’’رول ماڈل‘‘سابق کرکٹرز

’’یہ کرکٹرز میرے رول ماڈل ہوا کرتے تھے مگر یہ جیسے نظر آتے ہیں، اندر سے ویسے ہیں نہیں‘‘

''یہ کرکٹرز میرے رول ماڈل ہوا کرتے تھے مگر ان کے ساتھ کام کر کے احساس ہوا کہ جیسے نظر آتے ہیں اندر سے ویسے ہیں نہیں، میں سب کی بات نہیں کر رہا مگر بیشتر پیسے کے پیچھے بھاگنے والے لوگ ہیں، اسی لیے اب میرے سامنے کوئی بھی سپراسٹار آ جائے میں مرعوب نہیں ہوتا''

چند برس قبل ایک پی ایس ایل فرنچائز کے مالک نے مجھ سے یہ الفاظ کہے تھے،مجھے ان کی بات سن کر حیرت نہیں ہوئی بس ایک سابق چیئرمین یاد آ گئے جنھوں نے اس سے ملتی جلتی بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''جب میں نیا نیا بورڈ میں آیا تو بڑے کرکٹرز سے مل کر بہت خوش ہوتا مگر پھر جب بیشتر ملازمتیں یا دیگر مراعات مانگنے لگے تومیرے نزدیک ان کی عزت گھٹتی گئی''

اتنے برس کرکٹ صحافت میں گذارنے کے بعد میں اس تلخ حقیقت سے بخوبی واقف ہوں، میں یہ نہیں کہتا کہ سب ایسے ہیں لیکن ایک بڑی تعداد اس فہرست میں شامل ہے، بعض اوقات مجھے حیرت ضرور ہوتی کہ فلاں کرکٹر تو اتنا امیر ہے اب بھی اتنی لالچ کیوں؟ مگر اس سوال کا مجھے کبھی جواب نہ مل پایا، یہ ساری باتیں کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان دنوں یہ بحث چھڑی ہوئی ہے کہ سابق کرکٹرز بورڈ میں ملازمت پانے کیلیے سخت باتیں کرتے ہیں، میں اس سے متفق بھی ہوں کیونکہ استعمال میڈیا ہی ہوتا ہے،''پاکستانی کرکٹرز ناشکرے ہیں وہ آپ کو سیڑھی کی طرح استعمال کرتے ہیں''کئی برس قبل مرحوم عبدالقادر نے یہ تاریخی جملہ کہا تھا،میڈیا پر بھی یہ لاگو ہوتا ہے۔

ایک نوجوان کرکٹر جب جدوجہد کر رہا ہو تو ''بھائی جان بھائی جان'' کہتے زبان نہیں تھکتی،اس کی کوشش ہوتی ہے کہ آپ تعریفیں کریں انٹرویوز شائع کریں،پھر جب کچھ بن جائے تو فون نہیں اٹھائے گا یا پھر ''بورڈ نے منع کیا ہے'' کا روایتی جملہ کہے گا، البتہ بْرا وقت آنے پردوبارہ آپ کی یاد آ جائے گی،مجھے یاد ہے اپنے ایک رشتے دار کی وجہ سے تھوڑی بہت کرکٹ کھیلنے والے ایک سابق کھلاڑی 50 رنز بھی بنا لیتے تو صحافیوں کو فون کر کے منتیں کیا کرتے تھے کہ ''بھائی ڈومیسٹک میچ میں ففٹی بنائی ہے ذرا ہائی لائٹ کر دیں'' پھر جب پاکستان کی نمائندگی کا چانس ختم ہوا تو انھیں میڈیا بْرا لگنے لگا، بااثر رشتہ داروں کی مدد سے جب ان کا ''اقبال'' بلند ہوا توایسے کالر کھڑے کیے جیسے جانتے ہی نہیں،کئی صحافیوں نے ان کے رویے میں تبدیلی محسوس کی۔

پی سی بی میں کوئی جاب پانے کیلیے بے قرار ایک صاحب اکثر فون کرکے اپنے دکھڑے روتے رہتے مگر اب جب کام مل گیا تو ''گمشدہ'' ہیں، پہلے سوشل میڈیا نہیں تھا اس لیے روایتی میڈیا سابق کھلاڑیوں کی ضرورت بنا اسے خوب استعمال کیا، اب بڑے ناموں کے پاس ٹویٹر، فیس بک، انسٹاگرام اور یوٹیوب موجود ہیں، انھیں اب کسی کی ضرورت نہیں،البتہ دیگر ٹی وی پر آ کر دل کی بھڑاس نکالتے ہیں، ایسے لوگوں کو نوکری ملنے سے نیا ٹرینڈ چل پڑا، سب کو فارمولہ پتا چل گیا، بورڈ کتنوں کو ملازمت پر رکھے گا اس سے اچھا یہ نہیں کہ خود کو ہی ٹھیک کر لیا جائے،افسوس اس بات کا ہے کہ یہ کھلاڑی بھی کیسے پلٹا کھاتے ہیں، جیسے اپنے محمد یوسف ہیں، وہ کافی عرصے سے جونیئر ٹیم کی کوچنگ کیلیے کوشش کر رہے تھے۔


بات نہ بنی تو میڈیا پرآکر لفظی گولہ باری شروع کردی، بورڈ نے ہائی پرفارمنس سینٹر میں ملازمت پررکھ لیا تو سب اچھا لگنے لگا،اب ان سے کوئی پوچھے کہ بھائی جو باتیں پہلے آپ کرتے تھے وہ ٹھیک تھیں یا یہ تعریفیں، پی سی بی کی میڈیا پالیسی بھی یہی ہے کہ سب کچھ اپنے کنٹرول میں کرلو، چیئرمین اور سی ای او کے انٹرویوز نہیں کرائے جاتے، 4،6ماہ میں کوئی پریس کانفرنس ہو تو اس میں ایک سوال ہی پوچھنے کی اجازت ملتی ہے ہاں ملکی کرکٹ معاملات سے بے خبر بھارتی، برطانوی اور دیگر غیرملکی صحافیوں کو خوب انٹرویوز دیے جاتے ہیں۔

آپ کسی موجودہ کرکٹر کا بھی انٹرویو نہیں کر سکتے، سینٹرل کنٹریکٹ کی آڑ میں انھیں روکا جاتا ہے،کبھی صاحب موڈ میں ہوں تو ایک آدھ انٹرویو کی اجازت مل جاتی ہے،اس میں بھی میڈیا منیجر رضا راشد ان بیچارے کرکٹرز کو اتنا ''سمجھا'' دیتے ہیں کہ وہ زیادہ کھل کر بات ہی نہیں کر پاتے، سابق کرکٹرزکوچز یا دیگر روپ میں بورڈ سے منسلک ہوئے تو وہ بھی معاہدے کے تحت میڈیا سے بات نہیں کر سکتے، انھیں ضرورت بھی نہیں ہوتی مقصد جو پورا ہوگیا ہوتا ہے، اس کا نقصان ملکی کرکٹ کو ہی ہوگا، آپ کو ایسا ماحول بنانا چاہیے کہ چاہے کوئی ملازم ہو یا نہیں اسے کھل کر بات کرنے کی اجازت ہو، وہ ٹیم کی شکست، بورڈ کے غلط فیصلوں کی وضاحت دیتا نہ پھرے بلکہ سچی باتیں کرے،کچھ غلط محسوس کرے تو بتائے، اس سے یہ تاثر زائل ہوگا کہ بورڈ نے تنقید سے بچنے کیلیے اسے ملازمت دی ہے۔

اقبال قاسم والا حال نہ کریں کہ انھوں نے کرکٹ کمیٹی میں بے روزگار کرکٹرز کیلیے آواز اٹھائی تو انھیں سائیڈ لائن کر دیا جس پر استعفی دینا پڑا، ایک عام پرائیویٹ ادارے اور پی سی بی میں بہت فرق ہے، کرکٹ میں عوامی دلچسپی ہے اس لیے لوگ حقیقت جاننا چاہتے ہیں،اس لیے انھیں بولنے دیں۔

آپ ملازمتیں فراہم کرنے والا ادارہ نہ بنیں، ایسے اقدامات کریں جس کی سب خود ہی تعریف کرنے پر مجبور ہوں، اگر ٹیم جیتنے لگے، ڈومیسٹک کرکٹ سسٹم ٹھیک ہو جائے، کرکٹرز کی ملازمت اور دیگر مسائل حل ہو جائیں تو دنیا کا کوئی صحافی یا کرکٹربھی بورڈ پر تنقید کرے تو لوگ الٹا خود اسے تنقید کا نشانہ بنائیں گے،آخر میں ایک بات کی پھر وضاحت کر دوں کہ میں ہرگز یہ نہیں کہہ رہا کہ تمام سابق کرکٹرز لالچی اور ملازمت کے بھوکے ہیں،یقیناً بیشتر اچھے انسان ہیں، ہاں اگر کسی کو یہ کالم پڑھ کر غصہ آئے اور اپنا چہرہ نظر آنے لگے تو سمجھ جائیں میرا اشارہ اسی کی طرف ہے۔

(نوٹ: آپ مجھے ٹویٹر پر @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
Load Next Story