ایڈز انسان کا مدافعتی نظام تباہ و برباد کرنے والی بیماری

ایڈز کیوں ہوتی ہے؟ ایچ آئی وی اور ایڈز میں کیا فرق ہے؟ اس سے کیسے محفوظ رہا جاسکتاہے؟

فوٹو : فائل

فواد کی دوستی اپنے سے بڑی عمر کے بچوں سے تھی۔ اس کے ماں باپ دونوں دن رات محنت مزدوری میں لگے رہتے لہذا اس پر کڑی نظر نہ رکھ سکے۔ چند دن سے وہ کچھ چڑچڑا سا ہوگیا تھا، اسے ہلکا بخار اور سستی رہنے لگی، اس کا وزن تیزی سے گھٹنے لگا۔ ایک دن کھانا کھاتے پانی پینے کے لئے اٹھا اور وہیں گر کر بے ہوش ہوگیا۔ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا، وہ بے حد پریشان ہوگئے، اسے ڈاکٹروں کے پاس لئے لئے پھرتے رہے مگر اس کی صحت دن بدن خراب ہوتی جارہی تھی۔ ڈاکٹروں نے اس کے ٹیسٹ کروائے تو پتہ چلا کہ اسے ایڈز ہے جو ایک لاعلاج اور مہلک بیماری ہے۔

تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ فواد نشے کا عادی تھا۔ ادویات کا نشہ کرتے کرتے خود کو نشے کے ٹیکے لگانے لگا۔ کسی متاثرہ سرنج سے ایڈز کا خطرناک وائرس اس کے خون میں شامل ہوگیا۔ فواد کی عمر صرف 26 برس ہے، وہ اپنے ماں باپ کا سہارا بننے کے بجائے ان کے لئے آزمائش بن گیاہے۔ یہ پورا خاندان سخت اذیت میں مبتلا ہے، طعنے اور رسوائی ان کا مقدر بن گئی ہے۔

فواد کے دانت گرگئے ہیں، بال سفید ہوگئے ہیں اور جسم زخموں اور خراشوں سے چھلنی۔ اس کی ماں نے اس کی پرانی تصویر دکھائی جس میں وہ ایک خوبرو نوجوان تھا لیکن اس کی حالیہ تصویر ایک ستر سالہ بوڑھے کے مانند ہے۔ وہ کہتا ہے کہ زندگی نے اس کے ساتھ دھوکہ کیا حالانکہ اس نے خود اپنی زندگی سے کھیلا ہے۔ کاش! وہ جانتا کہ زندگی اللہ تعالیٰ کی امانت ہے اور امانت کو مالک کی مرضی کے مطابق ہی استعمال کیا جاسکتاہے۔( مریض کے اصرار پر نام بدل کر لکھاگیا)

ایڈز دنیا کی خطرناک ترین بیماری ہے۔ اس سے متاثرہ شخص کا مدافعتی نظام تباہ ہوجاتاہے۔ وہ معمولی جراثیم کا مقابلہ بھی نہیں کرپاتا۔ یہ جنسی بیماری ہے جو بعدازاں خون کے انتقال کے باعث دوسروں تک منتقل ہوسکتی ہے جو ایچ آئی وی(Human Immuno Deficiency Virus) سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ وائرس انسان کے جس میں بننے والے سفید خلیوں کو تباہ کردیتاہے اور بیماریوں اور جراثیم کے خلاف مدافعت ختم ہوجاتی ہے۔ یہ جان لیوا مرض ہے اور جان بھی اس طرح لیتاہے کہ انسان سسک سسک کر زندگی گزارتا اور پھر عبرت ناک موت مرتاہے۔ ایچ آئی وی کو آپ ایڈز کی ابتدا اور ایڈز کو HIV کی انتہا کہہ سکتے ہیں۔

ایسوسی ایشن آف پیپل لونگ ود ایچ آئی وی ،اسلام آباد میں بطور کاؤنسلر کام کرنے والی خاتون مریم صفدرنے بتایا کہ ایڈز کے مریض خود کو سب سے چھپاتے پھرتے ہیں۔ اپنے مرض کو اپنے لئے لعنت تصور کرتے ہیں۔

توقیر نامی ایک مریض اپنی تمام تر ناپسندیدہ سرگرمیوں پر نادم ہے۔ اپنے گھر میں شریک حیات کے ہوتے ہوئے وہ غیرمحتاط اور غیرفطری تعلقات رکھتاتھا۔ اس کی بیوی اس کی حرکات سے تنگ آکر کئی بار میکے گئی لیکن پھر بھی اس کے اندر کا شیطان اسے گناہ پر اکساتا رہتا۔ توقیر کا کہناہے کہ اس نے اپنی پاکباز بیوی کو بھی گھناؤنے مرض میں مبتلا کردیا۔ باقی تمام مریض اپنا نام چھپانے کا کہہ رہے تھے لیکن توقیر کا کہناتھا کہ اس کا نام ظاہر کیا جائے تاکہ لوگ اس سے عبرت حاصل کریں۔ اس نے قارئین سے اپیل کی کہ وہ اس کی خاطر اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کریں تاکہ اس کی یہ زندگی تو اس کے لئے سزا ہے ، آخرت ہی آسان ہو جائے۔

ایک مریض جس کا نام حق نواز ہے، کا کہناہے کہ لوگ ہم سے نفرت کرتے ہیں حالانکہ ہرکوئی گناہوں کے نتیجے میں اس بیماری کو نہیں بھگت رہا۔کئی افراد کو بدنصیبی اس مقام پر لے کر آئی ہے ۔ نفرت تو ان ذرائع سے کرنی چاہئے جو اس مرض کو دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ حق نواز نے دندان ساز سے دانتوں کا علاج کرایا اور اس کے بعد وہ بیمار رہنے لگا۔ تحقیق سے پتہ چلا کہ وہ ایچ آئی وی پازیٹو ہے۔ اس کے سب رشتے دار اسے چھوڑ گئے۔ وہ کہتاہے:'' زندگی کا تو کسی کی بھی بھروسہ نہیں۔البتہ ایڈز کے مریض جو تکلیف دہ زندگی گزار رہے ہیں انھیں اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے کا اور توبہ کرنے کا موقع مل جاتاہے۔ اور اللہ تعالیٰ معاف کرتاہے اور معاف کرنے والوں کو پسند کرتاہے''۔

میں نے دیکھا ان مریضوں میں موت سے زیادہ اللہ کا خوف ہے، وہ بات بات پر اللہ سے معافی مانگتے ہیں۔ ہمیں پتہ چلا کہ بہت سے مریض خودکشی کی کوشش بھی کرتے ہیں تاکہ مر کر ان کی زندگی کی تکلیف ختم ہوجائے۔ ایک مریض جس نے نام ظاہر کرنے سے منع کیا، کہہ رہاتھا کہ میں سوچتاہوں کہ اگر موت نہ ہوتی تو میں کس آس پر جیتا۔ یہ مایوسی اسے ایڈز میں مبتلا ہونے کے بعد ہوئی۔

سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ گناہ کیا وہی ہے جو نظر آجائے۔ کیا وہ سب لوگ گناہ نہیں کررہے جنھوں نے محض سستے علاج کے نام پر بے گناہ سادہ لوگوں کو ایڈز تحفے میں دیدی۔ عبدالغفور کو عطائی کی لاپرواہی نے ایچ آئی پازیٹو کردیا۔ معمولی نزلہ و زکام کے علاج کے لئے اپنے گاؤں کے مشہور ڈاکٹر طالب حسین کے پاس گیا جو لوگوں کی نظر میں بڑا باصلاحیت اور ماہر ڈاکٹر تھا لیکن حقیقت میں وہ کسی ڈاکٹر کا ڈسپنسر رہنے کے بعد بطور ڈاکٹر سرگودھا کے ایک دور دراز گاؤں میں چھوٹا سا کلینک بنا کر بیٹھ گیا وہ بظاہر ایک ہمدرد اور نیک صفت انسان تھا۔ گاؤں کے مسکین اور ضرورت مند افراد کو مفت دوا بھی دیتا لیکن ایک ہی سرنج کے استعمال سے اس نے عبدالغفور جیسے نہ جانے کتنے لوگوں کو موت سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور کردیا۔ اب ہم اسے مسیحا کہیں یا قاتل؟

سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ایڈز انسان تک بن مانس کے ذریعے پہنچا۔ جنوبی افریقہ کے لوگ بن مانس کا شکار کرتے اور اس کا گوشت کھاتے۔ دوران شکار کسی شکاری کو زخم آنے سے بن مانس کا خون اس کے جسم میں داخل ہوگیا۔70 کی دہائی میں امریکا میں بھی ایڈز کا مریض پایاگیا جس کی کیس ہسٹری سے پتہ چلا کہ وہ ہم جنس پرست تھا۔

2017ء میں دنیا میں 36.9ملین ایڈز کے مریض تھے ان میں سے 1.8 ملین 15سال تک کے بچے تھے اور ایک دن میں 500 نئے مریض اندازاً رجسٹر کئے جاتے ہیں۔ پاکستان دوسرا بڑا مسلم ملک ہے جہاں یہ مرض پھیل رہاہے۔ اگرچہ یہاں مریضوں کی تعداد کم ہے لیکن بیماری پھیلنے کا تناسب دن بدن بڑھ رہاہے۔ کسی اسلامی ملک میں ایسے مرض کا یہ تناسب بے حد شرمناک ہے۔ پاکستان ایڈز کنٹرول پروگرام کے تخمینے کے مطابق پاکستان میں ایک لاکھ بیس ہزار ایچ آئی پازیٹو ہیں جن میں 17000ظاہر باقی گم شدہ ہیں۔

مینیجر کمیونیکیشن پنجاب ایڈز پروگرام سجاد حفیظ کے مطابق 1987ء میں خلیجی ممالک سے پہلا مریض پاکستان آیا، اسی سال ایک خاتون اور اس کا بچہ ایچ آئی وی پازیٹو پایاگیا۔ ان کا تعلق راولپنڈی سے تھا۔ اس وقت پاکستان میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد تقریباً 800ملین ہے۔ زیادہ تر متاثرہ افراد دیہاتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ نیشنل ایڈز پروگرام کی رپورٹ کے مطابق پنجاب میں 75000، سندھ میں 60000، کے پی کے میں 16,322 اور بلوچستان میں 5275، اس کے علاوہ اسلام آباد می 6675 ایڈز کے رجسٹرڈ مریض پائے جاتے ہیں۔سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کے مطابق کراچی میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد سب سے زیادہ بتائی گئی ہے۔ تاحال پاکستان کے عام طبقے میں یہ بیماری عام نہیں ہے بلکہ تین طبقات اس کا شکار ہیں:

1۔ سرنج کے استعمال سے متاثرہ افراد،

2۔ عطائیوں سے متاثرہ افراد،

3۔ غیرمحتاط اور غیرفطری تعلقات رکھنے والے۔


لاہور میں چھ ماہ سے ایک ہیجڑے سے باقاعدہ ایڈز کی دوا لینے والے لوگوں کی تعداد 1700 کے قریب ہے جن میں 1210مرد اور 415خواتین ہیں۔خواتین میں زیادہ تر وہ خواتین شامل ہیں جنھیں ان کے شوہر یا کسی عطائی کی لاپرواہی نے ایڈز میں مبتلا کیا تاہم قلیل تعداد ایسی خواتین کی بھی ہے جو جسم فروشی کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ جیلوں میں مقید قیدیوں کے اندر بھی یہ بیماری پائی جاتی ہے۔

ایڈزکنٹرول پروگرام نے بھی ایڈز کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے جنگی بنیادوں پر کام شروع کردیاہے۔ بیماری کے پھیلاؤ میں عطائیت کا بہت اہم کردار ہے، پنجاب بھر کے 38جیلوں میں قیدیوں کے طبی معائنے کاکام بھی جاری و ساری ہے۔ فیچر کی تیاری کے دوران ایڈزپروگرام کے وفاقی اور صوبائی دفاتر میں فون کالز کیں، ان فونز پر ریکارڈنگ چل رہی ہے جس میں ایڈز سے متعلق ہرزبان میں معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔

ایچ آئی وی اور ایڈز میں کیا فرق ہے؟

ایک سوال جو ذہن میں آتاہے، وہ یہ کہ ایچ آئی وی اور ایڈز میں کیا فرق ہے؟اس کا جواب ڈاکٹرنسیم اختر سے ملا کہ ایچ آئی وی دراصل ایک وائرس کا نام ہے۔ یہ وائرس جسم میں داخل ہوجائے تو اس کا ابتدائی طور پر ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ایڈز لاحق ہوگیاہے لیکن ایچ آئی وی جسم میں داخل ہوکر تیزی سے نشوونما پاتاہے اور مختلف بیماریاں حملہ آور ہوناشروع ہوجاتی ہیں ۔ جب بیماریاں اس قدر بڑھ جائیں کہ جسم میں ان کے مقابلے کے لئے مدافعتی جرثومے موجود نہ رہیں تو ایڈز لاحق ہوجاتاہے۔

ایڈز دراصل ایک نہیں بے شمار بیماریوں کا مجموعہ ہے۔ ایچ آئی وی پازیٹو کا مریض ایچ آئی وی پازیٹو سے نہیں مرتا بلکہ مدافعتی نظام ختم ہونے کے باعث مختلف بیماریوں جن میں ٹی بی اور کئی قسم کے کینسر شامل ہیں، سے مریض کا خاتمہ ہوتاہے۔ اس کی علامات میں تھکن ، بھوک کا نہ لگنا، فنگل انفیکشن، لمبے عرصہ تک بخار، ہاتھ پاؤں کا جلنا، جلد کی بیماریاں، نظر کمزور ہونا ، ہیضہ ہونا، وزن کم ہونا، منہ کے اندر چھالے بار بار بننا وغیرہ شامل ہیں۔ خیال رہے کہ ان تمام علامات کا علاج کے بعد ٹھیک نہ ہونا خطرناک بیماری کی طرف اشارہ کرتاہے۔

ایڈز لاعلاج ہے، اس سے کیسے بچاجائے؟

جس طرح سیلاب کے آنے سے پہلے کا خوف لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل ہونے پر آمادہ کردیتاہے، اسی طرح اس بیماری کا خوف اور اس کی تباہ کاری کی جانکاری لوگوں کو اس سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ ایک مسلمان ہونے کے ناتے خوف خدا دل میں پیدا کرکے ہی ایسی عذاب نما بیماری سے چھٹکارا پایاجاسکتاہے ہے۔ جو اس دلدل میں پھنس گئے ہیں انھیں چھپا چھپا کر رکھنے کے بجائے ان کے انجام سے لوگوں کو آگاہ کرنا چاہئے۔ ایڈز کے مریض سے نفرت ہرگز نہ کریں، ان سے عبرت ضرور حاصل کریں۔

عطائیوں اور حجاموں کو ایڈز کے بارے میں معلومات فراہم کرنی چاہئیں اور اس بات کو یقینی بنایاجاناچاہئے کہ عطائی آلہ جراحت یا سرنج بار بار استعمال نہ کرے اور حجام ایک ہی بلیڈ سے بہت سارے گاہکوں کی شیو نہ بنائے۔ خواتین ایک دوسرے کے زیورات دیکھ بھال کر استعمال کریں کہ ان میں سے کوئی خون آلود نہ ہو، ناک کان وغیرہ چھدواتے وقت خاص خیال رکھا جائے کہ اس کے لئے جو آلہ استعمال کیا جارہاہے، بار بار استعمال تو نہیں ہوا۔

اپنا ہئیربرس (کنگھی) اور ٹوتھ برش الگ رکھیں۔ ذیل میں ان چیزوں کا ذکر کیا جارہاہے جن سے ایڈز نہیں پھیلتا۔

1۔ پیشاب اور پاخانے سے

2۔ چھینک یا جمائی لینے سے

3۔ اکٹھے کھانا کھانے سے

4۔ بغل گیر ہونے سے

5۔لباس یا تولیہ استعمال کرنے سے

پوری دنیا میں بڑھتی ہوئی جنسی بے راہ روی اور اخلاقی اقدار کی پستی کے باعث جہاں دنیا بھر میں یہ بیماری پھیل رہی ہے، وہاں پاکستان میں بھی اس کی شرح میں روز بروز اضافہ ہورہاہے۔ صحت کے مسائل کا تعلق زمینی آلودگی کے ساتھ ساتھ حلال و حرام کے فرق کو بالائے طاق رکھنے کے ساتھ بھی ہے۔ ہمیں محتاط رہناچاہئے۔
Load Next Story