انگلینڈ میں بائیو سیکیور کرکٹ کی تیاریاں

عباس رضا  اتوار 31 مئ 2020
کورونا کے دور میں بقا کے لیے نئے راستوں کی تلاش۔ فوٹو: فائل

کورونا کے دور میں بقا کے لیے نئے راستوں کی تلاش۔ فوٹو: فائل

کورونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا ایک بحرانی صورتحال سے دوچار ہے، زندگی پر ایک جمود طاری اور بیشتر کاروبار ٹھپ ہوکر رہ گئے ہیں۔

سب سے زیادہ متاثر کھیل اور ایسی سماجی سرگرمیاں ہوئی ہیں جن کی رونقیں ہی عوام کے دم قدم سے ہوتی ہیں،چند ملکوں میں لاک ڈاؤن میں نرمی کیساتھ تمام تر احتیاطی تدابیر کیساتھ کھیلوں کو بحال کرنے کے لیے بھی اقدامات کئے جارہے ہیں،بجا طور پر کہا جارہا ہے کہ کورونا وائرس کی ویکسین تیار ہونے تک دنیا کبھی پہلے جیسی نظر نہیں آسکے گی،زندگی کی کسی بھی سرگرمی کو جاری رکھنے کے لیے مخصوص احتیاطی تدابیر کو اختیار کرتے ہوئے خود کو اور دوسروں کو وبائی مرض سے محفوظ رکھنا ہوگا۔

اسی طرح کھیلوں کا بھی رنگ یکسر تبدیل ہوگا،ابھی تک جرمنی سمیت جن ملکوں میں فٹبال اور دیگر سپورٹس کی ٹریننگ کا سلسلہ شروع ہوا،وہاں بھی منتظمین اور کھلاڑی سب نئے بائیوسیکیور ماحول کو ممکن بنانے کے لیے فکرمند نظر آئے ہیں، کورونا ٹیسٹ اتنی کثرت سے کئے گئے کہ ایک فٹبالر نے خود کو لیبارٹری میں تجربات کے لیے استعمال ہونے والا چوہا قرار دیدیا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کھیل تحرک کی علامت اور ہماری زندگیوں کا لازمی حصہ بن چکے ہیں، میدانوں میں ایکشن میں نظر آنے والے سپورٹس ہیروز نئی نسل کو مثبت سرگرمیوں کی جانب راغب کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہیں،سٹیڈیمز کی رونقیں بھرپور زندگی کا احساس دلاتی ہیں لیکن انسانی جان سے بڑھ کر کوئی چیز قیمتی نہیں،اسی لئے کھیلوں کی سرگرمیاں بحال کرتے ہوئے احتیاطی تدابیر کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے۔

اس ضمن میں منتظمین اور کھلاڑیوں کو ہونے والی مشکلات بھی خندہ پیشانی سے برداشت کرنا چاہیں،کسی بھی ناکام تجربہ کی صورت میں انسانی جانوں کا ضیاع کھیلوں کی بحالی کے عمل کو شدید متاثر کرے گا،یہ بات تو ہے کہ اگر کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے بازاروں میں رش اور سماجی تقریبات کی اجازت نہیں دی جاسکتی تو سٹیڈیمز بھی خالی رکھنا ہوں گے۔

بائیو سیکیور ماحول یقینی بنانا بہت مشکل امتحان ہے،سب سے پہلا قدم کھلاڑیوں، آفیشلز اور براڈ کاسٹنگ ٹیم کے ٹیسٹ کرتے ہوئے تسلی کرنا ہے کہ ان میں سے کوئی کورونا کا شکار تو نہیں، اگلا قدم اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ایکشن میں آنے والے ہر فرد کو محفوظ رکھنے کے لیے بھی تمام تر انتظامات ہوں،قیام کے لیے مختص ہوٹلز،ڈریسنگ روم اور وینیوز وغیرہ کو کورونا فری بنانے کے لیے تمام تر احتیاطی تدابیر اختیار کی گئی ہوں،سب سے مشکل کام کھلاڑیوں کے استعمال کے سامان کو محفوظ بنانا ہے۔

فٹبال اور کرکٹ میں گیند ایک پلیئر سے دوسرے کی طرف جانے کیساتھ گراؤنڈ سے بھی ٹکرائے گی،ان کو کورونا فری رکھنا سب سے بڑا چیلنج ہوگا، فٹبال کی دنیا میں تو جرمنی، سپین اور اٹلی نے مثبت پیش رفت کی ہے، کھلاڑیوں کی ٹیسٹ بھی تسلسل کیساتھ کئے جارہے ہیں، کرکٹ کی دنیا میں ویسٹ انڈیز نے خالی سٹیڈیمز میں میچز کا سلسلہ شروع کیا ہے، وہاں کورونا کا پھیلاؤ بھی زیادہ نہیں، اس کے باوجود احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا گیا۔

انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے لیے انگلش کرکٹ بورڈ نے انقلابی قدم اٹھاتے ہوئے ویسٹ انڈیز کیخلاف سیریز ری شیڈول کرتے ہوئے جولائی میں کھیلنے کا فیصلہ کیا ہے، اس کے بعد پاکستان ٹیم بھی 3ٹیسٹ اور اتنے ہی ون ڈے میچز کے لیے دورہ کرے گی،انگلش بولرز نے انفرادی ٹریننگ کا آغاز کردیا ہے،مجموعی طور پر منتخب 55کرکٹرز کا کیمپ شروع ہونے والا ہے، کھلاڑیوں کی فہرست طویل رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ بائیو سیکیور ماحول میں ٹریننگ کرنے والوں کی ایک بڑی کھیپ میسر ہو جس کو فارمیٹ کی ضرورت کے مطابق ٹیم کا حصہ بنایا جاسکے۔

دوسری جانب پاکستان نے بھی ٹور کا مشکل فیصلہ کرتے ہوئے 25سے 27کرکٹرز کو انگلینڈ لیجانے کا فیصلہ کیا ہے،لاہور میں تربیتی کیمپ کے لیے تمام تر احتیاطی تدابیر کیساتھ انتظامات کرتے ہوئے 7جون سے ٹریننگ شروع کی جائے گی، نہ صرف کہ لاہور میں بلکہ انگلینڈ پہنچ کر بھی قرنطینہ ٹریننگ ہوگی،کورونا ٹیسٹ بھی جاری رہیں گے، کلیئرنس پانے والے کرکٹرز ہی میدان میں اتارے جائیں گے، عام طور کسی دفتر، ادارے یا فیملی میں کسی کا کورونا ٹیسٹ مثبت آجائے تو اس سے میل جول رکھنے والوں کے بھی ٹیسٹ ہوتے اور ان کو قرنطینہ میں رہنے کے لیے کہا جاتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ اگر خدانخواستہ کسی ٹیم کے ایک کھلاڑی کا ٹیسٹ مثبت آجاتا ہے تو کیا پوری ٹیم قرنطینہ کرے گی،میچ کا کیا بنے گا؟ بہرحال انگلینڈ ایک انتہائی اہم لیکن مشکل تجربہ کرنے جارہا ہے،اس کی کامیابی دیگر ملکوں کو بھی راستہ دکھائے گی کہ احتیاطی تدابیر کیساتھ کرکٹ ایکشن ہوسکتا ہے،کثیر ملکی ٹورنامنٹ کروانے میں بے پناہ مسائل ہوسکتے ہیں، انگلینڈ میں یہ اندازہ ہوجائے گا کہ موجودہ حالات میں کم ازکم بورڈز باہمی مقابلوں کا اہتمام کرسکتے ہیں، ویسٹ انڈیز اور پاکستان کیخلاف سیریز میں جیت کسی کی بھی ہو،زیادہ اہم بات یہ ہوگی کہ کرکٹ بورڈز کو بحرانی صورتحال میں بقا کا ایک راستہ ملے گا۔

خالی اسٹیڈیمز میں مقابلوں سے گیٹ منی تو حاصل نہیں ہوگی لیکن نشریاتی حقوق کے معاہدے بچ جانے سے بڑی آمدن کا در کھلا رہے گا، اگر تجربہ کامیاب نہیں ہوتا تو کورونا وائرس کی تباہ کاری ختم ہونے تک کرکٹ کی دنیا بھی تیزی سے مالی مسائل کی دلدل میں دھنستی رہے گی،اس نازک موقع پر دورہ انگلینڈ پر آمادہ ہونے والے پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے کرکٹرز کی جرائت مندی قابل تحسین ہے لیکن میزبان ملک کے پاس کسی غلطی کی گنجائش نہیں ہوگی۔

دوسری جانب کرکٹ کی دنیا کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کا فیصلہ بدستور ہوا میں معلق ہے، بورڈز آئی سی سی ایونٹس کی آمدن کا حصول وصول کرکے اپنے مالی مسائل حل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں لیکن اکتوبر، نومبر میں آسٹریلیا میں ہونے والے میگا ایونٹ کے انعقاد کا امکان معدوم ہوتا جارہا ہے،کورونا وائرس کی وجہ سے آسٹریلوی حکومت نے ستمبر کے وسط تک سرحدیں بند کر رکھی ہیں۔

اگر حالات بہتر ہونے پر پروازوں کی اجازت مل گئی تب بھی کئی سوالات کے جواب آئی سی سی اور میزبان بورڈ کو تلاش کرنا ہوں گے،دیکھنا یہ ہوگا کہ اس وقت ایونٹ میں شریک 16ٹیموں کے اپنے ملکوں کے حالات اس قابل ہوں گے کہ کھلاڑی سفر کرسکیں، دوسرے آسٹریلوی حکومت ان ٹیموں کو آنے کی اجازت دیتی ہے یا نہیں، لاک ڈاؤن ختم کئے جانے کے بعد قرنطینہ کے لیے کیا قانون متعارف کروایا جاتا ہے۔

سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اگر تمام مسائل کا حل تلاش کرلیا جاتا ہے تو کیا آسٹریلوی بورڈ ایک ماہ میں تمام 16ٹیموں کو مختلف شہروں میں بائیو سکیور ماحول،قرنطینہ کے لیے ہوٹلز، سفر اور قیام و طعام کے لیے انتظامات کرسکے گا، قرنطینہ کے پیش نظر تمام ٹیموں کو ستمبر کے آخری ہفتے میں آسٹریلیا پہنچ جانا چاہیے تاکہ 18اکتوبر تک کھلاڑیوں کے متعدد بار کورونا ٹیسٹ ہوں اور شکوک دور کرنے کے لیے وقت مل سکے، خدشات کو دیکھتے ہوئے ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ ملتوی کئے جانے کا قوی امکان ہے۔

آسٹریلوی بورڈ نے بھی صورتحال پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے میگا ایونٹ کے انعقاد کو ہائی رسک قرار دینے کیساتھ آئندہ سال فروری یا اکتوبر، نومبر میں میزبانی کی خواہش ظاہر کی ہے، بھارت اور آسٹریلیا کی سیریز، جنوری میں بگ بیش، فروری، مارچ میں پی ایس ایل اور اپریل میں آئی پی ایل کی وجہ سے آسٹریلیا کی اس تجویز کو رد کئے جانے کا امکان ہے۔

ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ اور آئی پی ایل کا براڈ کاسٹر ایک ہی ہے، اس کی بھی بھارتی لیگ کے انعقاد میں دلچسپی زیادہ اور دیگر لیگز کے ہجوم میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کروانے کی مخالفت کرچکا، ذرائع کے مطابق اس ضمن میں نشریاتی ادارے نے آئی سی سی کو خط بھی لکھ دیا ہے، بھارت نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ2021 کے بجائے 2022میں کروانے کی حامی نہ بھری تو آسٹریلیا کو ملتوی کردہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کی میزبانی اکتوبر 2022میں کرنا پڑے گی،آسٹریلوی بورڈ دو سال کی تاخیر سے ایونٹ کی میزبانی کو انتہائی نقصان دہ قرار دے چکا۔

دوسری جانب رواں سال نومبر اور دسمبر میں آئی پی ایل کروانے کے لیے کوشاں بھارتی بورڈ کی خواہش ہے کہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ ملتوی ہوجائے، اس حوالے سے بی سی سی آئی عہدیدار اور سابق کرکٹرز مسلسل بیانات دے رہے ہیں، ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کو ری شیڈول کرنا آئی سی سی کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بن چکا، موجودہ حالات میں کسی فیصلے سے آسٹریلیا یا بھارت میں سے کوئی ایک ضرور متاثر ہوگا، اس طرح کے حالات میں عام طور پر بھارت حاوی رہتا ہے لیکن بی سی سی آئی کی جانب سے جنوری، فروری میں باہمی سیریز کے لیے اپنی ٹیم بھجوانے کا فیصلہ آسٹریلیا کو رام کرنے کے لیے کافی ثابت ہوسکتا ہے، صرف اس ٹور سے 300ملین ڈالر کی آمدن آسٹریلوی بورڈ کی تجوریاں بھر سکتی ہے۔

صرف ایک رکاوٹ ہے کہ بی سی سی آئی ابھی تک اپنے ملک میں آئی سی سی ایونٹس سے حاصل ہونے والی آمدن سے ٹیکس کٹوتی نہ کرنے کا حکومتی لیٹر فراہم نہیں کرسکا،فی الحال لاک ڈاؤن کو وجہ بتاتے ہوئے ٹال مٹول سے کام لیا جارہا ہے، آئی سی سی لیٹر فراہم نہ کرنے پر میزبانی سے محروم کرنے کی دھمکی دے چکی ہے،اگر ایسا ہوا تو بھارت نہ صرف ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ 2021بلکہ 50اوورز ورلڈکپ 2023سے بھی ہاتھ دھوبیٹھے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔