سرکاری اداروں کو کرپشن سے پاک کیا جائے
اصل مسئلہ سرکاری اداروں میں مضبوط بنیادوں پر قائم رشوت، کرپشن اور تاخیری حربے استعمال کرنے کا چلن ہے۔
اصل مسئلہ سرکاری اداروں میں مضبوط بنیادوں پر قائم رشوت، کرپشن اور تاخیری حربے استعمال کرنے کا چلن ہے۔ فوٹو: فائل
ایف بی آر نے وزیراعظم کے احکامات پر قیمتی مصنوعات کی اسمگلنگ اور خزانے کو اربوں روپے کے نقصان میں ملوث اعلیٰ افسروں کے خلاف بڑی کارروائی کرتے ہوئے کسٹمز انٹیلی جنس کی ٹھوس رپورٹس کی بنیاد پر ممبر کسٹمز، 4کلکٹرز اور کئی ملازمین کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا، یہ حکام ڈیوٹی اور ٹیکسز کی ادائیگی کے بغیر غیر ملکی مصنوعات سے بھری گاڑیاں ملک میں لانے کی غیرقانونی اجازت دینے میں ملوث پائے گئے، یہ اقدام سرکاری حکام کے لیے واضح پیغام ہے کہ کسی بھی سطح پر بدعنوانی کا کوئی بھی اقدام قابل قبول نہیں ہے۔
ایف بی آر کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق ترجمان نے کہا کہ وفاقی حکومت نے تمام وزارتوں اور محکموں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے اداروں میں نچلی سطح پر کرپشن کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائیں۔
سرحدوں پر تعینات کرپٹ سرکاری افسران کے خلاف کارروائی خوش آئند ہے اس سے یقینا دیگر اداروں میں تعینات راشی افسروں اور اہلکاروں کو بھی یہ واضح پیغام جائے گا کہ کل ان کے خلاف بھی ایسی ہی کارروائی بروئے کار لائی جا سکتی ہے۔ کچھ روز پیشتر کسٹمز کے حوالے سے ٹھوس رپورٹس کی بنیاد پر غیرقانونی طور پر غیرملکی مصنوعات کو ٹیکس اور ڈیوٹی کی ادائیگی کے بغیر لانے کی اجازت دینے پر ریجنل کلکٹریٹ پشاور اور فاٹا کے5اعلیٰ آفیسران سمیت عملے کے دیگر افراد کو اپنے عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔
ایف بی آر کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق ترجمان نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا میں طورخم کسٹم اسٹیشن پر افغانی گاڑیاں سیب لے کر داخل ہوتی رہیں اور ضروری گڈز ڈیکلریشن (جی ڈی) جمع کرائے، کلیئرنس اور ڈیوٹی اور ٹیکسز ادا کیے بغیر آتی رہیں۔
بعض کیسز میں جہاں جی ڈی جمع کرائی گئیں،وہاں صرف پھلوں پرڈیوٹی اور ٹیکسز کی شرح میں رعایت کے جعلی سرٹیفکیٹ جمع کرائے گئے، اس کے علاوہ سرکاری خزانے سے اخراجات اور درآمد کنندگان کو فائدہ دینے کے لیے ڈیوٹی اور ٹیکسز کا مناسب انداز میں جائزہ نہیں لیا گیا، ان کے خلاف ایف آئی آر کا اندراج کر کے مزید تحقیقات ہو رہی ہیں۔ اس کے علاوہ بلوچستان میں کسٹمز اسٹیشنز سے افغانی پھلوں اور اعلیٰ معیار کے ایرانی بارز کی امپورٹ کی کلیئرنس کی متضاد خبریں بھی موصول ہوئی ہیں۔ ان بد انتظامیوں کی تحقیقات کی جا رہی ہیں اور یہ دونوں معاملات ایف آئی اے کے حوالے بھی کر دیے گئے ہیں ۔
موجودہ حکومت کا نعرہ ہی کرپشن کا خاتمہ ہے، تمام سرکاری اداروں کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت آشکار ہو جاتی ہے کہ کوئی بھی ادارہ کرپشن سے پاک نہیں' جائز اور معمولی کام بھی رشوت یا سفارش کے بغیر سرانجام نہیں پاتے۔ رشوت کے بغیر اپنے جائز کام پایہ تکمیل تک پہنچانے کے خواہش مند شہری مہینوں سرکاری دفاتر کے چکر لگاتے اور خوار ہوتے رہتے ہیں' سرکاری اہلکار کوئی نہ کوئی اعتراض لگا کر ان کے کام میں رکاوٹیں کھڑی کرتے چلے جاتے اور جب تک ان کی مٹھی گرم نہ کی جائے تب تک وہ کوئی فائل آگے جانے نہیں دیتے۔
موجودہ حکومت نے کرپٹ سیاستدانوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا جو یقینا خوش آئند ہے لیکن اصل مسئلہ سرکاری اداروں میں مضبوط بنیادوں پر قائم رشوت، کرپشن اور تاخیری حربے استعمال کرنے کا چلن ہے جس سے عوام کا روز مرہ واسطہ پڑتا ہے۔ جب تک سرکاری اداروں کو کرپشن اور ریڈ ٹیپ ازم سے پاک نہیں کیا جاتا عوام کے مسائل حل نہیں ہوں گے اور نہ ان کا حکومت پر اعتماد ہی قائم ہو گا۔
افغانستان اور ایران کی سرحد پر کئی دہائیوں سے بغیر ڈیوٹی ادا کیے مال کی نقل و حمل کا سلسلہ جاری و ساری ہے اور وہاں تعینات کسٹمز حکام سمیت دیگر اداروں کے اہلکار کرپشن کی ''رحمت'' سے مالی طور پر انتہائی خوشحال ہو چکے ہیں۔ اب حکومت نے وہاں تعینات کرپٹ افراد کے خلاف کارروائی کر کے صائب قدم اٹھایا ہے' جہاں افغانستان کے ساتھ سرحد پر باڑ لگا کر انسداد دہشت گردی کے علاوہ پورے نظام کو ایک سسٹم میں لایا جا رہا ہے وہاں ایران کے ساتھ سرحدی علاقوں میں بھی انھی اقدامات کی شدید ضرورت ہے۔
ایران اور افغانستان کے ساتھ ملحقہ علاقوں اور شہروں کی مارکیٹیں اسمگل شدہ غیرملکی مال سے بھری پڑی ہیں اور کوئی ان سے پرسش کرنے والا نہیں۔ حیرت انگیز امر ہے کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں اسمگل شدہ غیرملکی مال تو سرعام بکتا ہے مگر وہی مال رشوت دیے بغیر پنجاب اور سندھ میں لانے والے کو پکڑ لیا جاتا ہے۔ ایک ہی ملک میں دہرے قوانین کا نفاذ چہ معنی دارد۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسمگلنگ اور کرپشن روکنے کے لیے تمام سرکاری اداروں میں چیک اینڈ بیلنس کا نظام موثر بنایا جائے۔
ایف بی آر کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق ترجمان نے کہا کہ وفاقی حکومت نے تمام وزارتوں اور محکموں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے اداروں میں نچلی سطح پر کرپشن کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائیں۔
سرحدوں پر تعینات کرپٹ سرکاری افسران کے خلاف کارروائی خوش آئند ہے اس سے یقینا دیگر اداروں میں تعینات راشی افسروں اور اہلکاروں کو بھی یہ واضح پیغام جائے گا کہ کل ان کے خلاف بھی ایسی ہی کارروائی بروئے کار لائی جا سکتی ہے۔ کچھ روز پیشتر کسٹمز کے حوالے سے ٹھوس رپورٹس کی بنیاد پر غیرقانونی طور پر غیرملکی مصنوعات کو ٹیکس اور ڈیوٹی کی ادائیگی کے بغیر لانے کی اجازت دینے پر ریجنل کلکٹریٹ پشاور اور فاٹا کے5اعلیٰ آفیسران سمیت عملے کے دیگر افراد کو اپنے عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔
ایف بی آر کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق ترجمان نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا میں طورخم کسٹم اسٹیشن پر افغانی گاڑیاں سیب لے کر داخل ہوتی رہیں اور ضروری گڈز ڈیکلریشن (جی ڈی) جمع کرائے، کلیئرنس اور ڈیوٹی اور ٹیکسز ادا کیے بغیر آتی رہیں۔
بعض کیسز میں جہاں جی ڈی جمع کرائی گئیں،وہاں صرف پھلوں پرڈیوٹی اور ٹیکسز کی شرح میں رعایت کے جعلی سرٹیفکیٹ جمع کرائے گئے، اس کے علاوہ سرکاری خزانے سے اخراجات اور درآمد کنندگان کو فائدہ دینے کے لیے ڈیوٹی اور ٹیکسز کا مناسب انداز میں جائزہ نہیں لیا گیا، ان کے خلاف ایف آئی آر کا اندراج کر کے مزید تحقیقات ہو رہی ہیں۔ اس کے علاوہ بلوچستان میں کسٹمز اسٹیشنز سے افغانی پھلوں اور اعلیٰ معیار کے ایرانی بارز کی امپورٹ کی کلیئرنس کی متضاد خبریں بھی موصول ہوئی ہیں۔ ان بد انتظامیوں کی تحقیقات کی جا رہی ہیں اور یہ دونوں معاملات ایف آئی اے کے حوالے بھی کر دیے گئے ہیں ۔
موجودہ حکومت کا نعرہ ہی کرپشن کا خاتمہ ہے، تمام سرکاری اداروں کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت آشکار ہو جاتی ہے کہ کوئی بھی ادارہ کرپشن سے پاک نہیں' جائز اور معمولی کام بھی رشوت یا سفارش کے بغیر سرانجام نہیں پاتے۔ رشوت کے بغیر اپنے جائز کام پایہ تکمیل تک پہنچانے کے خواہش مند شہری مہینوں سرکاری دفاتر کے چکر لگاتے اور خوار ہوتے رہتے ہیں' سرکاری اہلکار کوئی نہ کوئی اعتراض لگا کر ان کے کام میں رکاوٹیں کھڑی کرتے چلے جاتے اور جب تک ان کی مٹھی گرم نہ کی جائے تب تک وہ کوئی فائل آگے جانے نہیں دیتے۔
موجودہ حکومت نے کرپٹ سیاستدانوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا جو یقینا خوش آئند ہے لیکن اصل مسئلہ سرکاری اداروں میں مضبوط بنیادوں پر قائم رشوت، کرپشن اور تاخیری حربے استعمال کرنے کا چلن ہے جس سے عوام کا روز مرہ واسطہ پڑتا ہے۔ جب تک سرکاری اداروں کو کرپشن اور ریڈ ٹیپ ازم سے پاک نہیں کیا جاتا عوام کے مسائل حل نہیں ہوں گے اور نہ ان کا حکومت پر اعتماد ہی قائم ہو گا۔
افغانستان اور ایران کی سرحد پر کئی دہائیوں سے بغیر ڈیوٹی ادا کیے مال کی نقل و حمل کا سلسلہ جاری و ساری ہے اور وہاں تعینات کسٹمز حکام سمیت دیگر اداروں کے اہلکار کرپشن کی ''رحمت'' سے مالی طور پر انتہائی خوشحال ہو چکے ہیں۔ اب حکومت نے وہاں تعینات کرپٹ افراد کے خلاف کارروائی کر کے صائب قدم اٹھایا ہے' جہاں افغانستان کے ساتھ سرحد پر باڑ لگا کر انسداد دہشت گردی کے علاوہ پورے نظام کو ایک سسٹم میں لایا جا رہا ہے وہاں ایران کے ساتھ سرحدی علاقوں میں بھی انھی اقدامات کی شدید ضرورت ہے۔
ایران اور افغانستان کے ساتھ ملحقہ علاقوں اور شہروں کی مارکیٹیں اسمگل شدہ غیرملکی مال سے بھری پڑی ہیں اور کوئی ان سے پرسش کرنے والا نہیں۔ حیرت انگیز امر ہے کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں اسمگل شدہ غیرملکی مال تو سرعام بکتا ہے مگر وہی مال رشوت دیے بغیر پنجاب اور سندھ میں لانے والے کو پکڑ لیا جاتا ہے۔ ایک ہی ملک میں دہرے قوانین کا نفاذ چہ معنی دارد۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسمگلنگ اور کرپشن روکنے کے لیے تمام سرکاری اداروں میں چیک اینڈ بیلنس کا نظام موثر بنایا جائے۔