سیاسی ناٹک، پارلیمانی ڈرامے

 راؤ محمد شاہد اقبال  اتوار 23 اگست 2020
مختلف ممالک کے منتخب ایوانوں، حکم رانوں اور سیاست دانوں  کے دل چسپ واقعات  ۔  فوٹو  فائل

مختلف ممالک کے منتخب ایوانوں، حکم رانوں اور سیاست دانوں کے دل چسپ واقعات ۔ فوٹو فائل

کہا جاتاہے کہ سابق صدر مملکت پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں ہونے والے 2006 کے انتخابات کے نتیجہ میں پاکستان کی تاریخ میں سب سے تعلیم یافتہ قومی اسمبلی وجود میں آئی تھی۔ اسی تعلیم یافتہ اسمبلی کے پہلے اجلاس میں اراکین اسمبلی سے حلفِ وفاداری لیا جا رہا تھا اور تمام منتخب پارلیمانی اراکین کے ہاتھ میں کاغذات تھے، جن پر حلف کی مکمل عبارت لکھی تھی۔

حلف برداری کی اس تقریب میں سب سے پہلے اِسپیکر قومی اسمبلی نے ارکان کو بتایا کہ میں آپ سے حلف لینے کے لیے حلف کی عبارت کو پڑھوں گا اور آپ میرے ساتھ ساتھ اسے دہرائیں گے۔

اسپیکرقومی اسمبلی: میں۔

منتخب اراکین: میں۔

اسپیکر قومی اسمبلی: آگے اپنا اپنا نام لیں۔

منتخب اراکین: آگے اپنا اپنا نام لیں۔

اور اس کے بعد قومی اسمبلی کا ایوان میں ایک فلک شگاف اجتماعی قہقہہ بلند ہوا، یعنی پارلیمانی ارکان اپنی قابلیت پر خود ہی ہنس رہے تھے اور پاکستانی قوم دم بخود یہ مناظر اپنے اپنے ٹی وی اسکرین پر براہ راست ملاحظہ کررہی تھی۔

دنیا بھر میں پارلیمان کا ایوان اور اراکین پارلیمان کو ہر لحاظ سے معزز اور محترم خیال کیا جاتا ہے، کیوںکہ اراکین پارلیمان اپنے اپنے ملک کے لیے قانون سازی، انتظامی اُمور میں بہتری اور سفارتی اُمور کی نوک پلک سنوارنے جیسے اہم اور سنجیدہ نوعیت کی خدمات انجام دیتے ہیں، لیکن کبھی کبھار ہمارے یہ معزز اراکین پارلیمان سیاست کے تیزرو دریا میں بہہ کر یا کسی سیاسی ترنگ میں آکر کبھی جان بوجھ کر اور کبھی ان جانے میں ایسی حرکتیں اور پارلیمانی ڈرامے بھی کر گزرتے ہیں کہ دیکھنے والے حیرت و استعجاب میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔

دنیا بھر کے پارلیمانی نمائندوں کے کچھ ایسی ہی غیرپارلیمانی حرکتوں، شگفتہ غلطیوں، طیش آمیز رویوں اور فقیدالمثال پارلیمانی ڈراموں پر مشتمل سیاسی آمیزہ قارئین کے ذوق مطالعہ کے لیے پیش خدمت ہے۔

٭جسٹن ٹروڈو ایک سپرمین وزیراعظم

کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کے لیے تنازعات کوئی اجنبی چیز نہیں ہیں بلکہ یوں کہیے کہ انہیں تنازعات میں رہنے کا خاص شوق ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جسٹن ٹروڈ اکثر و بیشتر جان بوجھ کر بھی ایسی حرکتیں کر گزرتے جن کی وجہ سے تنازعات کسی مقناطیس کی مانند اُن کی جانب کھنچے چلے آتے ہیں۔ جسٹن ٹروڈو کا پہناوا، بھی بے شمار بار بریکنگ نیوز کی زینت بنتا رہا ہے۔

مثال کے طور پر 31 اکتوبر 2017 کو جسٹن ٹروڈو وزیراعظم کی حیثیت سے پارلیمان میں پہنچے تو انہوں نے بلیوکوٹ، سفید شرٹ اور سرخ رنگ کی ٹائی لگائی ہوئی تھی، بلاشبہہ یہ لباس ایک کینیڈین وزیراعظم کی بھرپور عکاسی کرتا تھا، لیکن جیسے ہی جسٹن ٹروڈو پارلیمینٹ میں میڈیا کے کیمروں کے سامنے آئے۔ انہوں نے انتہائی عجلت میں اپنی ٹائی کھولی اور شرٹ اُتار کر ایک طرف پھینک دی۔ پارلیمنٹ کے ارکان اور میڈیا کوریج کے لیے آنے والا پریس یہ دیکھ کر دم بخود ہوگیا کہ کینیڈا کے وزیراعظم نے سپرمین کا لباس زیب تن کیا ہوا تھا۔

سپرمین کے لباس میں نہ صرف جسٹن ٹروڈو نے میڈیا سے اپنے فوٹو شوٹ کروایا، بات چیت کی، بلکہ وزیراعظم ہاؤس میں وہ تمام پارلیمانی اور انتظامی اُمور بھی شام تک سپر مین کے اسی عجیب و غریب لباس میں انجام دیتے رہے۔ سپر مین کا لباس پہننے پر کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کا موقف تھا کہ ’’وہ دنیا کے سامنے اپنے آپ کو ایک سپر مین وزیراعظم کے روپ میں متعارف کروانا چاہتے ہیں اور اسی لیے وہ آج اپنے گھر سے سپرمین کا لباس زیب تن کر کے آئے تھے۔‘‘

جسٹن ٹروڈو کے سپرمین والا لباس پہن کر وزیراعظم کے انتظامی اُمور انجام دینے کے عمل کو کینیڈا کے بعض شہریوں نے پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جب کہ کچھ افراد خاص طور پر پارلیمان میں موجود حزب اختلاف کے راہ نماؤں کا خیال تھا کہ جسٹن ٹروڈو نے وزیراعظم کی حیثیت سے سپرمین کا لباس پہن کر کینیڈا کی پارلیمنٹ کے ’’ڈریس کوڈ ‘‘ کی کھلی خلاف ورزی کی ہے، جس پر پارلیمان میں اُن سے باز پرس ہونی چاہیے۔

یاد رہے کہ کینیڈا کی پارلیمنٹ کے ہر رکن کے لیے پارلیمنٹ میں داخلہ کے لیے لباس کا ضابطہ موجود ہے۔ یعنی پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران مرد رکن پارلیمنٹ سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ پینٹ، شرٹ کے ساتھ نیلے رنگ کا کوٹ زیب تن کرے گا۔ یہ کینیڈین پارلیمنٹ کی برسوں پرانی روایت ہے جسے کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے تھوڑی سی سیاسی توجہ حاصل کر نے کے لیے پامال کردیا۔ بہرحال جسٹن ٹروڈو سپر مین کا لباس پہن کر سپرمین وزیراعظم بننے میں تو کام یاب نہ ہوسکے لیکن انہوں نے اپنی غیرمتوقع اداکاری سے پارلیمانی ڈرامے میں حیرت و استعجاب کے رنگ ضرور بھر دیے۔

٭صدر ٹرمپ نے ہاتھ نہیں ملایا، نینسی پیلوسی نے تقریر پھاڑ ڈالی

ڈونلڈ ٹرمپ اور نینسی پیلوسی نے 2015 میں جب ٹرمپ کے صدر کے عہدے کا امیدوار ہونے کا اعلان کیا تھا تب سے لے کر اَب تک وہ ایک دوسرے کی سخت سیاسی حریف رہے ہیں۔ 4 فروری 2020 کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سینیٹ میں اسٹیٹ آف دی یونین خطاب سے قبل امریکی کانگرس کی اسپیکر نینسی پلوسی سے مصافحہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

ٹرمپ کی تقریر کے دوران پلوسی نے ایک گھنٹہ اور اٹھارہ منٹ کا وقت امریکی صدر کی پُشت پر بیٹھ کر رنجیدگی اور کڑھن میں گزارا اور جیسے ہی ٹرمپ نے تقریر مکمل کرنے کے بعد اپنے خطاب کی سرکاری کاپی پلوسی کے حوالے کی، نینسی پلوسی نے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے صدر سے مصافحہ کرنا چاہا لیکن صدر ٹرمپ اِس بار بھی انہیں دانستہ نظرانداز کرکے آگے بڑھ گئے تو جواباً نینسی پلوسی نے بھی امریکی صدر کی تقریر کا مسودہ پھاڑ کر، کاغذ کے پُرزے ہوا میں اُڑا دیے۔

یاد رہے کہ امریکی صدر کے اسٹیٹ آف یونین خطاب سے قبل یہ روایت رہی ہے کہ اسپیکر کی جانب سے صدر کا خیرمقدم کیا جاتا ہے اور اُن کی یہاں موجودگی کو اعزاز سمجھنے جیسے کلمات کہے جاتے ہیں۔ لیکن ٹرمپ کے خطاب سے قبل اسپیکر نینسی پلوسی نے صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ ’’معزز اراکین کانگریس، امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ۔‘‘

صدر کی تقریر کی کاپی پُرزے پُرزے کردینے کے بعد ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں نینسی پلوسی نے اپنے اس اقدام سے متعلق کہا کہ ’’اُن کے نزدیک امریکی صدر کی تقریر کا اس سے شائستہ کوئی اور متبادل جواب نہیں ہوسکتا تھا۔‘‘ نیز نینسی پلوسی نے ٹوئٹر پر صدر ٹرمپ سے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھانے کی تصویر شائع کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ہم عوامی مفادات کے لیے دوستی کا ہاتھ بڑھاتے رہیں گے لیکن جہاں اُصول کی بات ہو گی وہاں ڈٹے رہیں گے۔‘‘

دل چسپ بات یہ ہے کہ امریکی صدر اور اسپیکر نینسی پلوسی کا آمنا سامنا لگ بھگ چار ماہ بعد ہوا تھا۔ اس سے قبل گذشتہ سال اکتوبر میں ہونے والی ایک ملاقات میں بھی نینسی پلوسی اور ٹرمپ کے درمیان تند و تیز جملوں کا تبادلہ ہوچکا ہے۔ اُس وقت امریکی صدر کو یہ گلہ رہا ہے کہ نینسی پلوسی نے اُن کے خلاف مواخذے کی راہ ہموار کی، جو قطعی طور پر امریکا کے مفاد میں نہیں ہے، جب کہ اسپیکر نینسی پلوسی کا یہ موقف رہا ہے کہ امریکی صدر کے عہدے کا وقار بحال کرنے کے لیے صدر کا مواخذہ ضروری ہے۔

 ٭ولادی میر پیوٹن نے چینی خاتون اول کی مدد کی، لیکن۔۔۔

چین کے شہر بیجنگ میں 2014 کے ایشیا پیسیفک سربراہی کانفرنس کا اجلاس پورے زوروشور کے ساتھ جاری تھا اور اجلاس میں شریک ہر عالمی راہ نما اپنے ساتھ تشریف فرما، دوسرے راہ نما کے ساتھ اہم ترین سفارتی معاملات پر گفت و شنید میں مصروف تھا کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی نظر اچانک چینی خاتونِ اول پینگ لیؤان پر جاٹکی، جو سخت سرد موسم کے باعث سردی سے بری طرح کپکپا رہی تھیں۔

لہٰذا روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے چینی خاتون اوّل کی حالت زار کو ملاحظہ کرتے ہوئے ازراہِ ہمدردی اپنی جیکٹ پہننے کے لیے چینی خاتون اول کو پیش کردی، جسے چینی خاتونِ اوّل پینگ لیؤان نے شکریے کے ساتھ قبول کرتے ہوئے زیب تن کرلیا، مگر اگلے ہی لمحہ خاتون کی اوّل کی نگاہ اپنے شوہر یعنی چینی صدر شی ژنگ پن پر پڑی جو امریکی صدر باراک اوباما کے ساتھ کسی اہم ترین موضوع پر محوگفتگو تھے، جس کے بعد چینی خاتون اوّل پینگ کو احساس ہوا کہ اُن کا یہ طرزعمل اُن کے شوہر اور اُن کے ملک کے لیے سیاسی سُبکی اور شرمندگی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

یہ سوچ کر خاتون اول پینگ نے روسی صدر ولادیمیر کی دی ہوئی جیکٹ اُتار کر اپنے پاس ہی کھڑے ہوئے ایک اہل کار کے حوالے کردی۔ بدقسمتی سے اَب بہت دیر ہوچکی تھی اور چینی اور بین الاقوامی میڈیا کے کیمروں کی باریک بیں نگاہوں نے یہ مناظر اپنے اپنے نیوز چینلز کو بھیجنے کے لیے محفوظ کرلیے تھے۔ اس واقعے کے بعد کئی ہفتوں تک بین الاقوامی اور چینی ذرائع ابلاغ میں چینی خاتون اول اور روسی صدر کی یہ ویڈیو زیرگردش کرتی رہی ۔ چینی عوام نے اپنی خاتون اول پینگ پر سوالات کی بوچھاڑ کردی کہ آخر بیجنگ کے سخت سرد موسم کے باری میں مکمل آگاہی رکھنے کے باوجود چینی خاتون اول نے سردی سے بچنے کے لیے مناسب لباس پہننے کی زحمت کیوں گوار نہیں کی۔

بعض نے تو یہاں تک اعتراضات کیے کہ بین الاقوامی سطح پر منعقد ہونے والی سرکاری تقریبات، فیشن شو یا فلم کا سیٹ نہیں ہوتا کہ جہاں اپنی خوب صورتی کی نمائش کے لیے ڈراما کیا جائے۔ اِس واقعے پر چین میں اتنا تنازعہ بڑھا کہ بالآخر چین میں اس واقعے کے حوالے سے کسی بھی ویڈیو، فوٹیج، تبصرے کی نشرواشاعت پر ملک بھر میں پابندی عائد کردی گئی۔

٭نیند کے کچے پارلیمانی راہ نما

جیکب زوما جنوبی افریقہ کے سب سے زیادہ متنازعہ صدرو میں سے ایک ہیں۔ کرپشن، اقربا پروری، اختیارات کا ناجائز استعمال اور جنسی ہراسگی سمیت شاید ہی کوئی ایسا الزام باقی بچا ہو، جو اِن کے دورِحکومت میں جیکب زوما پر عائد نہ کیا گیا ہو۔ عجیب بات یہ ہے کہ سنگین ترین الزامات کے سائے میں دورِاقتدار کو قائم رکھنے والے جیکب زوما ایک چھوٹے سے پارلیمانی واقعے پر استعفا دینے پر مجبور ہوگئے۔

قصہ کچھ یوں ہے کہ 2 نومبر 2016 کو پارلیمنٹ میں قومی بجٹ پر تقریر سننے کے دوران جیکب زوما گہری نیند میں چلے گئے اور کسی کو احساس نہ ہوسکا کہ قومی بجٹ کی براہ راست کوریج کرنے والے میڈیا نے ساری توجہ سوتے ہوئے جیکب زوما پر ہی مرکوز کرلی ہے۔ موصوف تب تک سوتے رہے جب تک بجٹ تقریر مکمل نہ ہوگئی۔ پارلیمنٹ میں جیکب زوما کے سونے کے واقعے کو جنوبی افریقہ کی عوام اپنی ملی توہین سمجھا اور ملک بھر میں ان سے استعفے کا مطالبہ کیا جانے لگا۔ آخرکار نیند سے شروع ہونے والی تحریک کرپشن الزامات تک جاپہنچی اور جیکب زوما کو عوامی دباؤ پر مستعفی ہونا ہی پڑا۔ پارلیمان میں سونے کی یہ سب سے بھاری قیمت تھی جو جیکب زوما کو ادا کرنا پڑی۔

حالانکہ دنیا بھر کے اراکین پارلیمنٹ، ایوان کے جاری اجلاسوں میں اپنی نیند پوری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر اپریل 2008 میں سابق برطانوی وزیراعظم گورڈن براؤن اقوام متحدہ کے اجلاس کے دوران اپنی نیند پر قابو نہ رکھ سکے، جب کہ کیوبا کے سابق صدر فیڈل کاسترو اپریل 2011 میں کیوبن کمیونسٹ پارٹی کانگرس کے اجلاس میں سو گئے تھے۔ نیز جنوری 2017 میں جاپان کے وزیراعظم شنزو آبے قومی اسمبلی کے اجلاس میں ہونے والے سوال جواب کے سیشن کے دوران سب سے بے خبر سوتے رہے۔ اس کے علاوہ جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل جون 2014 میں پارلیمنٹ میں جاری بحٹ بحث کے دوران اپنے ہاتھ سے ٹیک لگاکر گہری نیند سو گئی تھیں۔

صرف یہی ہی نہیں رومن کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا اور راہنما پوپ بینیڈکٹ بھی اپریل 2018 میں مالٹا کے شہر فلوریانا میں ایک مذہبی اجتماع کے دوران اپنی جگہ پر بیٹھے بیٹھے سو گئے تھے۔ اگر ہم پاکستانی پارلیمنٹ کی بات کریں تو پاکستان پیپلزپارٹی کے راہ نما نوید قمر، سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی، رحمان ملک بھی پارلیمانی اجلاسوں میں اپنی نیند پوری کرنے میں خاص شہرت رکھتے ہیں۔ علاوہ ازیں ایک بار قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی تقریر کے دوران نون لیگ کے راہ نما رانا تنویر کو بھی گہری نیند آگئی تھی، جس پر قومی اسمبلی کے ا سپیکر کی نشان دہی پر شہباز شریف مسکرا کر بولے ’’رانا تنویر کو میری تقریر موسیقی لگ رہی ہے اس لیے انہیں نیند آرہی ہے۔‘‘

٭پارلیمانی تشدد کا ایک خوف ناک ڈراما

جی ہاں! آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ سچ ہے کہ 2017 میں، افریقی ملک یوگنڈا میں ملک کی برسہا برس تک خدمت انجام دینے والے صدر کی عمر میں توسیع کے لیے آئینی ترمیم بحث کے لیے پیش کی گئی۔ خاص طور پر پیش کی گئی اس ترمیم کے منظور کروانے کا مقصد 73 سالہ صدر یووری کا گوٹا میوزینی کی حکم رانی میں توسیع کرنا تھا، جو اس وقت صدور کے لیے عمر کی زیادہ سے زیادہ پابندی تک پہنچنے سے 2 سال کی دوری پر تھے یعنی اُن کی عمر اس وقت 75 برس تھی۔

آئینی ترمیم پیش ہونے کی دیر تھی کہ یوگنڈا کی پارلیمنٹ میں زبردست ہنگامہ برپا ہوگیا۔ لیکن یہ ہنگامہ آرائی فقط توتکار، گالم گلوچ، ایک دوسرے کو دھکے مارنے، مکے بازی، لات مارنے یا مائکروفون کے آزادانہ استعمال تک محدود نہیں تھی بلکہ اِس پارلیمانی لڑائی میں اراکین پارلیمنٹ نے ایک دوسرے کے خلاف ہتھیار تک نکال لیے تھے اور اس پارلیمانی لڑائی میں ہر طرح کا تشدد دیکھا گیا۔ یہ پارلیمانی ہنگامہ ایک ،دو گھنٹے تک نہیں بلکہ پورے 2 دن تک مسلسل جاری رہا، جس میں متعدد اراکین پارلیمنٹ شدید ترین زخمی بھی ہوگئے تھے۔

پارلیمانی لڑائی کے اختتام پر اتفاق رائے سے آئینی ترمیم کے سلسلے میں، صدارتی عمر کی حد ختم کردی گئی تھی اور صدر میوزیوینی کی حکم رانی کے لیے آئینی تحفظ فراہم کردیا گیا اور وہ آج بھی اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہیں۔ یہ پارلیمانی جھگڑا جدید دنیا کی جمہوری تاریخ میں سب سے زیادہ وسیع، غیر پیشہ ورانہ اور الم ناک سیاسی لمحات میں سے ایک ہے۔

٭سیلفی کے دل دادہ اراکین پارلیمان

2017 میں ایران کے صدر حسن روحانی کے دوبارہ عہدہ سنبھالنے کی تقریب ایرانی پارلیمان میں منعقد ہورہی تھی، جس میں شرکت کے لیے یورپی یونین کی اعلٰی عہدے دار فریڈریکا موگرینی کو بھی خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ جہاں انھیں اراکین پارلیمان کی جانب سے ’’عجیب و غریب‘‘ سلوک کا سامنا کرنا پڑا اور صدر روحانی کی موجودگی میں ہی ایران کے مرد، ارکان پارلیمان نے فریڈریکا موگرینی کے ساتھ سیلفی لینے کے لیے انھیں ہر طرف سے گھیر لیا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ سیلفی لینے کے لیے یہ گھیراؤ بہت دیر تک جاری رہا۔

یہاں تک کہ اسپیکر کو صورت حال کی نزاکت دیکھتے ہوئے مائیک پر اعلان کرنا پڑا کہ ’’برائے مہربانی، سیلفی کے لیے موگرینی کا گھیراؤ ختم کیا جائے۔‘‘ لیکن مرد، اراکین پارلیمان نے اسپیکر کا ہر اعلان سُنی اَن سُنی کرتے ہوئے موگرینی کے ساتھ سیلفی لینے کے لیے بھیڑ لگائے رکھی۔ ایرانی عوام کی جانب سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر اراکین پارلیمان کے اس برتاؤ پر سخت تنقید کی گئی تھی، جب کہ ایرانی پارلیمان کے ایک رکن علی رضا سلیمی نے اراکین پارلیمان کی اِس حرکت کو ’’مغرب کے سامنے ایران کی خود سپردگی‘‘ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا،’’ایرانی ارکان پارلیمنٹ کا یہ رویہ مغربی ملک کی ایک اعلیٰ افسر کی چاپلوسی جیسا تھا۔‘‘ نیز سابق صدر محمد خاتمی کے مشیر صادق خرازی نے یہ منظر دیکھنے کے بعد یہ تجویز دی کہ ’’تمام ایرانی اراکین پارلیمان کو کسی خاتون کے ساتھ میل جول کے لیے آفاقی اخلاقی قدروں اور لوگوں سے ملنے جلنے کی تربیت دی جانی چاہیے۔‘‘

٭پارلیمانی اجلاسوں میں شیرخوار بچوں کی آمد

ویسے تو پارلیمان کسی بھی ملک کی ہو، اُس میں داخل ہونے والے ہر شخص کے لیے کچھ قواعد و ضوابط پر پورا اُترنا ضروری ہوتا ہے اور جو افراد بھی ان شرائط پر پورا نہیں اُتر تے اُن کا داخلہ پارلیمان میں یکسر ممنوع ہی ہوتا ہے۔ خاص طور بچے پارلیمان میں داخل نہیں ہوسکتے۔ لیکن اَب اراکین پارلیمنٹ اپنے شیرخوار بچوں کو بھی پارلیمانی اجلاسوں میں لے کر آنے لگے ہیں اور بات صرف یہیں تک محدود نہیں رہی ہے بلکہ آسٹریلیا کی خاتون سینیٹر لاریسا واٹرز دنیا کی وہ پہلی سیاست داں بن چکی ہیں جنھوں نے پارلیمان کے جاری اجلاس میں اپنی شیرخوار بچی کو اپنا دودھ بھی پلایا ہے۔ آسٹریلیا کے ایوان بالا میں 2003 سے شیرخوار بچوں کو دودھ پلانے کی اجازت ہے لیکن اس کے باوجود سینیٹر لاریسا واٹرز سے پہلے کبھی کسی رکن پارلیمان نے پارلیمنٹ کے جاری اجلاس میں اپنے بچے کو دودھ نہیں پلایا تھا۔

تاہم 2016 میں اسپین کی پارلیمان میں کیرولینا بیسکانسا کو ایوان میں اپنے بچے کو لانے اور دودھ پلانے پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اسپین کے بعض اراکین پارلیمنٹ نے اس عمل کو پارلیمان کا تقدس پامال کرنے کا عمل قرار دیتے ہوئے پر کیرولینا سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ جبکہ اسپین کے عوامی حلقوں نے بھی کیرولینا کے اس حرکت پر سوشل میڈیا پر سخت تنقید کرتے ہوئے اسے سستی شہرت حاصل کرنے کا ایک بھونڈا طریقہ قرار دیا تھا۔

شیرخوار بچوں کو پارلیمانی اجلاس میں لانے کے معاملے پر برطانوی دارالعوام میں جاری اجلاس میں پہلی بار اپنے بچے کو ساتھ لانے والی خاتون رکنِ پارلیمان اور لبرل ڈیموکریٹ کی ڈپٹی راہ نما جو سونسن کا کہنا ہے کہ ’’پارلیمان میں شیرخوار بچوں کی آمد، بین الاقوامی جمہوریت کا جدت پسندی کی جانب پہلا قدم ہے اور اس عمل کے ذریعے ہم دنیا بھر کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ والدین اپنے بچوں کے حوالے سے ذمے داریاں اپنے کام کے ساتھ نبھا سکتے ہیں۔‘‘ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ وہ دن اَب زیادہ دور نہیں رہے جب پارلیمان کے جاری اجلاسوں میں بچوں کے جھولے اور کھلونے جابجا دکھائی دیں گے اور ارکان پارلیمنٹ کے شورشرابے میں بچوں کی کلکاریاں اور چیخ و پکار بھی شامل ہوا کرے گی۔ اگر ایسا ہوجائے تو یقیناً عوام اس پارلیمانی مسالے کے چٹخارے سے خوب لطف اندوز ہوں گے۔

٭پارلیمان میں شادی کا پروپوزل

اگر کوئی اٹلی میں کسی لڑکی کو شادی کے لیے پرپوز کرنے کا سوچے گا تو وہ وینس، فلورینس یا روم جیسا خوب صورت مقام ہوگا لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ ان سب جگہوں کو چھوڑ کر ایک شخص ایسا بھی ہے، جس نے اپنی محبوبہ کو شادی کی پیشکش اطالوی پارلیمنٹ میں کی جس نے سب کو حیران کردیا۔ اس منفرد واقعے کی تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ 33 سالہ فلے ویو دی مورو نامی اطالوی رکن پارلیمنٹ نے پارلیمان کے جاری اجلاس کے دوران اپنی محبوبہ الیزا دی لیو کو شادی کی پیشکش کردی، جو پارلیمنٹ کی گیلری میں بیٹھ کر اجلاس ملاحظہ کررہی تھی۔

واضح رہے کہ پارلیمنٹ کے اِس اجلاس میں اٹلی میں آنے والے زلزلے کے بعد تعمیرنو کے معاملے پر بحث جاری تھی کہ اس دوران، رکن پارلیمان فلے ویو دی مورو نانے کھڑے ہوکر بلند آواز میں کہا،’’آج کا دن دوسرے دنوں کی طرح نہیں بلکہ یہ میرے لیے کچھ مختلف اور بہت خاص ہے، کیوںکہ میں آج اپنی شریک زندگی منتخب کررہا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر فلے ویو دی مورو نانے نیچے جھک کر انگوٹھی نکالی اور گیلری میں بیٹھی اپنی دوست الیزا کو تمام پارلیمنٹ کے ارکان کے سامنے شادی کے لیے پروپوز کردیا۔ انہوں نے انگوٹھی سامنے کرتے ہوئے اپنی دوست سے پوچھا کہ کیا تم مجھ سے شادی کرو گی۔

اس پر ان کے اردگرد بیٹھے تمام اراکین پارلیمان نے زوردار قہقہے لگائے اور تالیاں بجا کر ان کی حوصلہ افزائی کی جب کہ گیلری میں بیٹھی الیزا نے غیرمتوقع شادی کی پیشکش پر خوشی و حیرت کے ملے جلے تاثر کے ساتھ ہاں کر ڈالی۔ بعدازاں پارلیمنٹ کے اجلاس میں ہی فلے ویو دی کو سب نے مبارک باد پیش کی۔ دوسری طرف دوران مباحثہ شادی کے لیے اپنا پروپوزل پیش کرنے پر اسپیکر نے فلے ویو دی مورونا پر سخت ناراضی کا اظہار بھی کیا اور کہا کہ پیشکش کا یہ طریقہ اور جگہ مناسب نہیں تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔