کورونا وائرس: حقائق اور خطرات

محمد شیراز احسن  بدھ 18 مارچ 2020
پاکستانیوں کو اس عالمی وبا کی شدت اور خطرے کا مکمل ادراک کرنا چاہیے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پاکستانیوں کو اس عالمی وبا کی شدت اور خطرے کا مکمل ادراک کرنا چاہیے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

طبی ماہرین کے مطابق نزلہ، زکام، بخار، کھانسی اور سانس کی تکلیف کورونا وائرس کی عام نشانیاں ہیں۔ لیکن یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مندرجہ بالا تمام علامات کا کسی شخص میں ظاہر ہونا موسمی اثرات کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے۔ کورونا وائرس بالخصوص ان لوگوں کےلیے باعث تشویش ہے جن کو خشک کھانسی، سانس کی تکلیف اور تیز بخار ہو اور جنہوں نے گزشتہ چودہ دنوں میں چین، ایران، سعودی عرب یا اٹلی کا سفر کیا ہو، یا ان ملکوں سے واپس آنے والے لوگوں سے ملاقات کی ہو۔

کورونا وائرس ایک متعدی مرض ہے جو ایک سے دوسرے شخص میں باآسانی منتقل ہوسکتا ہے۔ یہ مرض نمونیا کی طرح پھیپھڑوں پر اثر انداز ہوتا ہے اور سانس کی شدید جان لیوا تکلیف کا باعث بنتا ہے۔ ابھی تک اس مرض کی کوئی ویکسین ایجاد نہیں ہوسکی۔ اس مرض سے بچنے کا واحد حل احتیاط ہے، جس میں بار بار اپنے ہاتھوں کو دھونا، ہجوم والی جگہوں پر جانے سے اجتناب کرنا اور متاثرہ شخص کو باقی لوگوں سے علیحدہ کردینا ازحد ضروری ہے۔

کورونا وائرس کا آغاز چین کے شہر وہان سے نومبر 2019 کے وسط میں ہوا، لیکن عالمی ادارہ صحت کو دسمبر کے اوئل میں اس وبائی مرض کے بارے میں اطلاع دی گئی۔ لی وین لیانگ نامی ماہر امراض چشم وہ پہلا آدمی تھا جس نے اپنے ہم منصبوں کو اس بیماری کے بارے میں آگاہ کیا تھا اور جنوری کے وسط میں اسی بیماری کا شکار ہوکر اس دار فانی سے رخصت ہوگیا۔ سائنسدانوں کے شبہے کے مطابق یہ مرض پینگولین نامی پرندے کی وجہ سے پھیلا۔ عالمی ادارہ صحت نے 31 جنوری کو اس وبا کو عالمی خطرہ اور 11 مارچ کو اسے عالمی وبا قرار دیا۔ آخری اطلاع آنے تک یہ وبا 145 ممالک تک پھیل چکی ہے۔

 

مارچ 2020 کے دوسرے ہفتے تک اس وبا سے دنیا بھر میں ایک لاکھ چھیاسی ہزار افراد متاثر ہوچکے ہیں، جبکہ مرنے والوں کی تعداد چھ ہزار چار سو چالیس ہے۔ اب تک اٹھہتر ہزار لو گ اس سے صحت یاب بھی ہوچکے ہیں۔ کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے 48 فیصد افراد کا تعلق چین، اٹلی اور ایران سے ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ایران اور اٹلی میں گزشہ ہفتے کے دوران اس وبا سے متاثرہ افراد کی تعداد میں 500 گنا اضافہ ہوا۔ جبکہ چین نے اس بیماری پر اب خاطر خواہ حد تک قابو پالیا ہے۔ اگرچہ جنوری کے آخر سے وسط فروری تک چین میں اس وبا سے متاثرین کی تعداد تقریباً ستر ہزار تھی، مگر اگلے تین ہفتوں کے دوران اس رفتار میں بتدریج کمی ہوئی اور مارچ کے وسط تک چین نے اس وبا سے نمٹنے کےلیے بنائے گئے تمام 14 عارضی اسپتال بند کردیے۔


ایک جغرافیائی تجزیے کے مطابق فروری کے وسط تک یہ وبا چین تک محدود تھی، جبکہ مارچ کے وسط میں چین کے بعد یورپ اب اس وبا کا مرکز بن چکا ہے۔ اب تک اٹلی میں 24500، فرانس میں 4500، اسپین میں 7800 اور جرمنی میں 5800 کے قریب لوگ متاثر ہوچکے ہیں۔

اس وبا کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اٹلی میں 12 اور 13 مارچ کے درمیان ایک ہی دن میں 439 لوگوں کی موت واقع ہوئی، جبکہ ایران میں اس دوران 85 اور چین صرف 8 افراد لقمہ اجل بنے۔ اس وبا سے متاثر ہونے والے 94 فیصد لوگ صحت یاب ہوجاتے ہیں۔ جبکہ اب تک مرنے والوں میں سے 50 فیصد کا تعلق چین، 28 فیصد کا تعلق اٹلی اور 11 فیصد ایران سے تعلق رکھتے تھے۔ مندرجہ بالا شدید متاثرہ علاقوں کا اوسط درجہ حرارت جنوری-فروری میں منفی 5 ڈگری ہوتا ہے، جس میں مارچ کے دوران بتدریج بہتری رونما ہوتی ہے۔ ایک شنید یہ بھی ہے کہ گرمی کے بڑھنے کے ساتھ اس وبا کا زور ٹوٹ جائے گا۔

 

جہاں اس وبا نے دنیا بھر میں ایک شدید خوف و ہراس کا سماں پیدا کیا ہے، وہیں ماحولیات پر اس کا ایک مثبت اثر بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ نائٹروجن آکسائیڈ ہوا میں موجود ایک زہریلی گیس ہے، جو کہ گاڑیوں اور فیکٹریوں کے دھوئیں کی وجہ سے ہوا میں جمع ہوکر انسانوں اور ماحولیات پر برے اثرات مرتب کرتی ہے۔ امریکی خلائی ادارے ناسا اور یورپی خلائی ادارے ایسا کی ایک رپورٹ کے مطابق چین اور اٹلی میں نائٹروجن آکسائیڈ کی ہوا میں ڈرامائی انداز میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کمی کا بڑا سبب لاکھوں افراد کا مختلف شہروں میں محصور ہونا اور اس کے نتیجے میں کاروبار اور فیکٹریوں کا پہیہ جام ہونا ہے۔

 

کورونا وائرس سے عالمی سطح پر اقتصادی اور تعلیمی سرگرمیوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ تیل کی بین الاقوامی قیمتوں میں تیس فیصد سے بھی زیادہ تنزلی دیکھنے میں آئی۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں 1400 درجے جبکہ برطانوی اسٹاک ایکسچینج میں 10 فیصد تنزلی دیکھنے میں آئی۔ دنیا بھر میں تقریبا تمام اسکول، کالجز اور یونیورسٹیاں اس وبا کے خطرے کے باعث بند کردی گئی ہیں اور تمام امتحانات کو منسوخ کردیا گیا ہے۔ دنیا کے بیشتر ملکوں نے ویزوں کے اجرا اور سفر پر پابندی عائد کردی ہے۔ مذہبی رسومات، شادی بیاہ اور دیگر سماجی سرگرمیوں حتیٰ کہ مصافحہ اور معانقہ کرنے پر بھی قدغن لگادی گئی ہے۔

آخری اطلاع آنے تک اگرچہ پاکستان میں ابھی صرف 189 لوگوں میں اس مرض کی تصدیق ہوئی ہے، لیکن یہ ایک متعدی بیماری ہے جو کہ صرف چند دنوں میں ہزاروں لوگوں کو متاثر کرسکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام پاکستانیوں کو اس عالمی وبا کی شدت اور خطرے کا مکمل ادراک کرنا چاہیے اور اس سے متعلق تمام ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کرنا چاہئیں۔ پاکستان نے چند دن قبل ایک اعلیٰ سطح کے غیر معمولی اجلاس میں اس عالمی وبا سے بچاؤ کےلیے اہم فیصلے کیے ہیں۔ پاکستانی قوم کو ان فیصلوں کی پابندی کرنی چاہیے تاکہ موذی وبا سے محفوظ رہا جاسکے۔ حکومت وقت کو چاہیے کہ اس ممکنہ خطرے سے نمٹنے کےلیے ضروری وسائل بروئے کار لائے اور لوگوں کو ہر ممکنہ سہولت فراہم کرے۔

(نوٹ: بلاگ کی تیاری میں ایزری اور جان ہاپکن کورونا وائرس ریسورس سینٹر سے مدد لی گئی ہے)

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد شیراز احسن

محمد شیراز احسن

بلاگر انسٹیٹیوٹ آف جی آئی ایس، نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی میں پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں۔ وہ رائل جیوگرافک سوسائٹی لندن اور سروے آف پاکستان کے ممبر ہونے کے ساتھ جز وقتی استاد اور تکنیکی معاون کے طور پر خدمات سر انجام دیتے ہیں۔ آپ انہیں فیس بک آئی ڈی @sherazahsan92 پر فالو کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔