خلاف ضابطہ ترقیاں حاصل کرنیوالے افسروں کی تنزلی کا حکم

3دن میں بتایا جائے رائو انوار سمیت 56 افسروں کی ترقی کیوں دیں، سپریم کورٹ

3دن میں بتایا جائے رائو انوار سمیت 56 افسروں کی ترقی کیوں دیں، سپریم کورٹ فوٹو: فائل

FAISALABAD:
سپریم کورٹ نے توہین عدالت کے الزام میں چیف سیکریٹری سندھ اور قائم مقام آئی جی سندھ کے جواب مسترد کرتے ہوئے انھیں ایک اور موقع دیا ہے کہ وہ 3 یوم میں پولیس میں خلاف ضابطہ ترقیوں کے معاملے کی جانچ پڑتال کرکے اپنی رپورٹ جمعرات کو عدالت میں پیش کردیں۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ عبدالفتاح ملک نے اعتراف کیا کہ مزید افسروں ڈی ایس پی عبدالجبار قائم، ڈی ایس پی حا مدبھرگڑی اورڈی ایس پی مرزاشہبازکو آؤٹ آف ٹرن پروموشنز دینے کے لیے عدالت عظمی کے حکم پرعملدرآمد نہیں کیا گیا۔ جسٹس انورظہیر جمالی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے ان افسران کو فوری ان کے اصل عہدوں پر واپس بھیجنے کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کی ہدایت کی۔

فاضل بینچ نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو آئندہ سماعت پر اس نکتے پر بھی دلائل دینے کی ہدایت کی کہ کیوں نہ آؤٹ آف ٹرن پروموشن سے متعلق قانون 9Aکی آئینی حیثیت کے تعین کے لیے اس کارروائی کو ازخود کارروائی میں تبدیل کر دیا جائے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ جوکام کرنے کو کہا جاتا ہے وہ نہیں کیا جاتا اور جس کام سے روکا جاتا ہے وہ کردیا جاتا ہے۔

پولیس کانسٹیبل اور انسپکٹر کی تو تنزلی کردی جاتی ہے مگر اعلیٰ افسران کو کوئی پوچھنے والا نہیں، چار چار چھہ چھہ ترقیاں دے دی جاتی ہیں۔ یہ سندھ کے 95 ہزارپولیس اہلکاروں کے حق کا معاملہ ہے، یہاں صرف کاغذپر کمیٹیان بنتی ہیں اور کام کوئی نہیں ہوتا۔ بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس امیرہانی مسلم اور جسٹس اطہرسعید شامل تھے۔

اس موقع پر چیف سیکریٹری سندھ راجا غلام عباس، سیکریٹری سروسزاقبال درانی، ایڈووکیٹ جنرل عبدالفتاح ملک، قائم مقام آئی جی فلک خورشید اور دیگر پیش ہوئے۔ چیف سیکریٹری نے عدالت کو بتایا کہ 31 مارچ 2009ء کے سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کے مطابق خلاف ضابطہ ترقیوں کا جائزہ لینے کیلیے کمیٹی کا اجلاس 27 مارچ 2012ء کو منعقد ہوا مگر کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔


عدالت کو بتایا گیا کہ افسران کو ترقی دینے کے لیے باقاعدہ کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔ عدالت نے استفسار کیا کہ اس اجلاس کو بھی 5ماہ گزر گئے مگر دوسرا اجلاس یا کوئی پیش رفت کیوں نہیں ہوئی؟چیف سیکریٹری کی جانب سے اطمینان بخش جواب نہ ملنے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آپ کے پاس خلاف ضابطہ ترقیوں کا وقت ہے مگر عدالتی حکم پر عمل درآمد کا وقت نہیں۔

بادی النظر میں جو کام ہونا چاہیے تھا وہ نہ ہوسکا اور جو نہیں ہونا چاہیے تھا وہ کام کردیا گیا۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ فوج میں کارنامے پر ترقی کے بجائے نقد انعام یا زمین دی جاتی ہے کیونکہ اگر بہادری پر کسی کی کارکردگی کو سراہنا ہے تو حکومت اپنی استطاعت کے مطابق ایسا کرے لیکن کسی دوسرے ملازم کی سنیارٹی کو نظراندازکرتے ہوئے اسے ترقی دینا وزیراعلی سمیت کسی کا اختیار نہیں۔

عدالت نے چیف سیکریٹری کو ہدایت کی کہ ایس ایس پی رائو انوار، ایس ایس پی چوہدری اسلم، ایس ایس پی فاروق اعوان، ایس پی مظہرمشوانی، ایس پی فیاض خان، ایڈیشنل ایس پی فاروق ستی اور ایس ایس پی خرم وارث سمیت 56افسران کی ترقی کی جانچ کرکے 3 دن میں رپورٹ پیش کریں اور ان کی ترقیوں کا جواز بھی بتائیں۔

عدالت کو استفسار پر بتایا گیا کہ پولیس افسر زاہدبھرگڑی کو 16 اپریل 2009ء، عبدالجبار قائم خانی کو17اپریل2009ء اور مرزا شہباز کو 15 مئی 2009ء کوخلاف ضابطہ ترقی دی گئی۔ عدالت نے آبزرو کیا کہ سندھ سول سرونٹس ایکٹ کی دفعہ 9-Aکا غلط استعمال کیا جارہا ہے اور من پسند افسران کو ترقیاں دی جا رہی ہیں۔

عدالت نے تینوں افسران کی ترقی کیلیے بتائے گئے جواز پر عدم اطمینان کا اظہارکرتے ہوئے تینوں افسران کی فوری طور پر تنزلی کا حکم دیا۔ جسٹس امیرہانی مسلم نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ایسے مختیار کار کو اینٹی کرپشن میں ڈپٹی ڈائریکٹر بنادیا گیا جہاں اس کے اپنے خلاف چار مقدمات تھے۔ عدالت نے چیف سیکریٹری کو ہدایت کی کہ جمعرات 6ستمبر کو خود پیش ہوکر وضاحت کریں۔

قبل ازیں عدالت کو بتایا گیا تھاکہ عدالت کے حکم پر آئی جی سندھ نے آئوٹ آف ٹرن ترقی پانے والے 5243افسران و اہلکاروں کی تنزلی کردی تھی جبکہ انسپکٹر سے بالا عہدے کے افسران کی تنزلی ان کے دائرہ اختیار میں نہیں، چیف سیکریٹری مجاز اتھارٹی ہیں۔
Load Next Story