کووڈ 19 کے بحران میں پاور سیکٹر کی طویل مدتی ترقی

صنعتی شعبے کا انحطاط، بے روزگاری اور آمدنی میں کمی اِس بیماری کی ابتدائی علامات ہیں۔

کووِڈ19-(COVID-19) ہمارے دور کا عالمی بحران ہے جسکے اثرات صحت سے لے کر سماجی، اقتصادی اور سیاسی شعبوں پرمرتب ہو رہے ہیں اور دوررَس نتائج کے حامل ہیں۔

صنعتی شعبے کا انحطاط، بے روزگاری اور آمدنی میں کمی اِس بیماری کی ابتدائی علامات ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کی پیش گوئی کے مطابق، اِس بحران کے نتیجے میں عالمی افرادی قوت کا نصف، روزگار سے محروم ہو جائے گا اور بعض اندازوں کے مطابق، صرف کراچی میں تقریباً 20لاکھ افرادکی ملازمت ختم ہوئی۔

21مارچ،2020ء سے پاکستان میں کووِڈ19 کے خلاف ایک ایسی لاک ڈاؤن مہم کا آغاز ہوا جسکی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی ۔ اِسکی کامیابی کے لیے بجلی کی دستیابی اہم ترین عنصر تھی اور کے الیکٹرک سمیت تمام ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (DISCOs) نے ایسے علاقوں میں بھی 24گھنٹے بجلی فراہمی یقینی بنائی جہاں بجلی چوری کی شرح 80 فیصد سے بھی زیادہ تھی اور مالی استحکام کے لیے غیر معمولی اخراجات برداشت کرنا پڑے۔ کووِڈ19کی وجہ سے پاور سیکٹر پرجس طرح کا دباؤ بڑھا ہے اْس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

صنعتی سست روی کے باعث بجلی کی طلب میں کمی ہوئی، اندازوں کے مطابق اِس کی بحالی کا 2020ء سے پہلے کوئی امکان نہیں۔ پاکستان میں صرف 3ماہ میں بجلی کی طلب میں 7 فیصد تک کمی ہوئی اور یہ کمی 15 فیصد تک پہنچ سکتی ہے جسکا پاور یوٹیلیٹی سیکٹر کے مجموعی محصولات پر اثر پڑا ہے۔ اِسی کے ساتھ منافع بخش کسٹمرز مثلاً صنعتوں سے لے کر زرعی اور گھریلو کسٹمرزکی جانب سے بجلی کی طلب میں کمی واقع ہوئی ہے۔

اس وباء کے باعث جہاں منافع بخش شعبے سکڑ رہے ہیں وہیں نقصان دہ شعبوں میں اضافہ ہوا ہے اور روپے کی قدر میں کمی سے یہ نقصان تقریباً 40 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔اِس میں مزید شدت کم آمدنی والے رہائشی صارفین سے وصولیابی میں کمی کے باعث پیدا ہو گئی کیونکہ ریفنڈز جیسے ریلیف کے حقیقی اقدامات کی غیر موجودگی اور بلوں کی ادائیگی کے لیے ان کمیونٹیز کی لاچاری کے باعث بجلی چوری جیسی وجوہات نے لیکویڈیٹی کا بحران پیدا کر دیا ہے۔اِن دونوں کا تیز ترین اثر ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کے نقصانات کی صورت میں برآمد ہواہے جس سے یوٹیلیٹی کے کیش فلو میں گہرا شگاف پید ا ہو گیا اور گردشی قرض میں اضافہ ہواہے۔ پاور سیکٹر کی طویل مدتی ترقی کے لیے، جو ایک لازمی سروس ہے، ناگزیر ہے۔

روزانہ کے آپریشنز کے لیے رواں سرمائے (working capital) کی شدید کمی قلیل مدتی معلوم ہوتی ہے لیکن ان سب کا طویل مدت کے لیے مستقبل کے پروجیکٹس کی بر وقت تکمیل اور ان کا ممکن ہونا صارفین کے طلب پورا کرنے کے لیے نہایت اہم ہے اور اْن پر بھی اس کااثر پڑیگا۔ دونوں صورتوں میں، کسٹمرز کو خدمات کی فراہمی متاثر ہوگی اور اسی کے ساتھ جی ڈی پی میں اضافہ بھی متاثر ہوگا۔

اگرہم کے الیکٹرک کی مثال لیں تو تجارتی طبقے کی بجلی کی طلب میں 75 فیصد کمی آئی ہے۔ صنعتی طبقے کی جانب سے بجلی کااستعمال 55 فیصد تک کم ہواہے جب کہ رہائشی صارفین کی جانب سے بجلی کااستعمال 25 فیصد تک بڑھ چکا ہے۔21مارچ،2020ء سے شروع ہونے والی تالا بندی کے نتیجے میں کے الیکٹرک کی ریکوریز میں بھی غیر معمولی کمی ہوئی ہے اور تجارتی و رہائشی شعبے میں ممکنہ نقصانات 65-55 فیصد تک پہنچ گئے ہیں جب کہ صنعتی شعبے میں نقصانات 90-80فیصد کی غیرمعمولی سطح تک پہنچ گئے ہیں۔


مختلف شعبوں سے ریکوریز میں اِس کمی کا مجموعی اثر، اور صارفین کی بعض کیٹگریز کے لیے بلوں کی ادائیگی میں التواء ، ISPA اور FCA کی وصولی میں التواء کے ساتھ وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور اْن کے محکموں سے واجبات کی وصولی میں التواء جیسی رعایتوں کے اثرات کی مالیت بھی کے الیکٹرک کے لیے، اب تک 240ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔

جب تک حکومت پاکستان کی جانب سے اِس شگاف کو پر نہیں کیا جاتا ہے، پاور سیکٹرکے لیے مالی بحران برقرار رہے گا کیونکہ کسی بھی قسم کی لچک یا مضبوطی بجلی کی فراہمی کو یقینی تحفظ فراہم نہیں کر سکتی جب تک کہ مالی رکاوٹوں کو دور نہ کیا جائے۔ پاور یوٹیلیٹیز کے لیے مالی اور آپریشنل دشواریوں سے نمٹنے کی غرض سے بہت زیادہ متاثر علاقوں میں طلب میں اضافے کے لیے سرکاری اور ریگولیٹری مداخلتوں کے علاوہ دیگر ایڈجسٹمنٹس بھی ضروری ہیں۔

سبسڈیز اور ریفنڈز جیسے ریلیف کے اقدامات کا اعلان، جن میں بیروزگاری اور آمدنی کی مختلف سطحوں کے خاتمے کو زیادہ اثر پذیر خیال کیا گیا ہے، التواء کا شکار ادائیگیوں سے زیادہ اثرات رکھتی ہیں جو انتہائی متاثر ہونیوالوں کو حقیقی ریلیف فراہم کیے بغیر یوٹیلیٹی کمپنیوں کی لیکویڈیٹی پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ حکومت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ قدرتی آفات جیسی وباؤں سے بھی نمٹنے کے اقدامات کرے۔

بجلی کے بلوں کے حوالے سے صارفین کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے مختلف ممالک نے منفرد انداز اختیار کیے ہیں۔ اگر ہم جنوبی ایشیا ء کی مارکیٹوں پر نظر ڈالیں تو ملائیشیامیں رہائشی صارفین کو اورہوٹل آپریٹرز، ٹریول اور ٹورزم کی ایجنسیاں، شاپنگ کمپلیکس، تھیم پارکس اور ایئر لائنوں کے دفاتر کو جو بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں ستمبر، 2020ء تک بجلی کے بلوں پر ڈسکاؤنٹ دیا گیا ہے۔ انڈونیشیا میں 24ملین کسٹمرز کو تین ماہ کے لیے (اپریل، مئی، جون 2020ء ) بجلی مفت فراہم کی گئی ہے اور 7 ملین کسٹمرز کوبجلی کے ٹیرف پر 50 فیصد ڈسکاؤنٹ دیا گیا ہے اور اِن دونوں کے لیے رقم 24.9 ارب امریکی ڈالرز کا اسٹمولس پیکیج سے فراہم کی گئی ہے۔

تھائی لینڈ میں، ایسے 10ملین گھریلو صارفین کو مارچ سے جون تک کے مہینوں میں، 150یونٹس تک مفت بجلی فراہم کی گئی ہے اور ایسے صارفین جن کا میٹر 5ایمپئر سے کم ہے انھیں فروری کے مہینے میں، 3,000 یونٹس تک مختلف ڈسکاونٹس فراہم کیے گئے۔جنوبی امریکا میں برازیل کی نیشنل الیکٹرک ایجنسی نے بجلی کے شعبے سے تعلق رکھنے والی کمپنیوں کو 400 ملین امریکی ڈالرز منتقل کیے ہیں تاکہ ان کی لیکویڈیٹی یقینی بنائی جا سکے اور اسی کے ساتھ،90 دن تک عدم ادائیگی کی صورت میں بجلی کی فراہمی معطل کرنے سے بھی روک دیاہے۔

اگربجلی کی فراہمی جیسی اہم سروس کو خطرے میں ڈال دیا جائے تو اس طرح وائرس سے نمٹنے اور مریضوں کا علاج کرنے کے لیے کی جانیوالی تمام کوششیں مفلوج ہو جائینگی اور اسی کے ساتھ لازمی خدمات اور لازمی صنعتیں بھی جمود کا شکار ہو جائیں گی۔انرجی فراہم کرنیوالے اداروں پر خصوصی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ پاور سیکٹر کوایسی تباہیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے، اِس وقت بھی اور مستقبل میں بھی، یہ بات اہم ہے کہ ریکوریز کے لیے بھی کوئی روڈ میپ موجود ہو اور ریگولیٹری اور پالیسی فیصلے بھی جلد کیے جائیں تاکہ اہم قومی وسائل کا تحفظ کیا جا سکے جن میں سب سے اہم توانائی کے شعبے سے تعلق رکھنے والے اثاثے اور توانائی کا تحفظ شامل ہیں۔

(مضمون نگار چیف ایگزیکٹو آفیسر، کے الیکٹرک ہیں)
Load Next Story