ارطغرل، کیا واقعی؟

شاہد کاظمی  بدھ 20 مئ 2020
ترک ثقافت جتنی بھی اہم ہو، اس سے کیا ہم پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کو تباہ تو نہیں کررہے؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ترک ثقافت جتنی بھی اہم ہو، اس سے کیا ہم پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کو تباہ تو نہیں کررہے؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ہم شاید دنیا کی واحد قوم ہیں جو اپنے رویوں میں غیر یقینی صورتحال رکھتے ہیں۔ چاہیں تو عام سی بات کو اتنی اہمیت سے نواز دیں کہ لوگ حیران رہ جائیں۔ اور چاہیں تو انتہائی غور طلب مسئلے کو چٹکیوں میں نظر انداز کردیں۔ یہی رویہ بطور قوم شاید ہماری بقا بھی بنا ہوا ہے، یا پھر ہماری نفسیات کے ساتھ اس طرح جڑ گیا ہے کہ ہم اس سے نکلنے کی ہمت نہیں کر پا رہے۔

دنیا ففتھ جنریشن وار فیئر اپنا رہی ہے۔ اصطلاح کے حوالے سے ففتھ جنریشن وار خام خیالی ہی نظر آتی ہے، لیکن عملی طور پر ہمیں ففتھ جنریشن وار فیئر اس لیے نظرآنا شروع ہوچکی ہے کہ ہم میڈیا میں آئے روز اس حوالے سے ایک سیلاب امڈتا ہوا دیکھتے ہیں۔ ففتھ جنریشن وار فیئر بلا کیا ہے؟ اور کیسے کام کر رہا ہے؟ اس کے فوائد کیا ہیں؟ اس کے نقصانات ہیں؟ اس سے کس مخصوص ملک کو زیادہ فائدہ ہورہا ہے؟ اور کون اس میں اپنی برتری ثابت کرپارہا ہے؟ یہ تمام باتیں وقت گزرنے کے ساتھ سامنے آتی جائیں گی۔ ہم نہیں تو ہماری آنے والی نسلیں شاید ان جوابات کا بذات خود مشاہدہ بھی کرپائیں اور اپنی زندگیوں میں ان جوابات کو عملی سطح پر نافذ ہوتا دیکھ بھی سکیں۔

میڈیا انڈسٹری ہر گزرتے دن کے ساتھ پروان چڑھ رہی ہے اور پوری دنیا اس صنعت سے اپنے فائدے کے مواقع تلاش کررہی ہے۔ جس طرح حال ہی میں ہم نے دیکھا کہ کورونا وائرس نے دنیا کو لپیٹ میں لیا۔ اور حیران کن طور پر ہالی ووڈ اس سے ملتے جلتے موضوع پہ فلم کئی سال پہلے بناچکا تھا۔ اس فلم کو بنانے کی وجوہات کیا تھیں؟ کہانی کا مرکزی خیال کہاں سے آیا؟ اس حوالے سے ہنوز خاموشی ہے۔ دنیا میں میڈیا کی تمام جہتوں کو سنجیدہ طور پر ایک پروپیگنڈا ٹول کے طور پر استعمال کیا جانے لگا ہے۔ ایجنڈا سیٹنگ تھیوری یا مائنڈ کلٹیویشن تھیوری کے تحت لوگوں کے قلوب و اذہان میں اپنی مرضی کی سوچ و مستقبل کے مناظر کاشت کیے جانے لگے ہیں۔ اس حوالے سے تمام تر کوششیں خاموشی اور نہایت غیر محسوس طریقے سے ہورہی ہیں۔ ہم ان کوششوں کو دیکھ نہیں پاتے، محسوس نہیں کرپاتے۔ لیکن ان کے نتائج جلد یا بدیر ہمارے سامنے آنا شروع ہوجاتے ہیں۔

تاریخی پس منظر کے حامل ترک ڈرامے ارطغرل غازی نے ناظرین کو اپنے سحر میں جکڑ لیا ہے، اچھا ہے۔ اسلامی تاریخ دکھائی جا رہی ہے، بہت اچھا ہے۔ سلطنت عثمانیہ کا جاہ و جلال دکھایا جارہا ہے، یہ بھی بہت اچھا ہے۔ بلاشبہ ترکی ہمارا برادر اسلامی ملک ہے، اس کی ثقافت سے روشناس کروایا جارہا ہے، یہ بھی بہت اچھا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہم ارطغرل غازی ڈرامے سے محبت میں اس حد تک چلے گئے ہیں کہ ملکی سطح پر شان شاہد جیسا کوئی اداکار اگر لب کشائی کرتا ہے تو ہم اس کو تختۂ مشق بنالیتے ہیں۔ فرخ سہیل گوئندی جیسا کوئی لکھاری بولتا ہے تو ہم اس کے خلاف صف آرا ہوجاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ ہم کیوں میڈیا ہٹ کے خلاف بات سننے کو تیار نہیں ہیں؟ وہ کہتے کیا ہیں؟ ان کی بات کا مقصد کیا ہے؟ ثقافتی تبادلے کے طور پہ اگر ہم ارطغرل غازی چلا رہے ہیں تو ترکی میں کون سی پاکستانی ثقافت کو ان کے قومی چینل پر جگہ دی گئی ہے؟ اگر دی گئی ہے تو عوام کو بتائیے۔

ریٹنگ حاصل کرلی، فالورز بھی ریکارڈ بڑھ گئے، پیسہ بھی آگیا۔ لیکن فائدہ کیا ہوا اس سب کا؟ مانا کہ اس ڈرامے نے پوری دنیا کو سحر میں جکڑا۔ کامیابی کے جھنڈے بھی گاڑے لیکن اس سے پاکستان کی میڈیا انڈسٹری کو جو فوائد ہوئے ان میں سے صرف پانچ گنوا دیجیے۔ پاکستانی ڈرامے کو اس سے کیا فائدہ ہوا اس کا جواب تلاش کردیجیے؟ پاکستانی فنکار جو پہلے ہی کسمپرسی میں جان سے جانے کی وجہ سے خبروں میں رہتے ہیں، ان کی کیا بہتری ہوئی؟ پاکستان میں پروڈکشن کا شعبہ کیا اس ڈرامے کی کامیابی سے بہتر ہو پایا ہے؟ اگر ان تمام سوالات کے جوابات نفی میں ہیں، تو کیا واقعی ارطغرل غازی ڈرامے کو ہمیں ڈرامے سے بڑھ کر سمجھنا چاہیے؟

بنیادی اور غور طلب پہلو یہ ہے کہ ڈرامہ تخیل، لفاظی، کردار نگاری، مکالموں، اور کسی حد تک حقیقت پر مبنی ایک ایسی تفریح ہوتی ہے جس سے اصلاح کا کام بھی لیا جاسکتا ہے۔ لیکن ہم نے اس ڈرامے کو ڈرامے سے زیادہ سمجھنا شروع کردیا ہے۔ سلطنت عثمانیہ یقینی طور پر پوری دنیا کے مسلمانوں کے دلوں پر راج کرتی رہی ہے۔ لیکن اس ڈرامے کی حد تک دیکھیں تو یہ ڈرامہ موجودہ دور کی ٹیکنالوجی اور مکالماتی دنیا کا شاہکار ہے۔ حقیقت سے اس کا واسطہ اس لیے بہت کم ہے کہ نہ تو سلیمان شاہ، جو ارطغرل غازی کے والد ہیں، ان کے حوالے سے زیادہ معلومات دستیاب ہیں۔ نہ ہی خود ارطغرل غازی یا ان کے فرزند عثمان اول (جو سلطنت عثمانیہ کے بانی سمجھے جاتے ہیں) کے حوالے سے کوئی زیادہ معلومات تاریخ کے صفحات میں موجود ہیں۔ آپ اس دنیائے معلومات کو کھنگالیں تو وہاں یہ بھی پڑھنے کو ملتا ہے کہ ارطغرل غازی کے حوالے سے اس سے زیادہ معلومات کم ہی دستیاب ہیں کہ وہ عثمان اول کے والد تھے۔

اس حوالے سے ترک روایات میں تو ہمیں بہت کچھ ملے گا۔ لیکن تحریری سند کم ہوگی۔ تو یقینی طور پر اس وقت موجودہ دور میں بنائے گئے ڈرامے میں معلومات جو دی گئی ہیں زیادہ تر فکشن ہے۔ اور فکشن کو ڈرامائی تشکیل دی جائے تو اس حقیقت کو مدنظر رکھا جاتا ہے کہ جدیدیت کے دور کے ناظرین کیا دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ کائی قبیلہ ہو یا سلیمان شاہ، ارطغرل غازی ہوں یا محلاتی سازشوں کا انبار، زیادہ تر مکالمے لفظوں کا گھماؤ پھیراؤ ہیں۔ حقیقت سے ان کا تعلق ثابت کرنے کےلیے جذباتیت کی عینک اتارنا ہوگی۔ اور سوچنا ہوگا کہ کیا واقعی ڈرامہ ارطغرل غازی پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری کےلیے بھی بہتر ہوگا؟

عثمان اول سلطنت عثمانیہ کے معمار ہیں۔ اور سلطنت عثمانیہ تمام مسلمانوں کےلیے اہم رہی لیکن اس ڈرامے کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ مکمل طور پر فکشن سے قریب ہے۔ حقیقت کا تڑکا بہرحال موجود ہے، لیکن فکشن حاوی ہے۔ ایسی صورتحال میں ہم اس ڈرامے کی کامیابی کا جشن مناتے ہوئے اس حقیقت سے کیوں آنکھیں چرا رہے ہیں کہ ترک ثقافت جتنی بھی اہم ہو، اس سے کیا ہم پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کو تباہ تو نہیں کررہے؟ وزیراعظم پاکستان نے سرکاری طور پر جب اس ڈرامے کو دکھائے جانے کا اعلان کر ڈالا تو کیا پاکستان کی تاریخ میں ایسا کوئی تاریخی اہمیت کا کردار نہیں جس کی تشہیر کی جاسکے؟ آخری چٹان ڈرامہ کیا پاکستان میں نہیں بنا؟ فلم زرقا کیا پاکستان میں نہیں بنی؟ ٹیپو سلطان کو پکچرائز نہیں کیا گیا؟ دور جانے کی ضرورت نہیں اگر 1857 کو ہی معیار بنا لیں تو اس کے بعد کے اتنے ہیروز موجود ہیں کہ ڈرامہ بنانا شروع کریں تو کئی برسوں تل کردار ختم نہیں ہوں گے۔ آپ کیوں محمد علی جناح پر ایسا ڈرامہ نہیں بناتے کہ پوری دنیا کو سحر میں جکڑے۔ جو کوششیں ہوئیں وہ بھی ناقص پروڈکشن کا شکار ہوئیں۔

پہلے سے زوال پذیر ڈرامہ انڈسٹری کو اپنے ہاتھوں سے کیوں مار رہے ہیں۔ شان شاہد نے جو بھی کہا وہ بھی اپنی ڈرامہ و فلم انڈسٹری کی بہتری کےلیے ہی کہا ہے۔ اس پر لٹھ لے کر ان کے پیچھے پڑنے کے بجائے حقیقت کا سامنا کرتے ہوئے امپورٹ شدہ ڈرامے عوام پر مسلط کرنے کے بجائے اپنی ڈرامہ انڈسٹری کو سہولیات دیجیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

شاہد کاظمی

شاہد کاظمی

بلاگر کی وابستگی روزنامہ نئی بات، اوصاف سے رہی ہے۔ آج کل روزنامہ ایشیئن نیوز اور روزنامہ طاقت کے علاوہ، جناح و آزادی کے لیے بھی کالم لکھتے ہیں۔ ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کر رکھا ہے۔ بلاگر سے ان کے فیس بک پیج www.facebook.com/100lafz پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔