سیاسی جماعتوں کے مالی گوشواروں کا فرانزک آڈٹ کرایا جائے

مزمل سہروردی  بدھ 12 فروری 2020
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

سیاسی جماعتوں کے اثاثوں کی تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب بوگس کارروائی ہے۔ پاکستان میں الیکشن کمیشن اتنا کمزور ہے کہ اس کے پاس سیاسی جماعتوں کو قانون کے دائرہ اختیار میں رکھنے کا کوئی اختیار نہیں ۔ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ سیاسی جماعتوں میں چندہ لینے کا بھی کوئی نظام نہیں ہے۔

سیاسی جماعتیں اپنی سیاسی سرگرمیوں کا کوئی واضع اور شفاف حساب نہیں رکھتی ہیں۔ زیادہ تر چندہ بغیر رسیدوں کے وصول کیا جاتا ہے۔جب تک ہم سیاسی جماعتوں میں مکمل جمہوریت قائم نہیں کریں گے تب تک ملک میں بھی مکمل جمہوریت قائم نہیں ہو سکتی۔ لیکن الیکشن کمیشن کے پاس ایسا کوئی میکنزم نہیں ہے ۔

سیاسی جماعتوں میں ٹکٹوں کی تقسیم کا بھی کوئی باقاعدہ نظام نہیں ہے۔ ٹکٹوں کی تقسیم بھی آمر کی مرضی کی مرہون منت بن گئی ہیں۔ ٹکٹوں کی تقسیم میں مقامی ووٹر اور سپورٹرز کی کوئی رائے شامل نہیں ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنی مرضی کے امیدوار مسلط کرتی ہیں۔ اور پھر ووٹر کو مجبو رکرتی ہیں کہ ان کے امیدوار کو ووٹ دیا جائے۔ ایک رائے بنائی گئی ہے کہ امیدوار کو مت دیکھا جائے بلکہ پارٹی کو ووٹ دیا جائے۔ جس کی وجہ سے سیاسی جماعتوں میں سیاسی کارکن کے لیے اوپر آنے کے راستے بند ہو گئے ہیں۔ پسند ناپسند کا راج ہو گیا ہے۔

اسی طرح سیاسی جماعتوں میں چندہ مانگنے اور جمع کرنے کا بھی کوئی نظم نہیں ہے۔ آج ایک جلسہ کرنے کے لیے لاکھوں نہیں کڑوروں روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔ لیکن سیاسی جماعتیں ان اخراجات کو اپنے حساب کتاب میں نہیں دکھاتی ہیں۔

آپ اندازہ لگائیں گزشتہ سال بلاول بھٹو نے ایک نہیں متعدد جلسہ کیے ہیں۔ بی بی کی برسی منائی گئی۔ پنجاب میں جلسے ہوئے۔ کے پی میں جلسہ ہوئے۔ سندھ کے ہر ضلع میں جلسے ہوئے۔ ضمنی انتخابات میں پی پی پی نے بھر پور حصہ لیا۔ لیکن پھر بھی پی پی پی نے سال بھر میں صرف دو کروڑ روپے خرچ کیے ہیں۔ دو کروڑ میں تو تھر کا ایک جلسہ نہیں ہوا ہوگا۔ لیکن الیکشن کمیشن میں جمع اخراجات یہی ظاہر کر رہے ہیں کہ بلاول بھٹو کی جماعت نے سال بھر میں صرف دو کروڑ کے اخراجات کیے ہیں۔

اسی طرح حکمران جماعت نے خسارے کی بیلنس شیٹ جمع کرائی ہے۔ کون مان سکتا ہے کہ تحریک انصاف کو گزشتہ سال کے دوران پارٹی فنڈنگ میں کمی ہوئی ہے۔ کون مان سکتا ہے کہ تحریک انصاف نے اپنی آمدن سے زائد اخراجات کر دئے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ حکمران جماعت کو چندہ دینے والوں کی تو لائنیں لگی ہوتی ہیں۔ پھر تحریک انصاف کے چندے میں کمی کیسے ہو گئی؟ تحریک انصاف نے اپنا یوم تاسیس بڑی شان و شوکت سے منایا۔ اس کے اخراجات ہی بہت زیادہ ہوئے تھے۔ لیکن یہ نہیں مانا جا سکتا کہ تحریک انصاف کی آمدن میں کمی ہوئی ہے۔ یقینا اس سال تحریک انصاف نے طریقہ کار تبدیل کیا ہے۔

پاکستان میں سیاستدان اپنے سیاسی اخرجات کے لیے بھی چندہ لیتے ہیں۔ وہ اپنے دوستوں اور کاروباری دوستوں سے چندہ لیتے ہیں۔ لیکن اس کی کوئی رسید جا ری نہیں کی جاتی۔ اس ضمن میں کوئی باقاعدہ قانون اور طریقہ کار موجود نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن نے انتخابی اخراجات کی مد میں حد اتنی کم رکھی ہوئی ہے کہ امیدوار جعلی حساب بنا کر الیکشن کمیشن میں پیش کرتے ہیں۔ آج کیا چند لاکھ میں انتخابی مہم چلانا ممکن ہے۔ سب جانتے ہیں کہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑنے کے لیے ایک نہیں دو نہیں کئی کروڑوں روپے درکار ہوتے ہیں۔ چند لاکھ میں تو ایک کارنر میٹنگ نہیں ہوتی۔ پولنگ والے دن کے اخراجات کروڑو ں روپے تک پہنچ جاتے ہیں۔ لیکن سب چھپایا جاتا ہے۔ الیکشن کمیشن کو دھوکا دیا جاتا ہے۔

الیکشن کمیشن بھی جانتا ہے اسے دھوکا دیا جاتا ہے۔ لیکن خاموشی ہے۔نئے چیف الیکشن کمشنر آگئے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کو فعال بنانے کے لیے اقدامات کریں گے۔ الیکشن کمیشن کا کام صرف انتخابات کا انعقاد ہی نہیں ہے۔ صرف پولنگ کرانا الیکشن کمیشن کا کام نہیں ہے۔الیکشن کمیشن پاکستان میں جمہوری نظام کا ریگولیٹر ادارہ ہے۔ اس تناظر میں سیاسی جماعتوں کو ریگولیٹ کرنا بھی الیکشن کمیشن کا کام ہے۔

میری چیف الیکشن کمشنر سے درخواست ہے کہ سیاسی جماعتوں میں آمریت ختم کرنے کے لیے ہنگامی اقدمات کریں۔ سیاسی کارکن کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی جماعتوں میں شخصی آمریت کے بجائے فیصلہ سازی کے اداروں کو مضبوط کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کو اقدامات کرنے چاہیے۔ سیاسی جماعتوں میں جعلی انتخابات کو روکنا ہوگا۔ اور حقیقی انتخابات کی راہ ہموار کرنی ہوگی۔ تب ہی پاکستان میں جمہوریت مستحکم ہو سکتی ہے۔ میری رائے میں اس ضمن میں الیکشن کمیشن کو فعال کردار ادا کرنے کے لیے عدلیہ کی مدد حاصل کرنی چاہیے۔

سیاسی جماعتوں کا خاندانوں کی ملکیت میں چلے جانا ملک کے مفاد میں نہیں۔ یہ پاکستان کے ساتھ دشمنی ہے۔ اس لیے الیکشن کمیشن کو پاکستان کے مفاد میں اپنی ترجیحات بدلنی چاہیے۔ سیاسی جماعتوں نے اپنے اثاثوں اور اخراجات کی جو تفصیلات جمع کرائی ہیں۔ ان کی ایک سال کی سرگرمیوں کے تناظر میں ان اخراجات اور اثاثوں کا فرانزک آڈٹ کرایا جائے تا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے۔ ایک دفعہ یہ ہو گیا تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ الیکشن کمیشن کو خود کو منوانا ہوگااور اس کا یہی ایک راستہ ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔