معلوماتی اور تفریحی پروگرام پیش کیے جنہیں بھلایا نہیں جاسکتا۔

ٹیلی ویژن کی مقبولیت کے ساتھ پاکستانی سنیما بھی زندہ تھا لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر پاکستانی فلم انڈسٹری زوال کا شکار ہوگئی۔ اسٹوڈیو ویران ہوگئے اور سنیما گھر شاپنگ پلازہ اور اپارٹمنٹ میں تبدیل ہوگئے، جو ایک المیہ ہے۔

اب آتے ہیں اپنے موضوع کی طرف جو سنیما بینی اور ہمارے لڑکپن سے متعلق ہے۔ ہم نے پہلی فلم کب اور کیسے دیکھی یہ تو ٹھیک سے یاد نہیں لیکن اتنا ضرور یاد ہے کہ ہماری عمر آٹھ دس برس رہی ہوگی۔ عید کا دن تھا، ہمارے بڑے بھائی مرحوم اقبال فیصل مجھے فلم دکھانے لے گئے۔ یہ ریگل سنیما تھا۔ کوئی بلیک اینڈ وائٹ انڈین فلم چل رہی تھی۔ ہم کچھ دیر بعد پہنچے تھے، ہال میں اندھیرا ہوچکا تھا۔ بھائی میرا ہاتھ پکڑ کر سیٹ تک لائے اور بٹھایا۔ گھپ اندھیرا، فلم شروع ہوئی تو ہم خوفزدہ سے ہوگئے اور بڑے بھیا کا ہاتھ زور سے پکڑ لیا۔ فلم کب شروع ہوئی کب ختم ہوئی کچھ یاد نہیں لیکن انٹرول میں بھائی صاحب نے مونگ پھلی خرید کر دی اور پاکولا کی بوتل بھی پلائی جو فلم سے اچھی لگی۔ تو یہ تھی ہماری پہلی فلم۔

ہمارا بچپن اور لڑکپن ناظم آباد بلاک پانچ لبرٹی سنیما کے قریب گزرا۔ اس زمانے میں فلم دیکھنا معیوب سمجھا جاتا تھا لیکن پھر بھی فلمیں دیکھی جاتی تھیں۔ ہم ابھی تک اس لت سے محروم تھے۔ ایوب خان کا دور تھا۔ عوام کی تفریح اور حکومتی پروپیگنڈے کےلیے کبھی کبھی انفارمیشن ڈپارٹمنٹ کی طرف سے فلم دکھائی جاتیں۔ کئی دن پہلے سے اعلان کردیا جاتا کہ محلے میں فلم دکھائی جائے گی اور ان کی طرف سے کسی بڑی دیوار پر یا اسکرین لگا کر مفت فلم دکھائی جاتی۔ اہل محلہ کرسیاں اور دریاں لے کر آجاتے اور مل جل کر فلم دیکھتے۔

مجھے خوب یاد ہے اس زمانے میں ایک ڈاکومینٹری فلم ’’نئی روشنی‘‘ کے نام سے دکھائی جاتی تھی، جو صدر ایوب کی اصلاحات اور کامیابیوں پر مبنی پروپیگنڈا فلم تھی۔ لیکن ہم ان باریکیوں کو کیا جانیں اور خوب فلم انجوائے کرتے۔ زیادہ تر کارٹون فلمیں ہوتیں، کبھی لوریل اینڈ ہارڈی یا چارلی چپلن کی مزاحیہ فلم بھی دکھائی جاتی۔ ہم سب فلم دیکھتے اور ہنسے گاتے واپس جاتے۔

ہماری فلم بینی کی ابتدا ہمارے گھر سے قریب لبرٹی سنیما سے ہوئی۔ ہمارے بچپن کی بہت سی یادیں اس سے وابستہ ہیں، بالکل اپنا سنیما لگتا تھا۔ لبرٹی کا اسٹاف اور گیٹ کیپرز بھی محلے کے لڑکوں کو جانتے تھے اور سنیما اسٹاف کے کئی افراد تو اسی محلے کے تھے، وہ اہل محلہ اور خواتین کی عزت کرتے تھے۔

لبرٹی سنیما کے افتتاح کی تقریب آج بھی ذہن کے کسی گوشے میں تازہ ہے۔ شام کے وقت سنیما کے اسٹیج پر ایک ورائٹی شو بھی ہوا تھا جس میں مختلف خاکے اور گانے گائے گئے تھے۔ ڈینیئل سسٹرز نے بھی کئی گانے سنائے۔ اس زمانے میں ان کا بہت چرچا تھا اور اسٹیج پر گاتی تھیں۔ ایک کا نام سوزی ڈینیئل تھا، بعد میں معلوم ہوا یہ یہودی تھیں اور اسرائیل جاکر آباد ہوگئیں۔ اسی شو میں تارا گھنشیام نام کی ایک لڑکی کا رقص آج بھی ذہن پر نقش ہے۔ تارا بلبل اکیڈمی کی تربیت یافتہ کتھک رقاصہ تھیں۔

میں اور میرے کئی کزن اور دوست اکثر لبرٹی آنے والی فلموں کے پوسٹرز دیکھنے چلے جاتے۔ ہم فلموں کی اسٹل فوٹوز دیکھتے اور کبھی کبھی جب زیادہ رش نہ ہوتا تو انٹرول میں خالی سیٹوں پر جا بیٹھتے اور بقیہ فلم مفت میں دیکھ لیتے۔ لبرٹی سنیما ایئرکنڈیشنڈ نہیں تھا، اس لیے کبھی کبھی رات کے شوز میں ایک طرف کے دروازے کھول دیے جاتے اور آواز باہر تک سنائی دیتی اور ہماری ٹولی گھر سے کوئی بہانہ بناکر پہنچ جاتی۔ کبھی باہر سے اور اگر سیٹ خالی ہوتی تو گیٹ کیپر کی نظر بچا کر اندر بھی چلے جاتے اور فلم دیکھتے۔

ہمارے گھر سے قریب ہی ماموں اور خالہ کے مکان بھی تھے۔ ہم کزنز تقریباً ہم عمر تھے۔ ہمارے گروپ میں چند دوست بھی تھے۔ اکثر جب ہم میں سے کوئی اپنے گھر سے غائب ہوتا تو گھر والوں کو کوئی خاص تشویش نہیں ہوتی اور وہ یہی سمجھتے کی ماموں یا خالہ کے گھر ہوں گے۔ ہمارے گروپ سے سینئر بھی ایک گروپ تھا جس میں ہمارے دو بڑے بھائی، ہمارے خالہ زاد اور ان کے کچھ دوست تھے۔ سینئر گروپ لبرٹی اور شالیمار کے علاوہ شہر بھر کے سنیما ہال کی یاترا کرتے، انڈین اور انگلش فلمیں دیکھتے۔ اشوک کمار، دلیپ کمار اور موتی لال کی اداکاری اور میلہ، انداز اور برسات پر تبصرے کرتے یا انگلش فلمیں گون ود دی ونڈ، فیرویل ٹو آرم اور وودرنگ ہائٹس پر باتیں کرتے جو ہمارے پلے نہیں پڑتیں۔ ہماری پہنچ تو بس لبرٹی سنیما یا کبھی کبھی ذرا فاصلے پر شالیمار سنیما تک تھی۔

لبرٹی میں شاید مہینے میں ایک یا دو بار خواتین کا اسپیشل شو دن کے گیارہ بجے ہوتا تھا، جس کا ٹکٹ شاید ایک روپیہ تھا، بچوں کا آدھا ٹکٹ۔ ان شوز میں سوشل گھریلو فلمیں دکھائی جاتیں جنہیں دیکھ کر اکثر خواتین باقاعدہ رونے بھی لگتیں۔ فلم سہیلی، کنیز، ماں کے آنسو، نوکر، عشق حبیب، بیداری میں نے والدہ اور خالہ کے ساتھ انہی شوز میں دیکھیں۔ مجھے یاد ہے فلم عشق حبیب کے شو میں ہال اگربتی اور لوبان سے مہک رہا تھا، بالکل محفل سماع یا میلاد کا سا ماحول بن گیا تھا۔ اس فلم میں کئی مشہور قوالیاں تھیں ’’میرا کوئی نہیں ہے تیرے سوا‘‘، ’’میں بن کے سوالی آیا ہوں‘‘ سن کر عجیب کیفیت محسوس ہوتی۔ خواتین کے شو کے علاوہ بھی اکثر ہماری والدہ، ممانی، خالہ اور دیگر خواتین گھر کے کام کاج سے فارغ ہوکر نو سے بارہ والا شو دیکھنے جاتیں۔

لبرٹی کا جب ذکر ہو تو اس کے سامنے ملا جی کے ٹھیلے کو کیسے بھلایا جاسکتا ہے، جن کی حلیم اور بریانی کا ذائقہ آج بھی محسوس ہوتا ہے۔ ہال میں مونگ بھلی کھانا، پاکولا کی آئسکریم سوڈا اور بن کباب ایک عیاشی تھی۔ ایک اور یادگار فلموں کی کہانیوں اور گانوں کے کتابچے باہر اسٹالز پر ملتے تھے جو لوگ خوب خریدتے بھی تھے۔

ہمارے ہی محلے میں نامور کامیڈین لہری کا گھر تھا، ان کے دو چھوٹے بھائی فرید اور حسیب ہمارے دوست تھے۔ لہری صاحب کے گھر میں ایک بیری کا درخت تھا، اس کے بیر بہت بڑے اور میٹھے ہوتے۔ ہم پتھر مار کر بیر توڑتے اور بھاگ جاتے، ان کی بہن کی ڈانٹ سے بہت ڈر لگتا تھا۔ میری خالہ کے مکان سے متصل مشہور گیت نگار مسرور انور رہتے تھے۔ اکثر وہاں فلمی اداکار اور فلم ڈائرکٹرز بھی نظر آتے۔ مسرور انور کے بھانجے شاہد میرے دوست تھے۔

فلمسٹار ندیم بھی قریب ہی رہتے تھے، وہیں ان کے چچا ڈاکٹر بیگ کا کلینک تھا۔ ندیم جو اس زمانے تک نظیر بیگ تھے، میرے بڑے بھائی اقبال فیصل المعروف الن بھائی کے بڑے دوست تھے۔ وہ ساتھ ہی کرکٹ کھیلتے اور اسلامیہ کالج میں ہم جماعت بھی تھے۔ ان دنوں ندیم کراچی اسٹیج شوز میں گانے بھی گایا کرتے تھے۔ وہ اکثر گلوکار مکیش کے گانے گاتے۔ ’’چھوٹی سی یہ زندگانی ہے، چار دن کی جوانی تیری‘‘ ہم نے پہلی مرتبہ انہی سے ایک فنکشن میں سنا تھا۔ ندیم اس وقت بھی بہت خوبرو اور خوش لباس تھے طبیعت کے شرمیلے۔

ندیم کی پہلی فلم چکوری پیراڈائز سنیما میں ریلیز ہوئی تو کوئی خاص پذیرائی نہیں ملی۔ ندیم ڈھاکا سے آئے تھے اور ہوٹل جبیس میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ چکوری کی ریلیز کے دوسرے دن انہوں نے میرے بھائی کو بلایا اور ساتھ فلم دیکھی اور دونوں مایوس واپس آئے۔ کسی نے فلم کے ہیرو ندیم کو پہچانا بھی نہیں اور پھر چند روز بعد فلم ہٹ ہوگئی اور ندیم اسٹار بن گئے۔

جب ہم ذرا بڑے ہوئے تو ہماری سنیما بینی کا دائرہ بھی وسیع ہوگیا اور ہم کچھ فاصلے پر شالیمار اور ریلیکس تک جانے لگے۔ ریجنٹ سنیما کافی دور تھا اور ہماری پہنچ سے باہر۔ ویسے بھی وہاں زیادہ تر مزدور پیشہ افراد جاتے اور ماحول بھی کچھ غیر دوستانہ سا تھا۔ اس لیے ہماری لسٹ سے خارج تھا۔ ناظم آباد ہی میں ایک اور سنیما مسرت بھی تھا، جس کی چھت نہیں تھی وہاں صرف رات کے شو ہوا کرتے تھے۔ اکثر بھائی صاحب اپنے دوستوں کے ساتھ ہم کو لے بھی لے گئے۔ وہاں بہت پرانی بھارتی فلمیں لگتیں جن سے ہمیں کوئی دلچسپی نہ ہوتی لیکن اوپن ایئر سنیما کا لطف ضرور اٹھاتے۔

ہمارے اسکول میں شام کی شفٹ شروع ہوئی تو ہم نے اپنا ٹرانسفر سہ پہر کی شفٹ میں کرالیا۔ شاید اس کے بعد ہی ہم باقاعدہ فلم دیکھنے لگے۔ ہم چند دوست اور کزن اکثر ہاف ٹائم کے بعد کلاس سے ٹلہ مارتے اور شالیمار یا ریلکس سنیما جا پہنچتے۔ تین سے چھ والا شو دیکھتے۔ کبھی لبرٹی سنیما کا رخ نہیں کرتے کہ کوئی نہ کوئی مل جائے گا اور کتابیں ہاتھ میں دیکھ کر سمجھ جائے گا کہ لڑکے اسکول سے ٹلہ مار کر فلم دیکھنے آئے ہیں اور شکایت گھر پہنچ جائے گی۔ اس طرح بے شمار فلمیں دیکھیں اور گھر والوں کو خبر ہی نہ ہوئی۔ اتوار کو دس بجے سے ایک بجے تک مارننگ شو ہوتا تو گھر سے کرکٹ کا بلا لے کر نکلتے کہ میچ کھیلنے جارہے ہیں اور میچ کے بجائے فلم دیکھ کر شام ہونے سے پہلے لوٹ آتے۔ سب یہی سمجھتے کہ صاحبزادے کھیل کر آرہے ہیں۔ ہائے کہاں گیا وہ بجپن۔

جب کچھ بڑے ہوئے تو انگریزی فلموں کا شوق ہوا ۔ ہماری کچھ انگریزی بولنے والے اینگلو انڈین گوانیز لڑکے اور لڑکیوں سے دوستی بھی ہوگئی اور ہم بھی منہ ٹیڑھا کرکے ان کی طرح انگریزی بولنے لگے۔ کامکس اور فکشن پڑھتے، انگریزی فلمیں دیکھتے اور اب ہم اردو فلم دیکھنے والوں کو خود سے کمتر سمجھتے۔

بمبینو، لیرک، کیپیٹل، پیراڈائز، ریکس، ریو اور پیلس سنیما اب ہماری نئی منزل تھے۔ وہاں بہت سی فلمیں دیکھیں۔ پیلس سنیما ایک معیاری درجے کا سنیما تھا۔ سین کونری کی فلم Dr.No پیلس میں لگی، اس پر بہت رش تھا، ٹکٹ ملنا محال تھا، ایسے میں ایک اینگلو انڈین دوست نوبرٹ جسے ہم نوبی پکارتے تھے، کسی طرح تین ٹکٹ لے آیا۔ اس کے ساتھ اس کی دوست بھی تھی۔ ہم تینوں نے ڈاکٹر نو اکھٹے دیکھی جو آج بھی یاد ہے اور پھر فلم کے ایک سین میں جب ایجنٹ ڈبل او سیون جیمز بوںڈ کا سگریٹ سلگا کر اپنا نام بتانا، ’’بونڈ، جیمز بونڈ‘‘ ہمارے ذہنوں پر چھاگیا اور ہم بھی اس کی نقل کرنے لگے۔

صدر میں فلم دیکھنے کے بعد اکثر ہم پنچ کول آئسکریم پارلر میں آئسکریم کھاتے۔ غالباً پنچ کول کراچی میں پہلا یورپین طرز کا آئسکریم پارلر تھا۔ وہاں ایک مشین لگی تھی، جس میں چند سکے ڈال کر اپنی پسند کے انگریزی گانے سنتے۔ فرینک سناترا، ایلوس پریسلے، کلف رچرڈ اور بوبی ڈارن کے گانوں پر قدم خودبخود تھرکنے لگتے۔ بول پوری طرح نہ بھی سمجھ میں آتے لیکن گانوں کی بیٹ اچھی لگتی۔ اس زمانے میں فلم کم سپٹمبر کی میوزک جس پر راک ہڈسن اور جینا لولو برجیڈا کا ٹوئسٹ ڈانس بہت مقبول ہوا۔ وہ دھن آج بھی کبھی سنتا ہوں تو ذہن بیتے دنوں میں کھو جاتا ہے۔

ان دنوں سنیما گھروں کا اپنا کلچر تھا۔ ٹکٹ کےلیے لائن لگتی تھی۔ زیادہ رش ہونے پر سنیما کے ’’دادا‘‘ جو اکثر ہمارے مکرانی بھائی ہوتے، ان کے ہاتھ میں ایک خردم یا کین ہوتی جس کے زور پر لائن لگوائی جاتی۔ بہت زیادہ رش ہوتا تو ٹکٹ بلیک میں بکتے۔ کبھی کبھی ہنگامہ بھی ہوجاتا اور سات گراری والا چاقو بھی نکل آتا۔ پہلا شو دیکھنے کا ایک الگ نشہ ہوتا اور فخریہ کہا جاتا میں نے پہلے شو میں فلم دیکھی ہے یا ایڈوانس بکنگ کرائی ہے۔

کبھی کراچی میں ڈرائیو اِن سنیما بھی ہوا کرتا تھا۔ لوگ اپنے اہل خانہ کے ساتھ بلا خوف و خطر آتے، اپنی کار ہی میں بیٹھے بیٹھے فلم دیکھتے۔ بس مائیک کار میں ڈال لیتے تو ساؤنڈ بھی آجاتا۔ اگر دل چاہے تو کار کی سائیڈ یا سامنے فولڈنگ چیئر یا دری بچھاکر فلم انجوائے کرتے۔ کیسا امن و امان تھا اور تفریح کے کتنے مواقع تھے۔ اب تو یاد ہی نہیں کہ آخری بار کب کسی سنیما میں کوئی فلم دیکھی تھی۔

اور پھر سنیما کا زوال شروع ہوگیا۔ وی سی آر نے مزید تباہی پھیلائی۔ سنیما ہال پہلے تو ویران ہوئے، پھر مسمار کردیے گئے اور ان کی جگہ شاپنگ پلازہ بن گئے۔ ہمارا لبرٹی، شالیمار اور ریلکس بھی مسمار کردیے گئے اور اب وہاں فلیٹ بن گئے ہیں۔ جب کبھی وہاں سے گزرتا ہوں تو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ کیسی خوبصورت یادیں وابستہ ہیں ان سنیماؤں سے۔

کچھ عرصہ پہلے ایک فون کی خریداری کےلیے جاوید بھائی کی دکان پر لیرک مارکیٹ جانا ہوا۔ اس بلڈنگ میں کبھی لیرک سنیما ہوا کرتا تھا۔ گنز آف نیوارون اور ہیروز آف ٹیلیمارک یہیں دیکھی تھی۔ جاوید بھائی برابر میں مرحوم بمبینو سنیما کی بلڈنگ میں لے گئے جہاں کبھی اس کے سائن بورڈ پر نیون سائن کی ایک رقاصہ دور سے دکھائی دیتی تھی۔ دل پر ایک دھچکا لگا اس کی حالت زار دیکھ کر۔ کبھی یہاں قلوپطرہ اور فال آف رومن ایمپائر کا پریمیئر ہوا تھا۔ صدر ایوب نے اسی تھیٹر میں یہ فلم دیکھی تھی اور اب وہاں بھی موبائل مارکیٹ ہے۔

سنیما مرگیا اور اپنے ساتھ ایک کلچر، بہت سی یادیں اور سستی تفریح بھی لے گیا۔ جب کسی معاشرے سے کھیل، تفریح، فنون لطیفہ اور کتاب اٹھ جائے تو پھر وہاں وحشت، عدم برداشت، چڑچڑا پن اور تنگ نظری کے سوا کچھ نہیں رہتا۔ شکوہ کریں تو کس سے۔ ہم نے تو خود ہی اپنی روایات، ثقافت اور تہذیب کا قتل کیا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔