شہر آسیب کا حال

ایک ایسا شہر جسے پورے ملک کےلیے ایک رول ماڈل بننا تھا، اس روشنی کے شہر کو پتا نہیں کس کی نظر لگ گئی

روشنیوں کے شہر کو نجانے کس کی نظر لگ گئی۔ (فوٹو: فائل)

ایک ایسا شہر جسے دنیا کا چھٹا بڑا شہر ہونے کا اعزاز حاصل ہو، جو 3780 مربع کلومیٹر کا رقبہ رکھتا ہو۔ جہاں کی آبادی تقریباً 20 ملین کے قریب ہو۔ جو بہت سے یورپین اور ساؤتھ امریکن ملکوں سے زیادہ آبادی والا شہر ہو۔ جو اپنے ملک کا سب سے بڑا صنعتی، تجارتی، تعلیمی، مواصلاتی و اقتصادی مرکز ہو۔ جو 13 سال تک ملک کا دارالخلافہ رہا ہو۔ جس شہر میں ملک کی سب سے بڑی بندرگاہیں ہوں۔ جس میں صنعتی سرگرمیاں دیگر تمام شہروں سے پہلے شروع ہوئی ہوں۔ جہاں ملک کے ساتھ منسلک تقریباً تمام بین الاقوامی اداروں کے دفاتر قائم ہوں۔ جس شہر میں ملک کا سب سے بڑا بازارِ حصص (اسٹاک مارکیٹ) قائم ہو۔ اس شہرِ بے مثال کا کیا ایسا بھی حال ہوتا ہے؟

وہ شہر جس میں 5 جزیرے ہوں۔ دو بڑے ریلوے اسٹیشنز ہوں۔ اپنا ہوائی اڈا ہو اور وہ بھی ملک کا سب سے بڑا ہوائی اڈا۔ 5 بڑے عجائب گھر ہوں۔ جس شہر کے ساتھ سمندر جڑا ہو اور سمندر کے ساحل پر بنے 12 بڑے تفریحی پوائنٹس ہوں۔ جس کے اپنے 33 بڑے پارکس ہوں، 13 بڑے پلے گراؤنڈز ہوں۔ اس روشنی کے شہر کے ساتھ یہ ناروا سلوک؟

وہ شہر جو پورے ملک کےلیے ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہو۔ جو پورے ملک کی معیشت کا بوجھ اپنے کمزور کاندھوں پر اٹھائے 73 سال سے پھر رہا ہو۔ اس کے باوجود... جی ہاں اس کے باوجود اس کی سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہوں، گٹر ابل رہے ہوں، سیوریج کا تمام سسٹم تباہ و برباد ہوچکا ہو، عمارتیں منہدم ہورہی ہوں۔ جہاں کے سرکاری اسکول، اسپتال، پارکس کچرا کنڈی میں تبدیل ہوچکے ہوں۔ وہ شہر جو ایک ایٹمی ملک کا دارالخلافہ رہ چکا ہو، جسے روشنیوں کا شہر ہونے کا اعزار حاصل رہا ہو، وہاں اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے بجلی غائب ہو۔ تاریں ٹوٹی ہوئی ہوں۔ ٹرانسفارمرز ناکارہ ہوچکے ہوں۔ اس کے باوجود، جی ہاں اس کے باوجود لاکھوں روپے کا بل ہر ماہ منہ چڑانے آجاتے ہوں۔ کیا آپ نے کبھی ایسا شہر بھی دیکھا ہے؟

وہ شہر جس کے دامن میں سمندر ہو، مگر وہاں کے مکین بوند بوند پانی کو ترستے ہوں۔ جہاں واٹر اینڈ سیوریج کا باقاعدہ ادارہ ہو، ادارے میں ہزاروں ملازمین ہوں، ملازمین کی ٹھیک ٹھاک تنخواہیں ہوں، گھر گھر ہر ماہ باقاعدگی سے بل تو آتا ہو لیکن شہر میں بچھی پانی کی لائنیں اور نلکے ہلکی سی بھی نمی کو ترستے ہوں۔ جہاں گلی گلی اور محلے محلے ٹینکر گھومتے ہوں۔ جس شہر کے بچے بچے پانی کےلیے کین اور برتن اٹھائے پھرتے ہوں اور بڑے پانی کےلیے لڑتے ہوئے دکھائی دیں۔ کیا آپ نے ایسا شہر بے مثال، ملک میں کہیں دیکھا ہے؟

وہ شہر جو ملک سے آنے والے ہر مہمان، جو یہاں رہ کر اپنا اور اپنے بیوی بچوں کے پیٹ پالنا چاہتے ہوں، انہیں ہر گھڑی خوش آمدید کہتا ہو۔ جو ملک کی ترقی اور خوشحالی کا ضامن شہر ہو۔ وہ شہر اب کچرے کے ڈھیر تلے دب چکا ہے۔ جہاں کی گندگی کو دیکھ کر گندگی بھی شرما جائے۔ جہاں کے باسیوں کےلیے پان اور گٹکے کے بغیر جینا محال ہو، اور وہ انہیں کھا کر دیواروں، گلیوں اور محلوں کو رنگین کررہے ہوں۔ جہاں کے دکان دار فٹ پاتھ پر قبضہ کرنا اپنا حق سمجھتے ہوں۔ جہاں دن دیہاڑے چوری ہو، ڈکیتی ہو، چھیناجھپٹی اور قتل ہو۔ کیا کسی ''ایٹمی ملک'' کا ایسا بھی کوئی ''شہر'' ہوتا ہے؟

جس شہر کا بلدیاتی نظام ملک کی آزادی سے قبل ہی 1933 میں قائم ہوچکا ہو۔ جس شہر کے 18 ٹاؤنز اور 178 یونین کونسلز ہوں، اس شہر کا حال ایسا بھی ہوتا ہے؟

ایک ایسا شہر جسے پورے ملک کےلیے ایک رول ماڈل بننا تھا، اس روشنی کے شہر کو پتا نہیں کس ناہنجار کی نظر لگی کہ یہ اپنے آپ سے نظریں ملانے کے بھی قابِل نہیں رہا۔ اس شہر خراباں کی ٹوٹی پھوٹی اور پانی و کیچڑ میں ڈوبی سڑکوں میں چلتی گاڑیاں اور ان گاڑیوں سے اٹھتے دھوئیں کو دیکھ کر اپنا سینہ پیٹنے کو جی کرتا ہے۔ جس شہر کی فضائی آلودگی ڈبلیو ایچ او کے متعین کردہ معیار سے 20 گنا زیادہ بڑھ چکی ہو۔ جہاں بارشیں بہت کم کم ہوتی ہوں اور جب ہوتی ہوں تو کئی خاندانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیتی ہوں۔ کوئی اپنے ہی آشیانے کی چھت تلے دب کر زندگی سے جان چھڑا لیتا ہے تو کوئی پانی میں ڈوب کر موت کے ساحل پر پہنچ جاتا ہے۔ کسی کو شہر میں لگے بجلی کے ننگے تاروں نے نگل لیا ہوتا ہے تو کوئی دیواروں تلے دب کر گریہ کیے بغیر جہان فانی سے کوچ کرجاتا ہے۔ کیا آپ نے کبھی اس جدید دنیا میں ایسا ترقی یافتہ شہر بھی ملاحظہ فرمایا ہے؟

ملک کے کچھ مسیحاؤں نے دعویٰ تو کیا ہے کہ اب اس شہر کو تنہا نہیں چھوڑیں گے اور اس کی محرومیوں کا مداوا کریں گے۔ اے اللہ اب کوئی ایسا مسیحا بھیج دے جو اس تباہ حال شہر کو پھر سے آباد کردے، اس کی روشنی کو پھر سے لوٹا دے۔ یہاں روزگار ہو، صفائی ہو، امن ہو، پیار ہو، بھائی چارہ ہو۔ یا اللہ پھر ہم اپنی آنکھوں سے اسے بنتا دیکھیں۔ اسے پھلتا پھولتا دیکھیں۔


خوشبوؤں کی شاعرہ پروین شاکر نے جب اس شہر آسیب زدہ کا حال جو دیکھا تو انہیں بھی کرب نے آگھیرا تھا۔ وہ اپنے آخری مجموعہ کلام ''انکار'' میں کچھ یوں گویا ہوئی تھیں:

کراچی
ایک ایسی بیسوا ہے
جس کے ساتھ
پہاڑوں، میدانوں اور صحراؤں سے آنے والا
ہر سائز کے بٹوے کا آدمی
رات گزارتا ہے
اور صبح اُٹھتے ہی
اُس کے داہنے رخسار پر
ایک تھپڑ رسید کرتا ہے
اور دوسرے گال کی توقع کرتے ہوئے
کام پر نکل جاتا ہے
اگلی رات کے نشے میں سرشار!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story