پاکستانی ویٹ لفٹرز تین مائیں
جو لڑکیاں کھیلوں کو بطور پروفیشن اپناتی بھی ہیں وہ شادی کے بعد گھریلو ذمے داری ادا کرنے کو زیادہ ترجیح دیتی ہیں
نیلم ریاض، صائمہ شہزاد اور زارا زبیر ماں بننے کے بعد بھی ویٹ لفٹنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)
پاکستان میں لڑکیوں کا کھیلوں میں رجحان زیادہ نہیں، اور جو لڑکیاں اس پروفیشن کو اپناتی بھی ہیں وہ شادی کے بعد گھریلو ذمے داری ادا کرنے کو زیادہ ترجیح دیتی ہیں۔ لیکن کچھ ایسی باہمت کھلاڑی بھی ہیں جو ماں بننے کے بعد بھی اپنے پروفیشن کو کامیابی سے جاری رکھی ہوئی ہیں۔ ان باہمت ماؤں میں لاہور کی ویٹ لفٹر نیلم ریاض، صائمہ شہزاد اور زارا زبیر بھی ہیں۔
سب سے پہلے بات کرتے ہیں پاکستان کی سپرویمن ایتھلیٹ نیلم ریاض کی۔ جو سات کھیلوں ویٹ لفٹنگ، کبڈی، سائیکلنگ، کراٹے، ووشو، جمناسٹک اور پاور لفٹنگ میں اب تک قومی اور بین الاقوامی سطح پر 70 میڈلز جیت چکی ہیں۔
نیلم ریاض نے 2017 کے نیشنل گیمز میں سب سے زیادہ ایک سو چوالیس کلو گرام وزن اٹھا کر سپر ویٹ لفٹر کا ریکارڈ اپنے نام کیا تھا۔ 2019 میں نیلم کی شادی ہوئی، ان کے شوہر ایڈووکیٹ ہیں۔ وہ اپنے سسرال والوں کی رضامندی کے ساتھ شادی کے بعد بھی کھیل جاری رکھی ہوئی ہیں۔ نیلم کے جنون اور شوق کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ شادی کے اگلے روز وہ نیشنل پاور لفٹنگ چیمپئن شپ میں شرکت کرنے پہنچیں۔ مہندی لگے ہاتھوں سے انہوں نے بنچ پریس میں ساٹھ کلو گرام، ڈیڈ لفٹ میں ایک سو پچپن اور اسکاٹ میں ایک سو تیس کلو گرام وزن اٹھا کر گولڈ میڈل اپنے نام کیا۔
17 سال پہلے کھیلوں کی طرف راغب ہونے والی یہ ایتھلیٹ کہتی ہیں کہ مختلف کھیلوں میں دلچسپی اور ٹریننگ مصروفیات کے ساتھ ایک اسکول میں اسپورٹس ٹیچر کی جاب کی وجہ سے اتنا وقت ہی نہیں ملتا تھا کہ کھانا پکانا سیکھ سکوں۔ صرف انڈہ بنانا آتا تھا۔ والدین نے بھی لگن اور محنت کو دیکھتے ہوئے کام کاج کےلیے زیادہ مجبور نہیں کیا۔ شادی کےلیے میں نے والدین کو بتادیا تھا کہ میں کسی اسپورٹس مین یا اس شعبے سے وابستہ کسی فرد سے شادی نہیں کرنا چاہتی، جہاں آپ کی مرضی ہو کردیں۔ بس ایک ہی خواہش ہے کہ اپنے کھیل کو جاری رکھنے کا موقع ملتا رہے۔ بہت خوش قسمت ہوں کہ میرے شوہر، سسر اور دیگر سسرالیوں نے میری اس خواہش کا احترام کیا۔ شوہر بہت اچھے ہیں اور بہت تعاون کررہے ہیں تاکہ اپنے تمام خواب پورے کرسکوں۔ اب کھانا پکانا بھی سیکھ لیا ہے۔ گھر کے تمام کام کاج کرنے کے ساتھ ٹریننگ کےلیے ایک ٹائم ٹیبل بنا رکھا ہے اور کوشش کرتی ہوں کہ تمام کام وقت سے پہلے ختم کرکے مکمل یکسوئی اور باقاعدگی کے ساتھ ٹریننگ کرسکوں۔ زیادہ تر بیٹی کے ساتھ ہی ٹریننگ کلب آنا معمول ہے۔ کبھی کبھار گھر کے دوسرے لوگ اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔
نیلم کے بقول کھیل کے ساتھ گھریلو ذمے داریاں نباہنا مشکل ضرور لگتا ہے لیکن سجھداری اور ٹائم ٹیبل ترتیب دے کر سب کچھ کرنا ممکن ہے۔ بھارت میں کھیلے گئے کبڈی کے دو ورلڈ کپ میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے براؤنز میڈل لینے والی نیلم کا عزم ہے کہ وہ پہلے سے زیادہ میڈلز جیت کر اپنے ملک، ادارے، والدین اور سسرال والوں کےلیے باعث فخر بنے۔ ہمت، لگن، جنون اور گھر والوں کے تعاون سے ایسا کرنا ممکن ہے۔ اور وہ ایسا کرکے ان لڑکیوں کےلیے مثال بننا چاہتی ہیں جو تمام تر مشکلات کا سامنا کرنے کے بجائے شادی کے بعد کھیل کو خیرباد کہہ کر گھر بیٹھ جاتی ہیں۔
اب ذکر کرتے ہیں نیلم کے ساتھ ٹریننگ کرنے والی دوسری ماں صائمہ شہزاد کا۔ جنہوں نے دسمبر میں نیپال کے شہر کھٹمنڈو میں ہونے والے ساؤتھ ایشین گیمز میں براؤنز میڈل جیت کر تاریج رقم کی۔ اس سے پہلے بھی کئی میڈلز ان کی گھر کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے بیٹے کے ساتھ باقاعدگی کے ساتھ ویٹ لفٹنگ کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے کچھ مشکل ہوتی تھی لیکن اب بیٹا تھوڑا بڑا ہوگیا ہے، اس لیے ٹریننگ کے وقت تنگ نہیں کرتا۔ اس کی کھانے پینے کی چیزیں ساتھ رکھ لیتی ہوں، یہ مزے سے کھانے میں مصروف رہتا ہے اور میں اپنی ٹریننگ پر توجہ دینے میں کامیاب رہتی ہوں۔ کھیل کے ساتھ گھر کے کام کاج کرنا بھی معمول ہے۔ ویٹ لفٹنگ کا شوق ہے اور کوشش ہوگی کہ جب تک ہمت اور فٹنس برقرار ہے کھیل جاری رکھ کر پاکستان کےلیے مزید میڈلز جیت کر سہنرے حروف میں اپنا نام درج کرواؤں۔ بیٹے کو بھی ساتھ ساتھ سکھا رہی ہوں کہ کس طرح اس کھیل میں آگے بڑھنا ہے۔
ریلوے اسٹیڈیم کے اس ٹریننگ کلب میں آنے والی ایک اور ماں ویٹ لفٹر زارا کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ میڈلز جیت کر ملنے والی خوشی کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ ویٹ لفٹنگ کے کھیل میں اپنے ساتھ اب بیٹی اور بیٹے کو بھی لانا چاہتی ہیں۔ بیٹی نے ویٹ لفٹنگ کی ٹریننگ باقاعدگی سے شروع کردی ہے، بیٹے کو بھی اس کھیل میں لانا چاہتی ہوں۔ دوسری لڑکیوں کو ایک ہی پیغام دینا چاہتی ہوں کہ زندگی میں آگے بڑھنا ہے تو خود کو مضبوط کیجئے۔ مسائل کا مقابلہ کرنے کے بعد ہی مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے۔
تینوں ویٹ لفٹرز ماؤں کا یہ مشترکہ مطالبہ تھا کہ ویٹ لفٹنگ میں اسپانسرز نہیں ملتے۔ مختلف کمپنیوں کو اس جانب بھی توجہ دینی چاہیے۔ اس سے نہ صرف ویٹ لفٹرز کی حوصلہ افزائی ہوگی بلکہ کھیل کو بھی فروغ ملے گا۔ حکومتی سطح پر ویٹ لفٹنگ پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں۔ صرف سرپرستی کرنے، سہولیات فراہم کرنے اور مواقع دینے کی ضرورت ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
سب سے پہلے بات کرتے ہیں پاکستان کی سپرویمن ایتھلیٹ نیلم ریاض کی۔ جو سات کھیلوں ویٹ لفٹنگ، کبڈی، سائیکلنگ، کراٹے، ووشو، جمناسٹک اور پاور لفٹنگ میں اب تک قومی اور بین الاقوامی سطح پر 70 میڈلز جیت چکی ہیں۔
نیلم ریاض نے 2017 کے نیشنل گیمز میں سب سے زیادہ ایک سو چوالیس کلو گرام وزن اٹھا کر سپر ویٹ لفٹر کا ریکارڈ اپنے نام کیا تھا۔ 2019 میں نیلم کی شادی ہوئی، ان کے شوہر ایڈووکیٹ ہیں۔ وہ اپنے سسرال والوں کی رضامندی کے ساتھ شادی کے بعد بھی کھیل جاری رکھی ہوئی ہیں۔ نیلم کے جنون اور شوق کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ شادی کے اگلے روز وہ نیشنل پاور لفٹنگ چیمپئن شپ میں شرکت کرنے پہنچیں۔ مہندی لگے ہاتھوں سے انہوں نے بنچ پریس میں ساٹھ کلو گرام، ڈیڈ لفٹ میں ایک سو پچپن اور اسکاٹ میں ایک سو تیس کلو گرام وزن اٹھا کر گولڈ میڈل اپنے نام کیا۔
17 سال پہلے کھیلوں کی طرف راغب ہونے والی یہ ایتھلیٹ کہتی ہیں کہ مختلف کھیلوں میں دلچسپی اور ٹریننگ مصروفیات کے ساتھ ایک اسکول میں اسپورٹس ٹیچر کی جاب کی وجہ سے اتنا وقت ہی نہیں ملتا تھا کہ کھانا پکانا سیکھ سکوں۔ صرف انڈہ بنانا آتا تھا۔ والدین نے بھی لگن اور محنت کو دیکھتے ہوئے کام کاج کےلیے زیادہ مجبور نہیں کیا۔ شادی کےلیے میں نے والدین کو بتادیا تھا کہ میں کسی اسپورٹس مین یا اس شعبے سے وابستہ کسی فرد سے شادی نہیں کرنا چاہتی، جہاں آپ کی مرضی ہو کردیں۔ بس ایک ہی خواہش ہے کہ اپنے کھیل کو جاری رکھنے کا موقع ملتا رہے۔ بہت خوش قسمت ہوں کہ میرے شوہر، سسر اور دیگر سسرالیوں نے میری اس خواہش کا احترام کیا۔ شوہر بہت اچھے ہیں اور بہت تعاون کررہے ہیں تاکہ اپنے تمام خواب پورے کرسکوں۔ اب کھانا پکانا بھی سیکھ لیا ہے۔ گھر کے تمام کام کاج کرنے کے ساتھ ٹریننگ کےلیے ایک ٹائم ٹیبل بنا رکھا ہے اور کوشش کرتی ہوں کہ تمام کام وقت سے پہلے ختم کرکے مکمل یکسوئی اور باقاعدگی کے ساتھ ٹریننگ کرسکوں۔ زیادہ تر بیٹی کے ساتھ ہی ٹریننگ کلب آنا معمول ہے۔ کبھی کبھار گھر کے دوسرے لوگ اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔
نیلم کے بقول کھیل کے ساتھ گھریلو ذمے داریاں نباہنا مشکل ضرور لگتا ہے لیکن سجھداری اور ٹائم ٹیبل ترتیب دے کر سب کچھ کرنا ممکن ہے۔ بھارت میں کھیلے گئے کبڈی کے دو ورلڈ کپ میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے براؤنز میڈل لینے والی نیلم کا عزم ہے کہ وہ پہلے سے زیادہ میڈلز جیت کر اپنے ملک، ادارے، والدین اور سسرال والوں کےلیے باعث فخر بنے۔ ہمت، لگن، جنون اور گھر والوں کے تعاون سے ایسا کرنا ممکن ہے۔ اور وہ ایسا کرکے ان لڑکیوں کےلیے مثال بننا چاہتی ہیں جو تمام تر مشکلات کا سامنا کرنے کے بجائے شادی کے بعد کھیل کو خیرباد کہہ کر گھر بیٹھ جاتی ہیں۔
اب ذکر کرتے ہیں نیلم کے ساتھ ٹریننگ کرنے والی دوسری ماں صائمہ شہزاد کا۔ جنہوں نے دسمبر میں نیپال کے شہر کھٹمنڈو میں ہونے والے ساؤتھ ایشین گیمز میں براؤنز میڈل جیت کر تاریج رقم کی۔ اس سے پہلے بھی کئی میڈلز ان کی گھر کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے بیٹے کے ساتھ باقاعدگی کے ساتھ ویٹ لفٹنگ کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے کچھ مشکل ہوتی تھی لیکن اب بیٹا تھوڑا بڑا ہوگیا ہے، اس لیے ٹریننگ کے وقت تنگ نہیں کرتا۔ اس کی کھانے پینے کی چیزیں ساتھ رکھ لیتی ہوں، یہ مزے سے کھانے میں مصروف رہتا ہے اور میں اپنی ٹریننگ پر توجہ دینے میں کامیاب رہتی ہوں۔ کھیل کے ساتھ گھر کے کام کاج کرنا بھی معمول ہے۔ ویٹ لفٹنگ کا شوق ہے اور کوشش ہوگی کہ جب تک ہمت اور فٹنس برقرار ہے کھیل جاری رکھ کر پاکستان کےلیے مزید میڈلز جیت کر سہنرے حروف میں اپنا نام درج کرواؤں۔ بیٹے کو بھی ساتھ ساتھ سکھا رہی ہوں کہ کس طرح اس کھیل میں آگے بڑھنا ہے۔
ریلوے اسٹیڈیم کے اس ٹریننگ کلب میں آنے والی ایک اور ماں ویٹ لفٹر زارا کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ میڈلز جیت کر ملنے والی خوشی کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ ویٹ لفٹنگ کے کھیل میں اپنے ساتھ اب بیٹی اور بیٹے کو بھی لانا چاہتی ہیں۔ بیٹی نے ویٹ لفٹنگ کی ٹریننگ باقاعدگی سے شروع کردی ہے، بیٹے کو بھی اس کھیل میں لانا چاہتی ہوں۔ دوسری لڑکیوں کو ایک ہی پیغام دینا چاہتی ہوں کہ زندگی میں آگے بڑھنا ہے تو خود کو مضبوط کیجئے۔ مسائل کا مقابلہ کرنے کے بعد ہی مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے۔
تینوں ویٹ لفٹرز ماؤں کا یہ مشترکہ مطالبہ تھا کہ ویٹ لفٹنگ میں اسپانسرز نہیں ملتے۔ مختلف کمپنیوں کو اس جانب بھی توجہ دینی چاہیے۔ اس سے نہ صرف ویٹ لفٹرز کی حوصلہ افزائی ہوگی بلکہ کھیل کو بھی فروغ ملے گا۔ حکومتی سطح پر ویٹ لفٹنگ پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں۔ صرف سرپرستی کرنے، سہولیات فراہم کرنے اور مواقع دینے کی ضرورت ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔