قربانی
حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عظیم الشان یادگار
حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عظیم الشان یادگار۔ فوٹو:فائل
ماہ ذوالحجہ قمری سال کا آخری مہینہ ہے رب ذوالجلال نے جس طرح سال کے بارہ مہینوں میں سے رمضان المبارک کو اور پھر رمضان المبارک کے تین عشروں میں سے آخری عشرہ کو جو فضیلت بخشی ہے بعینہ ماہ ذوالحجہ کے تین عشروں میں سے پہلے عشرہ کو بھی خاص فضیلت سے نوازا گیا ہے اور اس عشرہ میں اعمال پر خاص اجروثواب رکھا گیا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے رویت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فر مایا کہ: اللہ تعالٰی کی بار گاہ میں دوسرے ایام کا کو ئی عمل عشرہ ذوالحجہ یکم ذوالحجہ سے دس ذوالحجہ کے دوران نیک عمل سے بڑھ کر پسندید ہ نہیں صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یار سول اللہ! کیا یہ جہاد فی سبیل اللہ سے بھی بڑھ کر ہے ;238;آپ ﷺ نے فر مایا: جہاد فی سبیل اللہ سے بھی بڑھ کر ہے، ہاں جو شخص جان اور مال لے کر اللہ کی راہ میں نکلا، پھر ان میں سے کوئی چیز بھی واپس لے کر نہ آیا، سب کچھ اللہ کے راستے میں قربان کردیا، بے شک یہ سب سے بڑھ کر ہے۔
عشرہ ذوالحجہ سال کے بارہ مہینوں میں بڑی ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔ تیسواں پارہ میں سورۃ الفجر کی آیات والفجر ولیال عشر میں اللہ رب العزت نے فجر اور دس راتوں کی قسم کھائی اور کسی چیز پر اللہ تعالٰی کا قسم کھانا اس چیز کی عزت اور حرمت پر دلالت کر تا ہے تو اللہ تعالٰی نے سورۃ الفجر میں قسم کھائی ہے اس بارے میں مفسرین کی ایک بڑی جماعت کا قول ہے کہ اس سے مراد ماہ ذوالحجہ کی ابتدائی دس راتیں ہیں۔
اسی طرح ایک اور روایت میں ان دس ایام کی فضیلت و اہمیت بیان فرماتے ہوئے آپ نے فر ما یا کہ : دنوں میں سے کسی دن میں بھی بندے کا عبادت کر نا اللہ کو اتنا محبوب نہیں جتنا عشرہ ذوالحجہ میں محبوب ہے، ایک اور حدیث میں جناب نبی کریم ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ: اس عشرہ کے ہر دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے اور اس کی ہر رات کے نوافل شب قدر کے نوافل کے برابر ہے یعنی ایک روزے کا ثواب بڑھا کر ایک سال کے روزوں کے ثواب کے برابر کر دیا اور ان راتوں میں سے ایک رات میں بھی اگر عبادت کی توفیق ہو گی وہ اس طرح ہے جیسے لیلۃ القدر میں عبادت کر لی ہو۔
عشرہ ذوالحجہ کا خاص الخاص عمل حج ہے اور یہ صاحب استطاعت مسلمان پر زندگی میں صرف ایک ہی دفعہ فرض کیا گیا ہے، لہٰذا اس کی خاص برکات صرف وہی لوگ حاصل کر سکتے ہیں جو بیت اللہ میں حاضر ہو کر حج کریں لیکن اللہ نے اپنے فضل کرم اور بے انتہا رحمت سے تمام اہل ایمان کو اس بات کا موقع عنایت فر ما دیا کہ وہ اپنے مقام پر رہ کر بھی حجاج کرام سے ایک طرح کی نسبت پیدا کر لیں اور ان کے کچھ اعمال میں شریک ہوجائیں۔
لہذا ذوالحجہ کا چاند دیکھتے ہی جو حکم مسلمانوں کو سب سے پہلے ملتا ہے وہ یہ ہے کہ ام الموَمنین حضرت سلمہ سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ رسول للہ ﷺ نے فرمایا کہ: جب عشرہ ذوالحجہ شروع ہو جائے اور تم میں کسی کا قربانی کر نے کا ارادہ ہو تو قربانی کر نے تک وہ جسم کے کسی حصہ کے بال اور ناخن نہ کاٹے۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے قر بانی کے روز عید منانے کا ، جو اللہ تعالٰی نے اس امت کے لیے مقرر فر مائی ہے۔ ایک شخص عرض گزار ہو اگر مجھے کچھ میسر نہ آئے سوائے اس اونٹنی یا بکری وغیرہ کے، جو دودھ دوہنے کے لیے عاریتاً یا کرائے پر ملی ہو تو کیا اس کی قر بانی پیش کردوں آپ نے فرمایا کہ نہیں! بلکہ تم اپنے بال کتراؤ، ناخن کاٹو، مونچھیں پست کرو اور موئے زیرناف صاف کرو، اللہ تعالٰی کے نزدیک بس یہی تمہاری قر بانی ہے۔
مسئلہ: یہ حکم استحبابی ہے اور صرف قربانی کر نے والوں کے ساتھ خاص ہیں اور حدیث کے الفاظ میں اس صراحت بھی ہے ، وہ بھی اس شرط سے کہ زیرناف اور بغلوں کی صفائی اور ناخن کاٹے ہوئے چالیس روز نہ گزرے ہو اور چالیس روز گزر گئے ہو تو امور مذکورہ کی صفائی واجب ہے۔
یوم عرفہ ماہ ذوالحجہ کی نو تاریخ کی احادیث میں بڑی فضیلت آئی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ: ایسا کوئی دن نہیں جس میں اللہ تعالٰی بندہ کو عرفہ کے دن سے زیادہ آ گ سے آزاد کر تا ہے یعنی عرفہ کے دن اللہ تعالٰی سب دنوں سے زیادہ بندوں کو آگ سے نجات کا پروانہ عطا فرماتے ہیں اور بلاشبہہ اس دن اللہ تعالٰی اپنی رحمت ومغفرت کے ساتھ بندوں کے قریب ہوتے ہیں پھر حج کر نے والوں کی طرف متوجہ ہو تے ہیں اور فرماتے ہیں یہ لوگ کیا چاہتے ہیں جو کچھ بھی چاہتے ہیں میں انہیں دوں گا۔
ایک اور حدیث میں حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فر ما یا کہ: عرفہ کے دن اللہ تعالٰی شان اقدس کے مطابق آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور پھر فرشتوں کے سامنے حاجیوں پر فخر کرتے ہیں اور فرماتے ہیں میرے بندوں کی طرف تو دیکھو! یہ میر ے پاس پراگندا بال، گرد آلود اور لبیک کو ذکر کے ساتھ آوازیں بلند کرتے ہوئے دور دور سے آئیں ہیں میں تمہیں اس بات پر گواہ بنا تا ہوں میں نے انہیں بخش دیا، یہ سن کر فرشتے کہتے ہیں پروردگار! ان میں فلاں شخص وہ بھی ہے جس طرف گناہ کی نسبت کی جاتی ہے اور فلاں شخص اور فلاں عورت وہ بھی ہیں جو گنہگار ہیں۔
آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ میں نے انھیں بھی بخش دیا۔ پھر رسول اللہ نے فرمایا کہ ایسا کوئی دن نہیں ہے جس میں یوم عرفہ کے برابر لو گوں کو نجات کا پروانہ عطا کیا جا تا ہو۔ اس طرح ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: دعاؤں میں بہترین دعا عرفہ کے دن کی دعا ہے اور بہترین بات وہ ہے جو میں نے کہی اور مجھ سے پہلے انبیاء نے کہی (اور وہ یہ ہے)
لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شی ء قدیر۔
یوم عرفہ کا روزہ: نبی کریم ﷺ فرمایا، یوم عرفہ یعنی نو ذوالحجہ کا روزہ ایک سال گذشتہ اور ایک سال آئند ہ کے گناہوں کفارہ ہے۔ یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جن احادیث میں کسی نیک عمل سے گناہ کے معاف ہو نے کا ذکر ہے ان سے صغیرہ گناہ مراد ہیں اور جہاں تک کبیرہ گناہوں کا تعلق ہے وہ بغیر توبہ و ندامت کے کسی عمل سے معاف نہیں ہوتے اور پھر توبہ سے بھی وہ گناہ معاف ہوتے ہیں جن تعلق حقوق اللہ سے ہو نہ کہ حقوق العباد سے۔
عشرہ ذوالحجہ کا تیسرا عمل تکبیر تشریق ہے جو یوم عرفہ یعنی نویں ذوالحجہ کے دن نماز فجر سے شروع ہوکر تیرہ تاریخ کی عصر تک جاری رہتی ہے اور تکبیرات فرض نماز کے بعد ایک مرتبہ پڑھنا مفتی بہ قول کے مطابق واجب ہے، تکبیر تشریق کے الفاظ یہ ہیں: اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد۔ اس تکبیر کو مردوں کے لیے متوسط بلند آواز سے پڑھنا واجب ہے۔
تکبیرات تشریق مرد، عورت، شہری، دیہاتی، مقیم ومسافر سب پر واجب ہے البتہ مر د متوسط بلند آواز اور عورت آہستہ آواز سے پڑھے، اللہ تعالٰی نے ان ایام کو منتخب فرمایا یعنی حج اور قر بانی کہ اللہ تعالٰی نے ان دو عبادتوں کے لیے وقت مقرر فر ما دیا ہے ان ایام و اوقات کے علاوہ دوسرے اوقات وایام میں اگر ان عبادتوں کو کیا جائے گا وہ عبادت ہی شمار نہ ہوگی لہٰذا امت محمدیہ کے لیے ماہ ذوالحجہ کے پہلے عشرہ میں یعنی صرف ذوالحجہ کی دس، گیارہ، بارہ تاریخ میں اپنے خلیل ابراہیم علیہ السلام اور ان کے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی سنت کو جاری فرمادیا اور اس قربانی کے عمل اور اپنے خلیل کے طریقے کو اس قدر پسند فرمایا کہ اپنے پیارے حبیب رحمت اللعالمینﷺ کی زبان مبارک سے اس کی بے انتہا فضیلت جا ری فرما دی اور انھیں بھی اس امر کے کرنے کا حکم دیا سو آپ اپنے پروردگار کی نماز پڑھیے اور اس کے نام کی قربانی کیجیے، حافظ ابن کثیر نے حضرت ابن عباس، حضرت عطاء، حضرت مجاہد، حضرت عکرمہ، حضرت حسن بصری، حضرت قتادہ، حضرت محمد بن کعب اور حضرت ضحاک وغیرہ ہم کا قول نقل کیا ہے کہ مشرکین عرب غیراللہ کے نام پر جانور ذبح کیا کرتے تھے۔
اس لیے رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا گیا کہ آپ اپنے رب کے نام پر جانور ذبح کریں۔ حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالٰی کے نزدیک قربانی کے دن بندوں کے تمام اعمال میں پسندیدہ ترین عمل جانور کا خون بہانا ہے اور بندہ قیامت کے دن اپنی قربانی کے سینگوں، کُھروں اور بالوں سمیت حاضر ہوگا اور قر بانی کا خون زمین پر گر نے سے پہلے پہلے اللہ تعالٰی کی بار گاہ میں شرف قبولیت حاصل کر لیتا ہے لہٰذا تمہیں چاہیے کہ خوش دلی سے قر بانی کرو۔
ایک اور حدیث میں ہے حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص استطاعت رکھنے کے باوجود قربانی نہیں کرتا وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔ایک اور حدیث میں ہے کہ حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور اس عرصہ قیام میں آپ مسلسل قر بانی فرماتے رہے۔
حضرت زید بن ارقمؓ سے روایت ہے کہ صحابہ کرامؓؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! ان قربانیوں کی کیا حقیقت ہے آپ نے فرمایا یہ تمھارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے، صحابہؓ نے عرض کیا کہ پھر ہمارے لیے یارسول اللہﷺ ان قربانیوں میں کیا اجر ہے۔ آپ نے فرمایا قربانی کے جانوروں کے ہر ہر بال کے عوض ایک نیکی، صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ صوف (اون) کے بارے میں کیا حکم ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ اون ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے۔
صاحب نصاب پر قر بانی واجب ہے اور استطاعت کے باوجود قربانی نہ کر نے والے پر رسول اللہﷺ نے سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے رسول اللہﷺ نے مدینہ منورہ کے دس سال میں ہر سال قربانی فرمائی حالانکہ حج آپ نے صرف آخری سال فرمایا۔ معلوم ہوا کہ قربانی نہ حج کے ساتھ خاص ہے نہ مکہ معظمہ کے ساتھ ہے۔
قربانی سے مقصد محض ناداروں کی مدد نہیں، بلکہ قربانی میں مقصود جانور کا خون بہانا ہے اور یہ عبادت اسی خاص طریقے سے ادا ہوگی، اور درحقیقت قربانی حضرت ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام کے اس عظیم الشان عمل کی یاد گار ہے جس میں انہوں نے اپنے لخت جگر کو ذبح کر نے کے لیے زمین پر لٹا دیا تھا اور حضرت اسمعٰیل علیہ السلام نے حکم الہی کے سامنے سر تسلیم خم کرکے ذبح ہونے کے لیے گردن پیش کر دی تھی مگر اللہ تعالٰی نے اپنا فضل فرما کر دنبہ کا فدیہ بنا دیا تھا۔ لہٰذا اس سنت ابراہیم علیہ السلام وحکم الہی پر ذبح کر کے ہی عمل ہو سکتا ہے۔
اگر کوئی شخص خود قربانی نہ کر سکے تو دوسرا اس کی طرف سے قربانی کر سکتا ہے۔ اسی طرح جو لوگ اس دنیا سے جا چکے ہیں ان کی طرف سے بھی قربانی کی جا سکتی ہے۔ قربانی کے گوشت کی تین حصے کرنے چاہییں، ایک حصہ اپنے اہل وعیال کے لیے جبکہ دوسرا حصہ رشتے داروں کے لیے اور تیسرا حصہ غریب اور نادار لوگوں کے لیے ہوگا۔
قربانی کا تصور ہر مذہب اور ملت میں رہا ہے لیکن اسلام میں یہ قرب الہی، اعتراف بندگی اطاعت شعاری کی علامت ہے۔ قربانی اس عہد کی تجدید ہے کے ہمارا جینا مرنا اور پوری زندگی اللہ کے لیے ہے ہماری زندگی کا مقصد اللہ کی بندگی ہے لہٰذا اس بندگی کے اظہار میں کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کرنا بحیثیت مسلمان ہماری زندگی اور بندگی کا شیوہ ہونا چاہیے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے رویت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فر مایا کہ: اللہ تعالٰی کی بار گاہ میں دوسرے ایام کا کو ئی عمل عشرہ ذوالحجہ یکم ذوالحجہ سے دس ذوالحجہ کے دوران نیک عمل سے بڑھ کر پسندید ہ نہیں صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یار سول اللہ! کیا یہ جہاد فی سبیل اللہ سے بھی بڑھ کر ہے ;238;آپ ﷺ نے فر مایا: جہاد فی سبیل اللہ سے بھی بڑھ کر ہے، ہاں جو شخص جان اور مال لے کر اللہ کی راہ میں نکلا، پھر ان میں سے کوئی چیز بھی واپس لے کر نہ آیا، سب کچھ اللہ کے راستے میں قربان کردیا، بے شک یہ سب سے بڑھ کر ہے۔
عشرہ ذوالحجہ سال کے بارہ مہینوں میں بڑی ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔ تیسواں پارہ میں سورۃ الفجر کی آیات والفجر ولیال عشر میں اللہ رب العزت نے فجر اور دس راتوں کی قسم کھائی اور کسی چیز پر اللہ تعالٰی کا قسم کھانا اس چیز کی عزت اور حرمت پر دلالت کر تا ہے تو اللہ تعالٰی نے سورۃ الفجر میں قسم کھائی ہے اس بارے میں مفسرین کی ایک بڑی جماعت کا قول ہے کہ اس سے مراد ماہ ذوالحجہ کی ابتدائی دس راتیں ہیں۔
اسی طرح ایک اور روایت میں ان دس ایام کی فضیلت و اہمیت بیان فرماتے ہوئے آپ نے فر ما یا کہ : دنوں میں سے کسی دن میں بھی بندے کا عبادت کر نا اللہ کو اتنا محبوب نہیں جتنا عشرہ ذوالحجہ میں محبوب ہے، ایک اور حدیث میں جناب نبی کریم ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ: اس عشرہ کے ہر دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے اور اس کی ہر رات کے نوافل شب قدر کے نوافل کے برابر ہے یعنی ایک روزے کا ثواب بڑھا کر ایک سال کے روزوں کے ثواب کے برابر کر دیا اور ان راتوں میں سے ایک رات میں بھی اگر عبادت کی توفیق ہو گی وہ اس طرح ہے جیسے لیلۃ القدر میں عبادت کر لی ہو۔
عشرہ ذوالحجہ کا خاص الخاص عمل حج ہے اور یہ صاحب استطاعت مسلمان پر زندگی میں صرف ایک ہی دفعہ فرض کیا گیا ہے، لہٰذا اس کی خاص برکات صرف وہی لوگ حاصل کر سکتے ہیں جو بیت اللہ میں حاضر ہو کر حج کریں لیکن اللہ نے اپنے فضل کرم اور بے انتہا رحمت سے تمام اہل ایمان کو اس بات کا موقع عنایت فر ما دیا کہ وہ اپنے مقام پر رہ کر بھی حجاج کرام سے ایک طرح کی نسبت پیدا کر لیں اور ان کے کچھ اعمال میں شریک ہوجائیں۔
لہذا ذوالحجہ کا چاند دیکھتے ہی جو حکم مسلمانوں کو سب سے پہلے ملتا ہے وہ یہ ہے کہ ام الموَمنین حضرت سلمہ سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ رسول للہ ﷺ نے فرمایا کہ: جب عشرہ ذوالحجہ شروع ہو جائے اور تم میں کسی کا قربانی کر نے کا ارادہ ہو تو قربانی کر نے تک وہ جسم کے کسی حصہ کے بال اور ناخن نہ کاٹے۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے قر بانی کے روز عید منانے کا ، جو اللہ تعالٰی نے اس امت کے لیے مقرر فر مائی ہے۔ ایک شخص عرض گزار ہو اگر مجھے کچھ میسر نہ آئے سوائے اس اونٹنی یا بکری وغیرہ کے، جو دودھ دوہنے کے لیے عاریتاً یا کرائے پر ملی ہو تو کیا اس کی قر بانی پیش کردوں آپ نے فرمایا کہ نہیں! بلکہ تم اپنے بال کتراؤ، ناخن کاٹو، مونچھیں پست کرو اور موئے زیرناف صاف کرو، اللہ تعالٰی کے نزدیک بس یہی تمہاری قر بانی ہے۔
مسئلہ: یہ حکم استحبابی ہے اور صرف قربانی کر نے والوں کے ساتھ خاص ہیں اور حدیث کے الفاظ میں اس صراحت بھی ہے ، وہ بھی اس شرط سے کہ زیرناف اور بغلوں کی صفائی اور ناخن کاٹے ہوئے چالیس روز نہ گزرے ہو اور چالیس روز گزر گئے ہو تو امور مذکورہ کی صفائی واجب ہے۔
یوم عرفہ ماہ ذوالحجہ کی نو تاریخ کی احادیث میں بڑی فضیلت آئی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ: ایسا کوئی دن نہیں جس میں اللہ تعالٰی بندہ کو عرفہ کے دن سے زیادہ آ گ سے آزاد کر تا ہے یعنی عرفہ کے دن اللہ تعالٰی سب دنوں سے زیادہ بندوں کو آگ سے نجات کا پروانہ عطا فرماتے ہیں اور بلاشبہہ اس دن اللہ تعالٰی اپنی رحمت ومغفرت کے ساتھ بندوں کے قریب ہوتے ہیں پھر حج کر نے والوں کی طرف متوجہ ہو تے ہیں اور فرماتے ہیں یہ لوگ کیا چاہتے ہیں جو کچھ بھی چاہتے ہیں میں انہیں دوں گا۔
ایک اور حدیث میں حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فر ما یا کہ: عرفہ کے دن اللہ تعالٰی شان اقدس کے مطابق آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور پھر فرشتوں کے سامنے حاجیوں پر فخر کرتے ہیں اور فرماتے ہیں میرے بندوں کی طرف تو دیکھو! یہ میر ے پاس پراگندا بال، گرد آلود اور لبیک کو ذکر کے ساتھ آوازیں بلند کرتے ہوئے دور دور سے آئیں ہیں میں تمہیں اس بات پر گواہ بنا تا ہوں میں نے انہیں بخش دیا، یہ سن کر فرشتے کہتے ہیں پروردگار! ان میں فلاں شخص وہ بھی ہے جس طرف گناہ کی نسبت کی جاتی ہے اور فلاں شخص اور فلاں عورت وہ بھی ہیں جو گنہگار ہیں۔
آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ میں نے انھیں بھی بخش دیا۔ پھر رسول اللہ نے فرمایا کہ ایسا کوئی دن نہیں ہے جس میں یوم عرفہ کے برابر لو گوں کو نجات کا پروانہ عطا کیا جا تا ہو۔ اس طرح ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: دعاؤں میں بہترین دعا عرفہ کے دن کی دعا ہے اور بہترین بات وہ ہے جو میں نے کہی اور مجھ سے پہلے انبیاء نے کہی (اور وہ یہ ہے)
لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شی ء قدیر۔
یوم عرفہ کا روزہ: نبی کریم ﷺ فرمایا، یوم عرفہ یعنی نو ذوالحجہ کا روزہ ایک سال گذشتہ اور ایک سال آئند ہ کے گناہوں کفارہ ہے۔ یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جن احادیث میں کسی نیک عمل سے گناہ کے معاف ہو نے کا ذکر ہے ان سے صغیرہ گناہ مراد ہیں اور جہاں تک کبیرہ گناہوں کا تعلق ہے وہ بغیر توبہ و ندامت کے کسی عمل سے معاف نہیں ہوتے اور پھر توبہ سے بھی وہ گناہ معاف ہوتے ہیں جن تعلق حقوق اللہ سے ہو نہ کہ حقوق العباد سے۔
عشرہ ذوالحجہ کا تیسرا عمل تکبیر تشریق ہے جو یوم عرفہ یعنی نویں ذوالحجہ کے دن نماز فجر سے شروع ہوکر تیرہ تاریخ کی عصر تک جاری رہتی ہے اور تکبیرات فرض نماز کے بعد ایک مرتبہ پڑھنا مفتی بہ قول کے مطابق واجب ہے، تکبیر تشریق کے الفاظ یہ ہیں: اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد۔ اس تکبیر کو مردوں کے لیے متوسط بلند آواز سے پڑھنا واجب ہے۔
تکبیرات تشریق مرد، عورت، شہری، دیہاتی، مقیم ومسافر سب پر واجب ہے البتہ مر د متوسط بلند آواز اور عورت آہستہ آواز سے پڑھے، اللہ تعالٰی نے ان ایام کو منتخب فرمایا یعنی حج اور قر بانی کہ اللہ تعالٰی نے ان دو عبادتوں کے لیے وقت مقرر فر ما دیا ہے ان ایام و اوقات کے علاوہ دوسرے اوقات وایام میں اگر ان عبادتوں کو کیا جائے گا وہ عبادت ہی شمار نہ ہوگی لہٰذا امت محمدیہ کے لیے ماہ ذوالحجہ کے پہلے عشرہ میں یعنی صرف ذوالحجہ کی دس، گیارہ، بارہ تاریخ میں اپنے خلیل ابراہیم علیہ السلام اور ان کے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی سنت کو جاری فرمادیا اور اس قربانی کے عمل اور اپنے خلیل کے طریقے کو اس قدر پسند فرمایا کہ اپنے پیارے حبیب رحمت اللعالمینﷺ کی زبان مبارک سے اس کی بے انتہا فضیلت جا ری فرما دی اور انھیں بھی اس امر کے کرنے کا حکم دیا سو آپ اپنے پروردگار کی نماز پڑھیے اور اس کے نام کی قربانی کیجیے، حافظ ابن کثیر نے حضرت ابن عباس، حضرت عطاء، حضرت مجاہد، حضرت عکرمہ، حضرت حسن بصری، حضرت قتادہ، حضرت محمد بن کعب اور حضرت ضحاک وغیرہ ہم کا قول نقل کیا ہے کہ مشرکین عرب غیراللہ کے نام پر جانور ذبح کیا کرتے تھے۔
اس لیے رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا گیا کہ آپ اپنے رب کے نام پر جانور ذبح کریں۔ حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالٰی کے نزدیک قربانی کے دن بندوں کے تمام اعمال میں پسندیدہ ترین عمل جانور کا خون بہانا ہے اور بندہ قیامت کے دن اپنی قربانی کے سینگوں، کُھروں اور بالوں سمیت حاضر ہوگا اور قر بانی کا خون زمین پر گر نے سے پہلے پہلے اللہ تعالٰی کی بار گاہ میں شرف قبولیت حاصل کر لیتا ہے لہٰذا تمہیں چاہیے کہ خوش دلی سے قر بانی کرو۔
ایک اور حدیث میں ہے حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص استطاعت رکھنے کے باوجود قربانی نہیں کرتا وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔ایک اور حدیث میں ہے کہ حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور اس عرصہ قیام میں آپ مسلسل قر بانی فرماتے رہے۔
حضرت زید بن ارقمؓ سے روایت ہے کہ صحابہ کرامؓؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! ان قربانیوں کی کیا حقیقت ہے آپ نے فرمایا یہ تمھارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے، صحابہؓ نے عرض کیا کہ پھر ہمارے لیے یارسول اللہﷺ ان قربانیوں میں کیا اجر ہے۔ آپ نے فرمایا قربانی کے جانوروں کے ہر ہر بال کے عوض ایک نیکی، صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ صوف (اون) کے بارے میں کیا حکم ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ اون ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے۔
صاحب نصاب پر قر بانی واجب ہے اور استطاعت کے باوجود قربانی نہ کر نے والے پر رسول اللہﷺ نے سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے رسول اللہﷺ نے مدینہ منورہ کے دس سال میں ہر سال قربانی فرمائی حالانکہ حج آپ نے صرف آخری سال فرمایا۔ معلوم ہوا کہ قربانی نہ حج کے ساتھ خاص ہے نہ مکہ معظمہ کے ساتھ ہے۔
قربانی سے مقصد محض ناداروں کی مدد نہیں، بلکہ قربانی میں مقصود جانور کا خون بہانا ہے اور یہ عبادت اسی خاص طریقے سے ادا ہوگی، اور درحقیقت قربانی حضرت ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام کے اس عظیم الشان عمل کی یاد گار ہے جس میں انہوں نے اپنے لخت جگر کو ذبح کر نے کے لیے زمین پر لٹا دیا تھا اور حضرت اسمعٰیل علیہ السلام نے حکم الہی کے سامنے سر تسلیم خم کرکے ذبح ہونے کے لیے گردن پیش کر دی تھی مگر اللہ تعالٰی نے اپنا فضل فرما کر دنبہ کا فدیہ بنا دیا تھا۔ لہٰذا اس سنت ابراہیم علیہ السلام وحکم الہی پر ذبح کر کے ہی عمل ہو سکتا ہے۔
اگر کوئی شخص خود قربانی نہ کر سکے تو دوسرا اس کی طرف سے قربانی کر سکتا ہے۔ اسی طرح جو لوگ اس دنیا سے جا چکے ہیں ان کی طرف سے بھی قربانی کی جا سکتی ہے۔ قربانی کے گوشت کی تین حصے کرنے چاہییں، ایک حصہ اپنے اہل وعیال کے لیے جبکہ دوسرا حصہ رشتے داروں کے لیے اور تیسرا حصہ غریب اور نادار لوگوں کے لیے ہوگا۔
قربانی کا تصور ہر مذہب اور ملت میں رہا ہے لیکن اسلام میں یہ قرب الہی، اعتراف بندگی اطاعت شعاری کی علامت ہے۔ قربانی اس عہد کی تجدید ہے کے ہمارا جینا مرنا اور پوری زندگی اللہ کے لیے ہے ہماری زندگی کا مقصد اللہ کی بندگی ہے لہٰذا اس بندگی کے اظہار میں کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کرنا بحیثیت مسلمان ہماری زندگی اور بندگی کا شیوہ ہونا چاہیے۔