جرائم کے خاتمے میں ناکامی کیوں؟

عمیر حبیب  اتوار 31 مئ 2020
 اس ضمن میں بہتری کے لیے یورپ کے محکمۂ  پولیس اور عدالتی نظام کو مثال بنایا جاسکتا ہے ۔  فوٹو : فائل

اس ضمن میں بہتری کے لیے یورپ کے محکمۂ پولیس اور عدالتی نظام کو مثال بنایا جاسکتا ہے ۔ فوٹو : فائل

جب معاشرے میں غربت، بے روزگاری، رشوت ستانی،اقربا پروری، ناانصافی بڑھ جائے تو افراد حسد اور تعصب ، حرص و ہوس اور اسی نوع کی کم زوریوں،اخلاقی گراوٹ کا شکار ہونے لگتے ہیں۔

معاشرے میں نفرت، غم وغصہ اور مایوسی جنم لیتی ہے جس کے نتیجے میں افراتفری اور نفسانفسی پر وان چڑھتی ہے۔ اسی طرح جب سیاست داںاور حکم راںاپنے مفادات کی تکمیل کے لیے قانون سازی کریں اور سزا و جزا میں دہرا معیار اپنایا جائے، اختیارات کا ناجائز استعمال ہونے لگے تو لوگوں میں احساسِ محرومی جنم لیتا ہے اور جرم کو پنپنے کا موقع مل جاتاہے ۔

جدید دنیا اورتہذیب یافتہ معاشروںمیں ریاست کا تصورایک ماںجیسا ہے، جو ہر دکھ، ہر مشکل اور ہر موقع پر عوام کا ساتھ دیتی ہے، ان کا خیال رکھتی اور ان کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔ قانون کی بالادستی یقینی اورعدلیہ کی آزادی کااحترام کیا جاتا ہے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ معاشرہ افراتفری، انتشار کا شکار ہے۔

اگر ہم معمولی اور سنگین نوعیت کے جرائم، پاکستان کے قانون ساز اداروں اور عدلیہ کی بات کریں توسب سے پہلے جو مسئلہ سامنے آتا ہے،و ہ ہے سیاسی مفاد کی تکمیل اورمخصوص طبقے کوفائدہ دینے کے لیے قوانین کا نفاذجس کا بوجھ عدالتی نظام پر پڑتا ہے اور عدالتیں اپنے اصل مقاصد سے کنارہ کشی پر مجبور ہوجاتی ہیں۔

پچھلے 73 سال کے دوران مفکرین، دانش وروں اور قانون دانوںنے جرم و سزا سے متعلق حکومتی اداروں اورریاست کے پلیٹ فارم سے،مختلف سماجی فورمز اور ذرایع ابلاغ کی مدد سے ریاست کو متوجہ کرنے کی کوشش بھی کی اور اس ضمن میں ٹھوس اور جامع تجاویز، سفارشات بھی پیش کیں، مگر جرائم بڑھتے ہی چلے گئے اور آج ہمارا عدالتی نظام اس کے بوجھ تلے دباہوا ہے۔ آئیے، اس کی چند بنیادی اور اہم وجوہ جاننے اور اس مسئلے کوسمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہم اپنے سمجھنے کے لیے فرض کرلیتے ہیں کہ جرم دو طرح کے ہیں۔ایک معمولی نوعیت کا اوردوسری قسم کو غیرمعمولی یا بڑے جرائم کہہ سکتے ہیں۔ چھوٹے موٹے جرائم میں عام اشیا کی چوری، شراب نوشی، گھریلو و سماجی تشدد جیسے جرائم شامل ہیں ، جب کہ قتل ، ڈکیتی، کرپشن و غیرہ بڑے جرائم ہیں۔ انھیں ضلعی عدالتوں میں ان کی قسم یا نوعیت کے تحت زیر سماعت لایا جاتا ہے جب کہ چھوٹے جرائم کو جوڈیشل مجسٹریٹ نمٹاتے ہیں، اسی طرح وہ جرائم سیشن ججز کے سپرد کیے جاتے ہیں جن میںبڑی اور طویل سزا ہوسکتی ہے۔

جوڈیشل مجسٹریٹ کی بات کریں تو صرف چند امتحانات پاس کرنے پراس کی تقرری کا پروانہ جاری ہوجاتاہے، باقی رہا تجربہ تو وہ اسی کرسی پر بیٹھ کر حاصل کرتا ہے اور یہی وجہ سے اکثر سیشن ججوں پر مزیدکیسز کا بوجھ پڑتا ہے۔دوسری طرف عدالتی کارروائیوں کے دوران یا بعد میں ملزم یا مجرم کو جیل بھیج دیا جاتا ہے جہاں ان کی اصلاح کرنے اور جرم سے نفرت دلانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ جیل کا ماحول اور ہمارا سسٹم اسے مزید بگاڑ کرکچھ عرصے یا چند سال بعد دوبارہ اسی معاشرے میں دھکیل دیتا ہے۔

قتل، ایک سنگین جرم ہے اور اگرسیریل کلر زکی بات کی جائے تو امریکا اورمغربی ممالک میںکئی ایسے کیسز سامنے آچکے ہیں اور  آتے رہتے ہیںاور اس میں گرفتاری کے بعد عدالتی کارروائی مکمل کی جاتی ہے۔ وہاںایسے مجرموں کا مکمل ریکارڈ رکھا جاتا ہے اور اس حوالے سے جرم کی وجہ، اسباب اور مجرم کے حالات ،اس کے خیالات پرباقاعدہ تحقیق کی جاتی ہے ،مگر پاکستان میں 100 بچوں کے قاتل جاوید اقبال نے خود گرفتاری دی تھی، اسے پولیس نے نہیں پکڑا تھا۔

کیا پاکستا ن میں سیریل کلر موجود نہیں یا ایسے درندہ صفت جو کئی بے گناہ اور معصوم انسانوں کو قتل کرچکے ہیں اور اب بھی کررہے ہیں؟ یہاں دراصل جرم اور مجرم کے تعاقب کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی، اس لیے سیریل کلر ز بھی سامنے نہیں آتے، ان کا ریکارڈبھی نہیں بنتا اور کوئی ایسا ادارہ موجود ہی نہیں جو اس درندگی کی اصل وجہ جاننے کے لیے تحقیق کرے ۔

زینب اور دیگر معصوم زندگیاں بھی اسی نوعیت کے جرائم کی لپیٹ میں آئیں، مگر تحقیقات روایتی طریقے سے آگے بڑھاتے ہوئے صرف جرم اور اس کا ارتکاب ثابت کیا گیا، اس کے محرکات،اسباب جاننے کے لیے سائنسی طریقے اپنانے اور کسی ماہرِ نفسیات سے مدد لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔

یہ وہ باتیں ہیں جو ایک عام آدمی بھی سمجھتا اور جانتا ہے، اور یہ ہمارے لیے کوئی نئی بات نہیں مگرکیا اس میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے اور اس حوالے سے بہتری ممکن ہے؟ کیا کوئی ایسا راستہ ہے جو اس نظام کو درست کرنے میں مدد دے ؟ ایسا کیا ہے کہ پالیسیاں بھی مرتب کی جاتی ہیں ،اصلاحات بھی سامنے آتی ہیں، قانون سازی بھی کی جاتی ہے،مگر ہمارے مسائل جوں کے توں ہیں۔

ہم اگر مغربی دنیا کے چندممالک سے اپنے معاشرتی حالات، سیاسی اور سماجی ڈھانچے کا موازنہ کریں تو ہمیںاس  کی کچھ بنیادی خامیاں نظر آسکتی ہیں۔ یورپ جو آج سے 70 سال پہلے جنگ اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے انسانی المیوںاوربحرانوں کا شکار تھااس کے حالات کیسے بہتر ہوئے،  اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

٭  یورپ میں جرائم

دوسری جنگِ عظیم کے بعد یورپ میں 1960کی دہائی سے، جرائم کا مطالعہ تاریخی نقطۂ نظر سے کیا جاتا رہا ہے، تاریخ اور معاشرتی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے جرم پر تحقیق اور اس پر قابو پانے کے لیے زور دیا گیااور نتیجتاً 1983 میں کونسل آف یورپ کا قیام عمل میںآیا اور سالانہ تعزیراتی اعداد و شمار کے حوالے سے تنظیم(SPACE) نے کام شروع کیا، اس ادارہ کا کام یورپ کی جیلوں سے قیدیوں کا ڈیٹا جمع کرناتھا جوہر سال شایع بھی کیا جاتا ہے۔

وہاں جرم سے متعلق تحقیقاتی ادارے اس کی مدد جرم کے محرکات اور اسباب کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اوراپنی رپورٹ تیارکر کے پیش کرتے ہیں جس کے مطابق حکومت پالیسیاں مرتب کرتی ہے۔

یورپ میں پولیس کا نظام قابل ِرشک ہے ۔اگرہم پرتگال کی بات کریں تویہاں دیہی اور شہری علاقوں میں پولیس کا کردار الگ الگ ہے۔ شہر میں پولیس کی نفری ہر وقت موجود رہتی ہے کیوں کہ وہاں کی معمول کی سرگرمیاں اورجرائم کی نوعیت دیہی علاقوں سے قدرے مختلف ہے۔

دیہی علاقوں میں پولیس شاذ و نادر ہی نظر آتی ہے بلکہ نیشنل گارڈز کو دیہی علاقوں میں زیادہ اختیارات دیے گئے ہیں ۔ ٹریفک کو کنٹرول کرنے کا کام پولیس نہیں بلکہ نیشنل گارڈز انجام دیتے ہیں اور یہ سب مذکورہ نظام کے تحت ہوتاہے جس کی بنیاد پر حکومت پالیسیاں مرتب کرتی ہے۔

٭  پالیسیاں اور ان سے پیدا ہونے والے دوسرے مسائل

ہمارے ملک میں فوجداری مقدمات (جو عموماً دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک وہ جو شہری مدعیت اور دوسرا سرکاری مدعیت میںدرج ہوا) عدالتی بوجھ کم کرنے کی غرض سے ماہرین پر مشتمل کمیٹی نے پچھلے سال شہری مدعیت میں ہونے والے مقدمات کے طریقہ ٔکار پر ایک رپورٹ کا حوالہ دے کر بتایا کہ ملک میں اس قسم کے چھے لاکھ سے زائد کیس درج ہیں اس لیے ایک نئی پالیسی دی جارہی ہے جس کے تحت تھانہ دار کی عدم توجہی کی صورت میں مدعی ضلع ایس پی شکایات کے پاس پیش ہوگا اور اسے  لازمی قرار دیا گیا۔

ماہرین کے مطابق یہ اچھی پالیسی ہے، مگر کیا سرکاری مدعیت میں مندرج مقدمات کے حوالے کوئی پالیسی مرتب کی گئی؟ایسا نہیںکیا گیا بلکہ اسے نظر انداز کرکے گویا شہریوں کو مزید پریشانی میں مبتلا کرد یا ہے۔ سرکاری مدعیت میںدرج مقدمات میں بھی ایسی ہی کسی پالیسی کی ضرورت ہے تا کہ عدالتوں کا بوجھ مزید کم ہوسکے اوراس طرح پولیس کی کارکردگی کا باقاعدہ جائزہ لیا جاسکے، کیوں کہ چرس، شراب اور اسی نوعیت کے عام نشے کسی کے بھی سَر ڈال کربے گناہ کو فوجداری مقدمات میں گھسیٹ لیا جاتا ہے۔

مغربی ممالک میں جب شہری کسی دوسرے شہری کے خلاف ابتدائی شکایت درج کرواتا ہے تو ٹیم پہلے تحقیق کرتی ہے، پھر اسے ڈائری میں درج کیا جاتا ہے اور اگر جرم بنتا ہو تو پراسیکیوٹر کے سامنے پیش کیا جاتا ہے کہ آیا یہ کیس تعزیراتی تقاضوں پر پورا اتر رہا ہے یا قابل سماعت ہے

؟ آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس طرح آدھا کیس تو حل ہوجاتا ہے ، پھر عدالتوں پر بوجھ کیسا۔ ہمارے ہاں اس کے برعکس ہوتا ہے۔یہاں اصل مجرم پولیس کی نااہلی یا کیس کی معمولی کم زوری کے باعث گرفت میں نہیں آتا یا کوئی بے گناہ جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ اگر سپریم کورٹ کسی سزا کوبرسوں بعد کالعدم قرار دیتی ہے تو یہ غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔

٭  انگریز دور کے قوانین پر انحصار

ہمارے ملک میں برطانوی دور قوانین اورسسٹم آج بھی چند تبدیلیوں کے ساتھ کام کررہا ہے جب کہ یورپ میں انقلاب ِ فرانس کے بعد معروف سماجی دانش وروں، قانون دانوں   Jeremy Bentham،  Sonnenfels  اور والٹیئر سمیت دیگر وکلا،اصلاح پسند لوگ اور باشعور شہریوںنے نیپولین ایکٹ اور تاریخی تعزیرات کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور نئی اصلاحات متعارف کروائیں۔

اسی طرح ہمیں بھی اصلاحات کی ضرورت ہے اورچندٹھوس اور جامع پالیسیوں کی ۔ بدقسمتی سے یہاں قانون سازی سیاسی مفادات کے لیے کی جاتی ہے جیسا کہ اسلحے سے متعلق لائسنس کی میعاد،جرمانہ اور قید وغیرہ اور سیاسی اشراف اپنے مفاد میں اداروں پر اثر انداز ہوتا ہے۔

٭  حکومتی رٹ کیسے قائم کی جائے

ایک اہم مسئلہ حکومتی رٹ قائم نہ ہونا ہے جس کی بنیادی وجہ اختیارات پر مرکزی کنٹرول برقرار رکھناہے جب کہ اختیارات کی  نچلی سطح پر منتقلی نہ ہونے سے حکومت کی رٹ قائم ہونے بھی نا ممکن ہوتاہے ۔ لندن کی مثال لے لیجیے ، وہاں پولیس کمشنر تک میئر کے کنٹرول میں رہتا ہے ، جرائم یا عوامی مسائل کو قانون ساز اداروں تک جانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔

اس کی ایک مثال ہم مشرف ا دورسے دے سکتے ہیں جس میں مئیر کراچی کے اختیارات اور اقدامات سے کون واقف نہیں۔ شہری مسائل کو اس دور میں مقامی سطح پر حل کیا جاتا رہا۔  2001سے شہری حکومت کے خاتمے تک نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ شہری مسائل کو نچلی سطح پر حل کیا جا رہا تھا، بجٹ کا صحیح استعمال کیا گیا،اور شہر کے لیے کئی نئے منصوبوں پر کام ہوا۔ پھر ہم نے دیکھا کہ اٹھارویں ترمیم آئی جس سے صوبوں کو بااختیار تو بنایا گیا، مگران کا بجٹ نہ جانے کہاں خرچ ہونے لگا اور آج سندھ کی حالت سب کے سامنے ہے۔

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مغربی ممالک میں موجود نظام اور پالیسیوں کو سامنے رکھتے ہوئے ملکی سطح پرپولیس اور عدالتی نظام کو بہتر بنایا جائے اور اصلاحات کیاجائیں۔محکمہ پولیس اور متعلقہ اداروںکو نئے سرے سے ترتیب و تشکیل دے کرسود مند اور مؤثر پالیسیوں کے تحت چلایا جائے یا کم از کم اس محکمہ میں وہ تبدیلیاں ضرور کی جائیں کہ یہ سماجی تقاضوں کوپورا کرنے کے قابل ہوسکے۔ہمیں ان اداروں کی ضرورت ہے جو سماج اوراس کے مختلف گروہوںکواسٹڈی کرکے معاشرے کی انجینئرنگ کرسکے۔

اس ضمن میں ماہر قانون دانوں،سماجی مفکرین اور ٹیکنوکریٹ کے ساتھ ساتھ انسانی نفسیات کے ماہرین سے بھی مشاورت کی جائے۔ نظام میں سب سے اہم تبدیلی شہری حکومت کے تحت لائی جاسکتی ہے جس میں مسائل کومقامی نمائندے اور کونسلر کی مدد سے حل کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔