تمام مقدمات کا سامنا کرونگا یہ سب فراڈکیس ہیںمشرف
اچھی حکومت چلائی،ملک کو زمین سے اٹھاکر آسمان پر لے گیا،ڈرنے والا نہیں ہوں،سابق صدر
اچھی حکومت چلائی،ملک کو زمین سے اٹھاکر آسمان پر لے گیا،ڈرنے والا نہیں ہوں،سابق صدر۔فوٹو:فائل
سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے کہا ہے پاکستان کیلیے جان بھی حاضر ہے، انھوں نے جو کچھ کیا وہ ملک اور عوام کے مفاد کیلیے کیا، وہ ڈرنے والے نہیں ہیں ، تمام مقدمات کا سامنا کریں گے یہ سب فراڈ کیس ہیں ، انھوں نے اچھی حکومت چلائی اور ملک کو زمین سے اٹھا کر آسمان پر لے گئے۔
موجودہ حکومت کے ساتھ ان کے اختلافات ہیں تاہم اگر یہ ملک و عوام کیلیے کچھ کرتی ہے تو ان کی نیک خواہشات اس کے ساتھ ہیں۔ ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ جب وہ پی ایم اے میں تھے تو انھوں نے حلف لیا تھا کہ وہ ملک کیلیے جان کی بازی لگا دیں گے۔ انھوں نے کہا کہ وہ مانتے ہیں کہ آئین کی بالا دستی ہونی چاہیے، جب ایسی حالت ہو کہ ملک ڈوب رہا ہو اور عوام بدحال ہوں تو ملک کو بچانا چاہیے۔ ایک طرف ملک اور دوسری طرف آئین تھا 12اکتوبر ہو یا تین نومبر انھوں نے ملک کے بہترین مفاد میں فیصلے کیے ۔آئندہ بھی موقعہ ملا تو پھر ملک کے لیے بہترین فیصلہ کریں گے۔ آئین کا آرٹیکل 5 کہتا ہے ملک کو بچانا ہر شخص کا فرض ہے اور یہی حلف انھوں نے پی ایم اے میں لیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ انھیں فخر ہے کہ ان پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے اور یہ الزام ہو بھی نہیں سکتا ہے کیونکہ ان کے ماں باپ نے ان کی تربیت ہی ایسی کی ہے۔ پاکستان واپس آنے کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ لوگ میری دماغی کیفیت کو سمجھیں کہ میں ملک واپس کیوں آیا، لوگوں نے بہت کہا کہ نہ آئیں بہت خطرہ ہے لیکن وہ اس کے باوجود واپس آئے،انھوں نے کہا کہ یہ میرا ملک ہے ، ان کا گھر ، رشتے دار ،دوست سب یہاں ہیں وہ یہاں نہیں آئیں گے تو اور کہاں جائیں گے،انھوں نے کہا کہ وہ اس لیے بھی پاکستان آئے کیونکہ لوگ تبدیلی کے لیے تیار تھے، ملک کی معیشت تباہ ہو چکی تھی، آپ اس دور کا میرے دور سے موازنہ کر لیں۔
شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کی موجودگی اور ڈرون حملوں کے حوالے سے انھوں نے کہاکہ امریکا کے ساتھ ڈرون حملوں کا کوئی معاہدہ نہیں تھا، اس بات کا بھی جھوٹ نہیں بول سکتے کہ طالبان ہمارے سرحدی علاقوں میں نہیں ہیں، امریکی فورسز کے ساتھ انیٹلی جنس معلومات کا تبادلہ ہوتا تھا، یہ طے تھا کہ وہ بتائیں گے اور کارروائی ہم خود کریں گے، انھوں نے کہا کہ طالبان سے کمزور حالت میں ہوتے ہوئے مذاکرات نہیں کرنے چاہیں، آپ بات کرنا چاہتے ہو اور وہ بات نہیں کرنا چاہتے کیوں اپنی بے عزتی کروا رہے ہو، پہلے طاقتور ہو پھر ان سے مذاکرات کرو، بھیک مانگنے والا بھکاری ہو یا ملک اسے ٹھڈے ہی پڑتے ہیں۔
اپنی والدہ کے حوالے سے پرویز مشرف نے کہا کہ مارچ میں ان کی عمر 96 سال ہو جائے گی۔ آپ ان کی صحت کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔وہ اپنی والدہ کو اور ان کی والدہ انہیں بہت یاد کرتی ہیں۔ انھوں نے ایک بار پھر کہا کہ وہ دلیری کے ساتھ تمام مقدمات کا سامنا کریں گے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو۔ انھوں نے کہا کہ ہماری حکومت زیادہ جمہوری تھی۔ اس نے لوگوں کو خوشحالی دی میڈیا کو آزاد کیا، خواتین، اقلیتوں کو بااختیار بنایا۔انھوں نے کہا کہ اب فرقہ واریت بھی شروع ہو گئی ہے۔ اس کو بھی کنٹرول کیا جانا چاہیے کیونکہ ہمارا شمار بدترین ممالک میں ہو رہا ہے۔ پرویز مشرف نے کہا کہ بیرونی عناصر کا مقابلہ کرنے کیلیے عوام فوج کا ساتھ دیں۔
موجودہ حکومت کے ساتھ ان کے اختلافات ہیں تاہم اگر یہ ملک و عوام کیلیے کچھ کرتی ہے تو ان کی نیک خواہشات اس کے ساتھ ہیں۔ ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ جب وہ پی ایم اے میں تھے تو انھوں نے حلف لیا تھا کہ وہ ملک کیلیے جان کی بازی لگا دیں گے۔ انھوں نے کہا کہ وہ مانتے ہیں کہ آئین کی بالا دستی ہونی چاہیے، جب ایسی حالت ہو کہ ملک ڈوب رہا ہو اور عوام بدحال ہوں تو ملک کو بچانا چاہیے۔ ایک طرف ملک اور دوسری طرف آئین تھا 12اکتوبر ہو یا تین نومبر انھوں نے ملک کے بہترین مفاد میں فیصلے کیے ۔آئندہ بھی موقعہ ملا تو پھر ملک کے لیے بہترین فیصلہ کریں گے۔ آئین کا آرٹیکل 5 کہتا ہے ملک کو بچانا ہر شخص کا فرض ہے اور یہی حلف انھوں نے پی ایم اے میں لیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ انھیں فخر ہے کہ ان پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے اور یہ الزام ہو بھی نہیں سکتا ہے کیونکہ ان کے ماں باپ نے ان کی تربیت ہی ایسی کی ہے۔ پاکستان واپس آنے کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ لوگ میری دماغی کیفیت کو سمجھیں کہ میں ملک واپس کیوں آیا، لوگوں نے بہت کہا کہ نہ آئیں بہت خطرہ ہے لیکن وہ اس کے باوجود واپس آئے،انھوں نے کہا کہ یہ میرا ملک ہے ، ان کا گھر ، رشتے دار ،دوست سب یہاں ہیں وہ یہاں نہیں آئیں گے تو اور کہاں جائیں گے،انھوں نے کہا کہ وہ اس لیے بھی پاکستان آئے کیونکہ لوگ تبدیلی کے لیے تیار تھے، ملک کی معیشت تباہ ہو چکی تھی، آپ اس دور کا میرے دور سے موازنہ کر لیں۔
شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کی موجودگی اور ڈرون حملوں کے حوالے سے انھوں نے کہاکہ امریکا کے ساتھ ڈرون حملوں کا کوئی معاہدہ نہیں تھا، اس بات کا بھی جھوٹ نہیں بول سکتے کہ طالبان ہمارے سرحدی علاقوں میں نہیں ہیں، امریکی فورسز کے ساتھ انیٹلی جنس معلومات کا تبادلہ ہوتا تھا، یہ طے تھا کہ وہ بتائیں گے اور کارروائی ہم خود کریں گے، انھوں نے کہا کہ طالبان سے کمزور حالت میں ہوتے ہوئے مذاکرات نہیں کرنے چاہیں، آپ بات کرنا چاہتے ہو اور وہ بات نہیں کرنا چاہتے کیوں اپنی بے عزتی کروا رہے ہو، پہلے طاقتور ہو پھر ان سے مذاکرات کرو، بھیک مانگنے والا بھکاری ہو یا ملک اسے ٹھڈے ہی پڑتے ہیں۔
اپنی والدہ کے حوالے سے پرویز مشرف نے کہا کہ مارچ میں ان کی عمر 96 سال ہو جائے گی۔ آپ ان کی صحت کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔وہ اپنی والدہ کو اور ان کی والدہ انہیں بہت یاد کرتی ہیں۔ انھوں نے ایک بار پھر کہا کہ وہ دلیری کے ساتھ تمام مقدمات کا سامنا کریں گے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو۔ انھوں نے کہا کہ ہماری حکومت زیادہ جمہوری تھی۔ اس نے لوگوں کو خوشحالی دی میڈیا کو آزاد کیا، خواتین، اقلیتوں کو بااختیار بنایا۔انھوں نے کہا کہ اب فرقہ واریت بھی شروع ہو گئی ہے۔ اس کو بھی کنٹرول کیا جانا چاہیے کیونکہ ہمارا شمار بدترین ممالک میں ہو رہا ہے۔ پرویز مشرف نے کہا کہ بیرونی عناصر کا مقابلہ کرنے کیلیے عوام فوج کا ساتھ دیں۔