نہرو اور اڈوینا کا معاشقہ اور اس کے اثرات

ذوالفقار احمد چیمہ  جمعـء 18 ستمبر 2020
zulfiqarcheema55@gmail.com

[email protected]

اسٹینلے وولپرٹ اپنی کتاب ’نہرو‘ میں مزید لکھتا ہے کہ ’’لارڈ ماؤنٹ بیٹن دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے سے پہلے ہی ہندوستان کا وائسرائے بننے کا خواہشمند تھا جس کے لیے اُس نے کوشش شروع کر دی تھی اس کے لیے نہرو کانمایندہ کرشنا مینن (جسے بعد میں بھارت کی طرف سے برطانیہ میں سفیر نامزد کیا گیا) بھی لابنگ کرتا رہا۔اس لیے اس کے اور اس کی بیگم ایڈوینا کے دل میں نہرو کے لیے نرم گوشہ پیدا ہو چکا تھا ‘‘۔

’’…ماؤنٹ بیٹن نے 1947 میں نہرو سے احمد نگر قلعے میں بھی ملاقات کی کوشش کی ، لیکن اُسوقت کامیاب نہ ہوسکی ۔ اب وہ پھر انڈیا کے بحران کا حل ڈھونڈنے کے لیے نہرو سے ملاقات کامتمنی تھا۔لہٰذا اس نے وائسرائے کو لکھا کہ جواہرلال نہرو کو سنگا پور بھیجا جائے تاکہ وہ یہاں بسنے والے ہندوستانیوں کے جذبات ٹھنڈے کرے۔ لہٰذامارچ1947میں اُس ٹرائیکا (ماؤنٹ بیٹن اس کی بیگم ایڈوینا اور نہرو) کے درمیان ملاقات طے پائی جس نے آیندہ ہندوستان پر حکمرانی کرنی تھی ‘‘

’’اس ملاقات کی کرشنا مینن اور اندرا کے علاوہ کسی اور کوکوئی خبر نہ تھی۔ماؤنٹ بیٹن اور لیڈی ماؤنٹ بیٹن ایک روز پہلے سنگاپور پہنچ گئے۔انھوں نے نہرو کے لیے اپنی لیموزین ایئرپورٹ بھیجی اور گورنمنٹ ہاؤس میں اُسکا گرمجوشی سے استقبال کیا۔ ایڈوینا YMCAکی اوپر کی منزل پر انتظار کررہی تھیں ۔ چوالیس سالہ لیڈی ماؤنٹ بیٹن برطانیہ کی امیر ترین اور خوبرو ترین خواتین میں سے تھیں، نہرو نے میزبان کے ساتھ اپنے ہیرو اور کَیمبرج کے دور کی یادیں دہرائیں ۔ ‘‘

’’وائی ایم سی اے میں ہندوستانی باشندے’ نہرو کی جے‘ کے نعرے لگاتے ہوئے اوپر کی منزل پر بھی چڑھ دوڑے جن کے رش اور دباؤ سے ایڈوینا قدموں پر قائم نہ رہ سکیں اور نیچے گرگئیں توجواہر لال نے ہاتھ دیکراسے اٹھایا اور اسی لمحے دونوں کی آنکھوں میں محبت نے جنم لیا جو دلوں میں اتر گئی۔

اُس رات ماؤنٹ بیٹن ، لیڈی ماؤنٹ بیٹن اور نہرو نے اکٹھے ڈنر کیا ۔ جس کے بعد ماؤنٹ بیٹن نے کہا کہ ’’ ہم زندگی بھر کے لیے دوست بن گئے ‘‘ مصنف اس اہم میٹنگ کے بارے میں لکھتا ہے۔’’اس فیصلہ کن میٹنگ میں یہ طے پا چکا تھا کہ ہندوستان کے مستقبل کا فیصلہ یہ تینوں ملکر کریں گے‘‘اب اسمیں کوئی شک وشبہ نہیں رہا تھا کہ برطانوی حکومت کی حمایت اور تعاون مسٹر جناح کو نہیں نہرو کو ملے گا۔

’’اُدھر ہندوستان میں مختلف لیڈروں سے ملاقاتیں بھی جاری تھیں۔ کرپس 30مارچ 1947 کو جناح صاحب سے ملا اور پاکستان کے بارے میں انھیں غیر متزلزل پایا ‘‘

’’ مسٹرجناح وائسرائے ویول اور برطانوی وفد سے 14اپریل کو ملے اُن کا دوٹوک موقف تھا کہ  ’’انگریزوں سے پہلے ہندوستان کبھی بھی ایک ملک نہیں رہا۔ یہ مختلف ریاستوں کا مجموعہ تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کا نظریۂ حیات ہندوؤں سے بالکل مختلف ہے اس لیے وہ ان کے ساتھ اکٹھے نہیں رہ سکتے‘‘۔جب اُن سے پوچھا گیا کہ بیرونی جارحیت کی صورت میں ہندوستان کا دفاع کیسے ہوگا تو انھوں نے جواب دیا ، ’’آپ لوگ یقین رکھیں پاکستان کی زمامِ کار انتہائی ذمے دار افراد کے ہاتھ میں ہوگی اس کے علاوہ ہندوستان کے ساتھ کوئی دفاعی اتحاد بھی قائم کیا جا سکتا ہے‘‘

’’ اس کے کچھ عرصے بعد ابوالکلام آزاد کی جگہ جواہر لال نہرو کو کانگریس کا صدر منتخب کر لیا گیا۔ آزاد صاحب نے بھی نہرو کے بارے میں ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’ نہرو متکبرہے اور وہ برداشت نہیں کرتا کہ کسی اور کی اس سے زیادہ ستائش کی جائے ‘‘۔

مصنف نے نہروکے صوبہ سرحد(موجودہ خیبرپختونخوا)کے دورے کی بھی دلچسپ کہانی لکھی ہے۔ ’’وائسرائے کی مخالفت کے باوجود نہرو فرنٹیئر کے دورے پر روانہ ہوگیا۔صوبہ سرحدکے گورنر سراولف کیرو نے اسے Greek Tragedyڈرامے کے کسی ایکٹ سے تشبیہہ دی۔

نہرو نے قبائلیوں کے لیے توہین آمیز الفاظ استعمال کیے اورا نہیں پنشن پر گذارہ کرنے والی قابلِ رحم مخلوق قرار دیا۔ وزیرستان سے خیبر واپس آتے ہوئے اس کے استقبال کے لیے کوئی شخص موجود نہیں تھا۔

خیبر رَائفلز مَیس سے واپسی پر لنڈی کوتل کے مقام پر اُن پر پتھراؤ شروع ہو گیا خیبر رائفلز کے گارڈ ز کی فائرنگ سے ہجوم منتشر ہوگیا ۔مگر مالاکنڈ کے مقام پر نہر و پرپھر پتھراؤ ہوا جس سے ان کی ٹھوڑی اور کان زخمی ہوئے۔ یہاں خدائی خدمتگار رہنما عبدالغفار خان کے گارڈز کی فائرنگ سے ہجوم پیچھے ہٹ گیا۔غفار خان کے گاؤں میں سر خپوشوں نے نہر و کا استقبال کیا‘‘۔

’’برطانوی وزیرِ اعظم ایٹلی نے دسمبر 1946 میں نہرو اور جناح کو لندن مدعو کیا تاکہ ہندوستان میں انتقالِ اقتدار کا بحران حل ہوسکے ۔ اُسوقت تک لیاقت علی خان عبوری حکومت کے وزیرِ خزانہ بن چکے تھے۔ مسٹر جناح ، لیاقت علی کو ہمراہ لے کر لندن گئے۔

اُدھر ماؤنٹ بیٹن  نے نہرو کو لندن میں اپنے گھر ٹھہرنے کی پیشکش کی مگر نہرو نے ڈورچَیسٹر ہوٹل میں قیام کیا جہاں لیڈی ماؤنٹ بیٹن ایڈوینا نے اپنے لیے بھی ایک سویٹ بک کرا لیا تھا جہاں سے ہائیڈ پارک کا دلنشین منظر نظر آتا تھا۔ نہرو کے لیے یہ دن وزیراعظم ایٹلی کے ساتھ خشک مذاکرات کے بعد دل بہلانے کا ایک یاد گار اور حسین موقع تھا‘‘

مصنف لکھتا ہے ’’لارڈماؤنٹ بیٹن کی خواہش کے مطابق اسے ہندوستان کا آخری وائسرائے مقرر کر دیا گیا۔اُدھر نہرو کے دوست ماونٹ بیٹن اور ایڈوینا  اپنی بیٹی پامیلا کے ہمراہ ہندوستان کی قسمت کے مالک و مختار بن کر22مارچ 1947کی شام کو دہلی کے ہوائی اڈّے پر اترے تو نہرو نے خود اُن کا استقبال کیا۔ جواہر لال نے ایڈوینا کو پھول پیش کیے اور وہ اکٹھے وائسرائے ہاؤس (جو بعد میں صدر ہاؤس بنا) کے لیے روانہ ہوئے‘‘۔

مصنف لکھتا ہے ’’ کیبنٹ مشن نے جون 1948میں ہندوستان سے بوریا بسترسمیٹ کر جانے کا پروگرام بنا لیا تھا ۔گاندھی نے ہندوستان کی انتہائی سنگین صورتِ حال کا صحیح ادراک کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ آزاد اور متحدہ ہندوستان کو صرف مسٹر جناح کنٹرول کر سکتے ہیں ، گاندھی کا تعلق بھی جناح کی طرح گجرات سے تھا۔

اس لیے وہ مسٹر جناح کو نہرو سے بھی زیادہ جانتاتھا۔ اسی لیے وہ مسٹر جناح کو متحدہ ہندوستان کی وزارتِ عظمیٰ دینے کے لیے تیار تھا کیونکہ اس کے خیال میں مسٹر جناح برطانوی حکومت کے کسی بہترین وائسرائے کی طرح ایمانداری، غیرجانبداری اور کسی بھی خوف و لالچ کے بغیر ہندوستان پر حکمرانی کرنے کی اہلیت رکھتے تھے ، گاندھی کے خیال میں مسٹر جناح بے داغ کردار کے مالک تھے وہ کبھی اقرباء پروری میں ملوث نہیں ہوئے۔

کبھی جذبات میں آکر غلط فیصلے نہیں کرتے، اور کبھی جھوٹے وعدے نہیں کرتے۔وہ ان تمام انسانی کمزوریوں سے بالاتر تھے۔ گاندھی کے خیال میں اس سے علیحدگی کے بارے میں مسٹر جناح کے موقف میں نرمی بھی پیدا ہو گی ۔مصنف کے مطابق ’’ ماؤنٹ بیٹن نے مئی کے گرم مہینے میں نہرو اور کرشنا مینن کو شملہ کے پہاڑی مقام پر مدعو کیا، وائسرائے کے ساتھ اس کا اسٹاف اور ایڈوینا بھی تھی۔‘‘ شملے کا حال بھی وولپرٹ کی زبانی سن لیں ؛

’’ اُس خوبصورت لاج میں ایڈوینا اور نہرو بانہوں میں بانہیں ڈال کر چہل قدمی کرتے رہے اور اکٹھے پہاڑیوں پر بھی چڑھتے رہے۔ دونوں کو مکمل پرائیویسی میسر رہی۔ ایڈوینا بھی نہرو ہی کیطرح تھی … تنہائی کا شکار ، جذباتی دل کی مالکن …اپنے آپ کونامکمل سمجھنے والی اور اپنے دوسرے نصف کی متلاشی۔دونوں کو ایک دوسرے میں اپنا آئیڈیل نظر آیا ۔ خوبرو اور ہنس مکھ ماؤنٹ بیٹن نے ایڈوینا کو اسی طرح مایوس کیا تھا جس طرح کاملہ نے نہرو کو‘‘ ۔

’’وائسرائے کے لاج کے رومان پرور ماحول میں ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر چہل قدمی کرتے ہوئے دونوں نے ایک دوسرے کو دریافت کر لیا تھا۔شملہ کے پرفضا مقام پر نہرو وائسرائے کی بیوی کے ساتھ عشق لڑا رہا تھا جب کہ ان کے قدموں کے نیچے ہزاروں فٹ گہرائی پر ہندوستان پر تشدد ہنگاموں کی آگ میں سلگ رہا تھا۔‘‘ اڈوینا کے اثر و رسوخ کے باعث ماؤنٹ بیٹن نے کُھل کر نہرو اور کانگریس کی مدد کی۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔