نوابزادہ نصر اللہ کی سیاست اور ایئر مارشلر اصغر خان
اصغرخان کی متحرک اور مقبول شخصیت کو نواب زادہ نصراللہ نے کمال منصوبہ بندی سے پاکستان جمہوری پارٹی میں کارنر کر دی۔
اصغر خان آخرکار خاموش ہو کر پی ڈی پی اور سیاست سے کنارہ کش ہو گئے۔ فوٹو : فائل
صدر پاکستان اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل آغا محمد یحییٰ خان نے پی سی او کے تحت آئین ساز اسمبلی کے انتخابات کا اعلان اور ملک میں عائد سیاسی سرگرمیوں پر سے پابندی اٹھا لی تو نواب زادہ نصراللہ خان فوری طور پر سرگرم ہوئے۔
انہوں نے اپنی 8 نکاتی عوامی لیگ، چودھری محمد علی اور مولوی فرید کی نظام اسلام پارٹی، نور الامین کی اور ائیرمارشل (ر) اصغر خان کی جسٹس پارٹی کا انضمام کرکے پاکستان جمہوری پارٹی کی بنیاد رکھی، جس کے صدر نور الامین اور مغربی پاکستان کے سربراہ وہ خود مقرر ہوئے۔
کہا جاتا ہے کہ اصغر خان کی متحرک اور مقبول شخصیت کو نواب زادہ نصراللہ نے کمال منصوبہ بندی سے اس نئی پارٹی میں کارنر کر دیا، جس کے نتیجے میں اصغر خان آخرکار خاموش ہو کر پی ڈی پی اور سیاست سے کنارہ کش ہو گئے۔ اُس وقت مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن اور مغربی پاکستان خصوصاً پنجاب میں ذوالفقار علی بھٹو کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔
چنانچہ نواب زادہ نصراللہ نے انتخابات کا پہلا چار جماعتی اتحاد قائم کیا، جس کے تحت جماعت اسلامی، پی ڈی بی، مرکزی جمعیت اہل حدیث اور حزب الاحناف نے ایک دوسرے کے خلاف امیدوار کھڑے نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ چونکہ ان جماعتوں کا زیادہ اثر مغربی پاکستان ہی میں تھا اس لیے اسے بھٹو مخالف پہلا سیاسی اتحاد کہا گیا۔ چار جماعتوں کے ادغام کی طرح چار جماعتی انتخابی ایڈجسٹمنٹ کا تجربہ بھی زیادہ خوشگوار نہ رہا۔
کچھ عرصہ بعد ہی ائیر مارشل (ر) اصغر خان دوبارہ سیاست میں آ ئے اور انہوں نے ایک نئی سیاسی جماعت تحریک استقلال قائم کر دی۔ اس موقع پر ایک صحافی نے اصغر خان سے سوال کیا کہ نوابزادہ نصراللہ اپنی سیاست سے آپ کی نئی سیاسی جماعت اور آپ کی شخصی قیادت کے ابھرنے میں پھر کوئی رکاوٹ نہ پیدا کر دیں، آپ نے اس کا توڑ کیا سوچا ہے؟ اصغر خان نے اس کے جواب میں کہا کہ نوابزادہ نصراللہ کی سیاست کیا ہے؟ 80 فیصد سازشیں، 15 فیصد شاعری اور 5 فیصد حقے کی گڑگڑاہٹ۔ ظاہر ہے نوابزادہ نصراللہ کو یہ بات پسند نہ آئی۔
چند دن بعد ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے ایک کرم فرما دوست نے ایک نئی سیاسی جماعت بنائی ہے اور اُس کے نام میں استقلال کا لفظ شامل کیا ہے، یقینا سیاست میں مستقل مزاجی اور استقلال بہت اہم ہوتا ہے لیکن ہمارے اس دوست میں استقلال کے سوا سب کچھ ہے۔ اس کے بعد انہوں نے مزے لے لے کر یہ واقعہ بھی سنایا کہ ایک بار اکبر الٰہ آبادی دہلی آئے تو شہر کی مشہور مغنیہ گوہر جہاں اُن کے پاس حاضر ہوئی اور عرض کیا حضرت آپ سب لوگوں پر فی البدیہہ اشعار کہتے ہیں ایک شعر اس کنیز کے لیے بھی ارشاد فرما دیجئے، چنانچہ اکبر الٰہ آبادی نے یہ شعر کہہ دیا:
کون خوش بخت ہے اس شہر میں گوہر کے سوا
سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے شوہر کے سوا
یہ شعر پڑھ کر نواب زادہ نصراللہ نے اپنے مخصوص انداز میں کہا کہ جناب ہمارے ان دوست کو بھی اللہ نے استقلال کے سوا سب کچھ دے رکھا ہے۔
انہوں نے اپنی 8 نکاتی عوامی لیگ، چودھری محمد علی اور مولوی فرید کی نظام اسلام پارٹی، نور الامین کی اور ائیرمارشل (ر) اصغر خان کی جسٹس پارٹی کا انضمام کرکے پاکستان جمہوری پارٹی کی بنیاد رکھی، جس کے صدر نور الامین اور مغربی پاکستان کے سربراہ وہ خود مقرر ہوئے۔
کہا جاتا ہے کہ اصغر خان کی متحرک اور مقبول شخصیت کو نواب زادہ نصراللہ نے کمال منصوبہ بندی سے اس نئی پارٹی میں کارنر کر دیا، جس کے نتیجے میں اصغر خان آخرکار خاموش ہو کر پی ڈی پی اور سیاست سے کنارہ کش ہو گئے۔ اُس وقت مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن اور مغربی پاکستان خصوصاً پنجاب میں ذوالفقار علی بھٹو کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔
چنانچہ نواب زادہ نصراللہ نے انتخابات کا پہلا چار جماعتی اتحاد قائم کیا، جس کے تحت جماعت اسلامی، پی ڈی بی، مرکزی جمعیت اہل حدیث اور حزب الاحناف نے ایک دوسرے کے خلاف امیدوار کھڑے نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ چونکہ ان جماعتوں کا زیادہ اثر مغربی پاکستان ہی میں تھا اس لیے اسے بھٹو مخالف پہلا سیاسی اتحاد کہا گیا۔ چار جماعتوں کے ادغام کی طرح چار جماعتی انتخابی ایڈجسٹمنٹ کا تجربہ بھی زیادہ خوشگوار نہ رہا۔
کچھ عرصہ بعد ہی ائیر مارشل (ر) اصغر خان دوبارہ سیاست میں آ ئے اور انہوں نے ایک نئی سیاسی جماعت تحریک استقلال قائم کر دی۔ اس موقع پر ایک صحافی نے اصغر خان سے سوال کیا کہ نوابزادہ نصراللہ اپنی سیاست سے آپ کی نئی سیاسی جماعت اور آپ کی شخصی قیادت کے ابھرنے میں پھر کوئی رکاوٹ نہ پیدا کر دیں، آپ نے اس کا توڑ کیا سوچا ہے؟ اصغر خان نے اس کے جواب میں کہا کہ نوابزادہ نصراللہ کی سیاست کیا ہے؟ 80 فیصد سازشیں، 15 فیصد شاعری اور 5 فیصد حقے کی گڑگڑاہٹ۔ ظاہر ہے نوابزادہ نصراللہ کو یہ بات پسند نہ آئی۔
چند دن بعد ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے ایک کرم فرما دوست نے ایک نئی سیاسی جماعت بنائی ہے اور اُس کے نام میں استقلال کا لفظ شامل کیا ہے، یقینا سیاست میں مستقل مزاجی اور استقلال بہت اہم ہوتا ہے لیکن ہمارے اس دوست میں استقلال کے سوا سب کچھ ہے۔ اس کے بعد انہوں نے مزے لے لے کر یہ واقعہ بھی سنایا کہ ایک بار اکبر الٰہ آبادی دہلی آئے تو شہر کی مشہور مغنیہ گوہر جہاں اُن کے پاس حاضر ہوئی اور عرض کیا حضرت آپ سب لوگوں پر فی البدیہہ اشعار کہتے ہیں ایک شعر اس کنیز کے لیے بھی ارشاد فرما دیجئے، چنانچہ اکبر الٰہ آبادی نے یہ شعر کہہ دیا:
کون خوش بخت ہے اس شہر میں گوہر کے سوا
سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے شوہر کے سوا
یہ شعر پڑھ کر نواب زادہ نصراللہ نے اپنے مخصوص انداز میں کہا کہ جناب ہمارے ان دوست کو بھی اللہ نے استقلال کے سوا سب کچھ دے رکھا ہے۔