سرکاری اداروں میں بد عنوانی روکنے کیلیے نیب میں انٹیلی جنس ونگ قائم
متعلقہ حکام کی نگرانی کی جائیگی،اداروں کو 5 کروڑ مالیت تک ٹینڈرزکے اجرا کے لیے نیب کومطلع کرنے کا بھی پابند کردیا گیا
متعلقہ حکام کی نگرانی کی جائیگی،اداروں کو 5 کروڑ مالیت تک ٹینڈرزکے اجرا کے لیے نیب کومطلع کرنے کا بھی پابند کردیا گیا (فوٹو فائل)
قومی وسرکاری اداروں میں بدعنوانیوں اور بے قاعدگیوں پر قابو پانے کے لیے نیب نے اپنے علیحدہ انٹیلی جنس ونگ قائم کردیے ہیں۔
جومتعلقہ حکام کی نگرانی کریں گے جبکہ پبلک سیکٹر کے اداروں کی جانب سے 5 کروڑ روپے مالیت تک کے ٹینڈرزکے اجرا کے لیے نیب کومطلع کرنے کا پابند کردیا گیا ہے۔ یہ بات قومی احتساب بیورو سندھ کے ڈائریکٹرجنرل واجد درانی نے پیرکوکورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کے ظہرانے کے موقع پر صحافیوں سے بات چیت کے دوران کہی،
انھوں نے کہا کہ نیب کو ٹینڈرز کے اجرا سے قبل معلومات ملنے کے سبب پبلک سیکٹر کے متعلقہ ادارے قوانین اور طریقہ اختیار کیے جانے اور بے قاعدگیوں کی قبل ازوقت نشاندہی ہوسکے گی،انھوں نے بتایا کہ رواں ماہ کے اختتام تک 2007-08 کے زیرالتوا15 تا20 کیسوں کے فیصلے کرلیے جائیں گے۔
جن میں کمزورکیسز ختم جبکہ درست کیسز کے چالان بناکر تحقیقات کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا،حیدرآباد اور سکھر میں بھی نیب کے دفاتر قائم کیے جارہے ہیں،نیب1.5 ارب روپے مالیت کے سیلز ٹیکس ریفنڈ کی تحقیقات کررہی ہے جس کے25 کیسز پر تیزرفتاری سے کام کیا جارہا ہے اورمستقبل میں سیلزٹیکس ریفنڈز میں بے قاعدگیوں کے خاتمے اور ریونیو بڑھانے کے لیے قومی احتساب بیورو فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے اشتراک سے ایک نئے سسٹم پر کام کررہا ہے۔
نیب کے پاس تحقیقات کے لیے مجموعی طور پر226 کیسزہیں، ارسلان افتخار کا کیس نیب کے دائرہ کار میں نہیں آتا کیونکہ یہ کیس دو افراد کے درمیان ہے، نیب کرپشن وبے قاعدگیوں کے ذریعے قومی خزانے کو پہچنے والے نقصانات کے کیسز اور عوامی مفادات ودلچسپی کے ایسے کیسز جس میں کم ازکم 25 شہری متاثر ہورہے ہوں، کی تحقیقات کرتا ہے،
انھوں نے بتایا کہ پلی بارگیننگ کی پالیسی پاکستان کے حالات کو مدنظررکھتے ہوئے متعارف کرائی گئی ہے تاکہ رضاکارانہ بنیادوں پر غبن شدہ رقم قومی خزانے میں جمع کرایا جاسکے لیکن غبن کا مرتکب فرد ملزم ضرور قراردیا جاتا ہے، پلی بارگیننگ ملکی مفاد کے خلاف نہیں کیونکہ اسی صورت میں لوٹی ہوئی دولت وصول کرنے کے بعد بھی ملزم مجرم قرار پاتا ہے۔اس موقع پرکاٹی کے سرپرست اعلیٰ ایس ایم منیر، چیئرمین احتشام الدین اورآل کراچی ایڈسٹریل الائنس کے صدر میاں زاہد حسین نے بھی خطاب کیا۔
جومتعلقہ حکام کی نگرانی کریں گے جبکہ پبلک سیکٹر کے اداروں کی جانب سے 5 کروڑ روپے مالیت تک کے ٹینڈرزکے اجرا کے لیے نیب کومطلع کرنے کا پابند کردیا گیا ہے۔ یہ بات قومی احتساب بیورو سندھ کے ڈائریکٹرجنرل واجد درانی نے پیرکوکورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کے ظہرانے کے موقع پر صحافیوں سے بات چیت کے دوران کہی،
انھوں نے کہا کہ نیب کو ٹینڈرز کے اجرا سے قبل معلومات ملنے کے سبب پبلک سیکٹر کے متعلقہ ادارے قوانین اور طریقہ اختیار کیے جانے اور بے قاعدگیوں کی قبل ازوقت نشاندہی ہوسکے گی،انھوں نے بتایا کہ رواں ماہ کے اختتام تک 2007-08 کے زیرالتوا15 تا20 کیسوں کے فیصلے کرلیے جائیں گے۔
جن میں کمزورکیسز ختم جبکہ درست کیسز کے چالان بناکر تحقیقات کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا،حیدرآباد اور سکھر میں بھی نیب کے دفاتر قائم کیے جارہے ہیں،نیب1.5 ارب روپے مالیت کے سیلز ٹیکس ریفنڈ کی تحقیقات کررہی ہے جس کے25 کیسز پر تیزرفتاری سے کام کیا جارہا ہے اورمستقبل میں سیلزٹیکس ریفنڈز میں بے قاعدگیوں کے خاتمے اور ریونیو بڑھانے کے لیے قومی احتساب بیورو فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے اشتراک سے ایک نئے سسٹم پر کام کررہا ہے۔
نیب کے پاس تحقیقات کے لیے مجموعی طور پر226 کیسزہیں، ارسلان افتخار کا کیس نیب کے دائرہ کار میں نہیں آتا کیونکہ یہ کیس دو افراد کے درمیان ہے، نیب کرپشن وبے قاعدگیوں کے ذریعے قومی خزانے کو پہچنے والے نقصانات کے کیسز اور عوامی مفادات ودلچسپی کے ایسے کیسز جس میں کم ازکم 25 شہری متاثر ہورہے ہوں، کی تحقیقات کرتا ہے،
انھوں نے بتایا کہ پلی بارگیننگ کی پالیسی پاکستان کے حالات کو مدنظررکھتے ہوئے متعارف کرائی گئی ہے تاکہ رضاکارانہ بنیادوں پر غبن شدہ رقم قومی خزانے میں جمع کرایا جاسکے لیکن غبن کا مرتکب فرد ملزم ضرور قراردیا جاتا ہے، پلی بارگیننگ ملکی مفاد کے خلاف نہیں کیونکہ اسی صورت میں لوٹی ہوئی دولت وصول کرنے کے بعد بھی ملزم مجرم قرار پاتا ہے۔اس موقع پرکاٹی کے سرپرست اعلیٰ ایس ایم منیر، چیئرمین احتشام الدین اورآل کراچی ایڈسٹریل الائنس کے صدر میاں زاہد حسین نے بھی خطاب کیا۔