- عدالتی امور میں مداخلت مسترد، معاملہ قومی سلامتی کا ہے اسے بڑھایا نہ جائے، وفاقی وزرا
- راولپنڈی میں معصوم بچیوں کے ساتھ مبینہ زیادتی میں ملوث دو ملزمان گرفتار
- تیسرا ٹی ٹوئنٹی: آئرلینڈ کی پاکستان کیخلاف بیٹنگ جاری
- دکی میں کوئلے کی کان پر دہشت گردوں کے حملے میں چار افراد زخمی
- بنگلادیش نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کیلئے اسکواڈ کا اعلان کردیا
- 100 دنوں میں 200 فلائٹس کے مسافر بیگز سے سونا چوری کرنے والا ملزم گرفتار
- سنی اتحاد کونسل نے چیئرمین پی اے سی کیلئے شیخ وقاص اکرم کا نام اسپیکر کو بھیج دیا
- آزاد کشمیر میں احتجاج کے دوران انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس ہے، وزیراعظم
- جنوبی وزیرستان کے گھر میں ہونے والا دھماکا ڈرون حملہ تھا، رکن اسمبلی کا دعویٰ
- دنیا کا گرم ہوتا موسم، مگرناشپاتی کے لیے سنگین خطرہ
- سائن بورڈ کے اندر سے 1 سال سے رہائش پذیر خاتون برآمد
- انٹرنیٹ اور انسانی صحت کے درمیان مثبت تعلق کا انکشاف
- ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں اضافے کا سلسلہ جاری
- بنگلادیشی لڑاکا طیارہ فلمی کرتب دکھانے کی کوشش میں تباہ؛ ویڈیو وائرل
- پنجاب میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو مثالی بنائیں گے، مریم اورنگزیب
- آڈیو لیکس کیس میں مجھے پیغام دیا گیا پیچھے ہٹ جاؤ، جسٹس بابر ستار
- 190 ملین پاؤنڈ کرپشن کیس میں عمران خان کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ
- غزہ میں اسرائیل کا اقوام متحدہ کی گاڑی پر حملہ؛ 2 غیر ملکی اہلکار ہلاک
- معروف سائنسدان سلیم الزماں صدیقی کے قائم کردہ ریسرچ سینٹر میں تحقیقی امور متاثر
- ورلڈ کپ میں شاہین، بابر کا ہی نہیں سب کا کردار اہم ہوگا، سی ای او لاہور قلندرز
کیا پاکستان فائیو جی ٹیکنالوجی کے لیے تیار ہے؟
اسلام آباد: فائیو جی (5G) کی صورت میں نئی ٹیلی کمیونی کیشن ٹیکنالوجی مواصلات کی دنیا میں انقلاب برپا کرنے کو ہے۔
پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی ( پی ٹی اے) نے آزمائشی بنیادوں پرموبائل آپریٹرز کو اسپیکٹرم فراہم کر کے عوام کو مستقبل کی اس ٹیکنالوجی کو ’ چھونے اور محسوس ‘ کرنے کا موقع دے کر ایک اہم قدم اٹھایا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم فائیو جی کے لیے تیار ہیں؟ دنیا بھر میں فائیو جی کے حوالے سے پہلے ہی تیاریاں جاری ہیں۔ فائیوجی کے آغاز کیلیے 5 بنیادی ’ اجزا‘ درکار ہوتے ہیں: اسپیکٹرم، ریڈیو بیس اسٹیشن، آپٹک فائبر کیبلز، یوزر ڈیوائسز اور یوز کیسز۔ فائیوجی کیلیے فور جی کے مقابلے میں بڑا فریکوئنسی اسپیکٹرم درکار ہوتا ہے۔ فائیوجی کیلیے بڑے بڑے ٹاورز درکار نہیں ہوتے۔ اس کے بیس اسٹیشن بجلی کے کھمبوں، عمارتوں وغیرہ پر نصب کیے جاسکتے ہیں۔
ان کیلیے بجلی کی بہت کم مقدار درکار ہتی ہے۔ اسی طرح فائیو جی کیلیے فائبرآپٹک کیبلز کی بڑی مقدار درکار ہوتی۔ پاکستان میں فریکوئنسی اسپیکٹرم دیگر قابل موازنہ ممالک کے مقابلے میں کم ہے۔ درحقیقت یہ تو اچھی فور جی سروس کیلیے بھی بہت زیادہ موزوں نہیں ہے۔ اسی طرح پاکستان میں آپٹک فائبر کی دستیابی بھی سب سے کم ہے۔
10 فیصد سے بھی کم ٹاور فائبر سے منسلک ہیں۔ علاوہ ازیں فائبر آپٹک بچھانے کے لیے اجازت کا حصول بھی جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ اس کے ساتھ اس پر بے انتہا لاگت آتی ہے۔ اسی طرح ریڈیو بیس اسٹیشن سے بھی متعدد مشکلات جڑی ہوئی ہیں۔ فائیو جی آپریشن کیلیے ضروری ہے کہ ملائشیا کی طرح تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک 5 سالہ رولنگ اسپیکٹرم پلان شائع کرنے کی ضرورت ہے جس میں اسپیکٹرم شیئرنگ اور ٹریڈنگ اور نئے موبائل براڈبینڈ لائسنسنگ فریم ورک بھی شامل ہوں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔