جہاں ہر گھر میں مگرمچھ ہیں

تحریم قاضی  اتوار 29 مارچ 2020
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

براعظم افریقہ میں بہنے والا دریائے نیل جہاں دنیا کے طویل ترین دریاؤں میں اپنی منفرد شہرت رکھتا ہے، وہیں یہ دریا مصر کے معاشی و تہذیبی حوالے سے ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی دریائے نیل کے وسیع و عریض احاطے پر پھیلے علاقے سے احرام مصر کی تعمیر کا سامان کشتیوں پر لاد کر لایا جاتا تھا۔ چار ہزار سال قبل مسیح میں صحرائے اعظم کی وسعت گیری و خشک سالی کے باعث دریائے نیل کی جانب ہجرت کرنے والے مصری آثار قدیمہ اس عظیم تہذیب کا پیشہ خیمہ بنے، جو آج بھی دریائے نیل کے کنارے ملتے ہیں۔

6,695 کلو میٹر کا سفر طے کرتے ہوئے بحیرہ روم میں گرنے سے پہلے یہ سینکڑوں دیہاتوں کو سیراب کرتا ہے۔ عالمی سطح پردریائے نیل کی ایک وجہ شہرت اس کے نیلگوں پانی میں پائے جانے والے مگرمچھ ہیں جوکہ ہزاروں سالوں سے اس دریا کا حصہ ہیں۔ دریائے نیل کے کنارے، روایتی نیلے اور سفید گنبدوں والے گھروں پر مشتمل ایک گاؤں ایسا بھی ہے جسے دیکھ کر لوگ حیران رہ جاتے ہیں کیونکہ وہاں ہر گھر میں مگر مچھ پائے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہر گھر کے دروازے پر حنوط شدہ مگرمچھ ملتے ہیں۔ گرب سہیل نامی گاؤں اسوان ڈیم کی دوسری جانب دریا کے پار آباد ہے۔ اس گاؤں تک پہنچنے کے دو راستے ہیں براستہ زمین یا براستہ آب (دریا)۔ اگر گرب سہیل پہنچنے کے لیے بس کے راستے کو اپنایا جائے تو ہ عمارت اور گھر کے باہر”Crocodile House” کندہ ملے گا اور حنوط شدہ یا پینٹ شدہ مگرمچھ بھی۔

یہ گاؤں دراصل نیوبیا کی تہذیب کا مرکز ہے جوکہ مختلف رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو جدید مصر سے منفرد کرتا ہے۔ نیوبیا کے باشندوں کے گھروں کے باہر اور اندر مگر مچھ کا ہونا ایک ثقافتی روایت ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ مگر مچھ کو رکھنا یا حنوط شدہ مگر مچھ کو دروازوں پر ٹانگنا ہی ضروری نہیں بلکہ یہ جتنا پرانا ہوگا اتنا ہی اس خاندان کیلئے باعث فخر ہوگا۔

گھر میں مگر مچھ پالنا جرأت و شجاعت کی علامت تصور کیا جاتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ مگر مچھوں کے شکار، ان کی لاش کو محفوظ کرنے اور دروازوں کے اوپر ٹنگانے سے اور بھی کئی معنوں کو جوڑا جاتا ہے۔ جیسے نظر بد سے بچانے کا طریقہ، گھر کے مالک کی ہمت و استطاعت میں بڑھوتری اور دوسرے مگرمچھوں کو گھر سے دور بھگانے کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے۔ وہاں صرف مگرمچھ ہی ایسے جانور نہیں ہیں جنہیں گھروں کی زینت بنایا جاتا ہو بلکہ بڑے پہاڑی کوؤں کو مار کر ان کی لاشوں کو چھت پر لٹکایا جاتا ہے، تاکہ دوسرے بڑے کوے اور پرندے وہاں سے دور رہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پہاڑی کوے، چوزوں، مرغی کے انڈوں، کبوتروں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ نیوبیا تہذیب کے افراد بچھو کا شکار کرکے اسے دیواروں پر لٹکاتے ہیں تاکہ وہ ان کے گھروں میں آنے والے دوسرے بچوؤں کے لئے نشانِ عبرت ثابت ہوں۔

مگر مچھوں کو گھروں میں پالنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ مگر مچھ ان کی آمدنی کا ذریعہ ثابت ہوتے ہیں۔ اب یہ بات باعث حیرانی ہے۔ بھلا ان خطرناک مگر مچھوں کو پال کر کوئی پیسے کس طرح کماسکتا ہے۔ تو گرب سہیل نامی اس گاؤں کے باسی وہاں آنے والے سیاحوں کے ذریعے پیسے کماتے ہیں جن کے لیے گھروں میں افراد کے ساتھ بسنے والے مگر مچھ اور گاؤں کے باسیوں کی تہذیب باعث کشش ہوتی ہے۔ سیاح وہاں آکر اپنا زیادہ وقت لوگوں سے ان کی تہذیب کے متعلق سوالات کرتے ہوئے گزارتے ہیں اور ان میں سے ایک بڑی تعداد گھروں میں رکھے مگر مچھوں کو جاننے کے علاوہ انہیں ہاتھوں میں لے کر تصویریں بنوانے میں دلچسپی لیتی ہے۔

سیاحوں کو اس حوالے سے تفصیلات فراہم کرنے کے عوض وہ پیسے لیتے ہیں، اور گرب سہیل کے لوگوں کی آمدن کا بڑا ذریعہ یہی ہے۔ لوگوں نے مگر مچھوں کے لیے گھروں میں ٹیرارم (Terrarium) بنا رکھے ہیں اور جب وہ بہت زیادہ بڑے ہوجاتے ہیں تو انہیں دریائے نیل کے جنگلی حصے میں اسوان ڈیم کے شمالی جانب چھوڑ دیا جاتا ہے کیونکہ جنوبی حصہ میں مگر مچھوں کو چھوڑنا غیر قانونی ہے۔

مگرمچھوں کو دریا تک باحفاظت چھوڑنے اور خود کوخطرے سے بچانے کے لیے وہاں لوگ ان کے جبڑے پر مضبوطی سے کپڑا باندھ دیتے ہیں۔ اور دوسرا کپڑا ان کی دم اور جسم کے گرد لپیٹ دیتے ہیں کیونکہ بڑے مگر مچھوں کی پونچھ اتنی طاقت ور ہوتی ہے کہ کسی بھی شخص کو گرانے کا سبب بن سکتی ہے۔ پھر انہیں ٹرک میں ڈال کر نیل کے ساحل پر لے جایا جاتا ہے۔ وہاں پہنچ کر احتیاط سے ان کے گرد لپٹے کپڑوں کو کھول دیا جاتا ہے اور انہیں پانی میں چھوڑ دیتے یہں۔ عموماً اس عمل کے دوران مگر مچھ حملہ آور نہیں ہوتے کیونکہ ایک آزاد زندگی کا تصور دریا کے نیلگوں پانی کی صورت ان کے سامنے موجود ہوتا ہے۔

عموماً سیاحوں کو محظوظ کرنے والے لوگوں نے اپنے گھروں میں مگر مچھوں کے انڈے رکھے ہوتے ہیں جن میں سے نکلنے والے بچوں کو وہ پال پوس کر بڑا کرتے ہیں۔ گھر تو گھر وہاں تاریخی مقامات اور یہاں تک کے کشتیوں میں بھی مگر مچھوں کے سر آویزاں ملتے ہیں، اب اس کے پیچھے بھی مگر مچھوں سے جڑی عقیدت کارفرما ہے یا نہیںتو کچھ یقین سے کہا نہیں جاسکتا۔ مگرمچھ یہاں ہر جگہ دکھائی دیتے ہیں اس کی ایک وجہ مصر کی تاریخ خصوصاً نیوبیائی قبیلے کی تہذیب میں مگرمچھوں کو دی جانے والی اہمیت ہے جو عقیدت کا روپ دھار چکی۔ ہزاروں سالوں سے مگر مچھوں کو قدیم بادشاہتوں میں شجاعت کی علامت مانا جاتا تھا۔ قدیم مصری تہذیب میں فنون لطیفہ پر بھی مگرمچھ کے گہرے اثرات رہے۔ 4,000 چار ہزار سال قبل مسیح احرام مصر سکارا پر ’’سوبک‘‘ مگر مچھوں کے خدا کی تصویر کندہ ہے جس کا سر مگر مچھ کا اور دھڑ انسانی ہے۔ یہ مصر کے’ُکوم اوبو‘ قصبہ میں ایک مندر کے ستون پر کندہ ہے جوکہ 47 قبل سیح سے 180 قبل مسیح کے درمیان فرعونوں نے تعمیر کروایا تھا۔

اس مندر میں مگر مچھوں کی شاندار تصاویر اور حنوط شدہ نعشیں ہیں مگر وہاں کسی کو تصویر لینے کی اجازت نہیں۔ مگرمچھوں کو مصری ثقافت کے ساتھ ساتھ زراعت میں بھی اہمیت دی گئی جس کا ثبوت قاہرہ کے زرعی میوزیم میں آویزاں شدہ مگر مچھوں کودیکھ کر لگایا جاسکتا ہے۔مگرمچھوں سے محبت کرنے والے یہ لوگ باقی لوگوں کو ورطہ حیرت میں مبتلا کئے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔