کورونا مہنگائی اور احتجاجی تحریک حکومت شدید مشکلات میں
حکومت کیلئے چیلنجز بڑھتے جا رہے ہیں پی ٹی آئی پر فارن فنڈ نگ کیس کی تلوار لٹک رہی ہے۔
حکومت کیلئے چیلنجز بڑھتے جا رہے ہیں پی ٹی آئی پر فارن فنڈ نگ کیس کی تلوار لٹک رہی ہے۔فوٹو : فائل
ملکی سیاست تشدد کی جانب بڑھتی دکھائی دے رہی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن جماعتیں آمنے سامنے ہیں، دونوں طرف سے سیاسی رہنماوں کی لفظی گولہ باری جاری ہے۔
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جاری سیاسی جنگ ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید تیز ہوتی جا رہی ہے اور یہ اعصاب کی جنگ ہے یہ جنگ وہی فریق جیت پائے گا جو مضبوط اعصاب کا مالک ہوگا اور ایک دوسرے کے اعصاب کمزور کرنے کیلئے فریقین اپنے اپنے کارڈز بطریق احسن کھیل رہے ہیں، اعصاب کی اس جنگ میں حکومت اور اپوزیشن کیلئے چیلنجز بھی مزید بڑھتے جا رہے ہیں۔
اپوزیشن کیلئے حکومت کی دفاعی حکمت عملی کو ناکام بنانے کے ساتھ ساتھ حکومت مخالف تحریک کو کامیاب بنانے کیلئے عوام کو چارج کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھنا اور حکومت مخالف محاذ کا وجود برقرار رکھنا بھی بڑا چیلنج ہے۔ ادھر حکومت کیلئے چیلنجز بڑھتے جا رہے ہیں پی ٹی آئی پر فارن فنڈ نگ کیس کی تلوار لٹک رہی ہے اور کافی عرصے سے یہ معاملہ لٹکایا جا رہا ہے اور کپتان و اسکی جماعت نے عدالتی حکم امتناعی حاصل کر رکھا تھا جو کہ اب ختم ہوگیا ہے۔
ایک تو اس کیس میں حکومت کی مشکلات بڑھیں گی تو اوپر سے پاکستان کی سپریم کورٹ نے وزیر اعظم عمران خان کو اْن کی اپنی ہی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے وکلا (انصاف لائرز فورم) کی ایک تقریب پر شرکت کرنے پر نوٹس جاری کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ نو اکتوبر (جمعہ) کو وزیر اعظم عمران خان نے انصاف لائرز فورم کی جانب سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں شرکت کی تھی اور حاضرین سے خطاب بھی کیا تھا جس میں انھوں نے اپنے سیاسی حریفوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے یہ نوٹس اسی تقریب میں شرکت پر جاری کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ میں یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب عدالت صوبہ پنجاب کے ریونیو کے ایک مقدمے کی سماعت کر رہی تھی۔ اس مقدمے کی سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے کی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ بادی النظر میں وزیر اعظم نے اس تقریب میں ذاتی حیثیت میں شرکت کی اور وزیراعظم کسی خاص گروپ کے ساتھ الائن نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ پورے ملک کے وزیرِ اعظم ہیں اور وزیراعظم نے وکلا کی تقریب میں شرکت کر کے وکلا کے کسی ایک گروپ کی حمایت کی ہے۔
جسٹس قاٰضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ یہ معاملہ آئین کی تشریح اور بنیادی حقوق کا ہے۔ پنجاب کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل قاسم چوہان نے عدالت کو بتایا کہ ہر سیاسی جماعت کا ایک وکلا ونگ ہے اور آئین کا آرٹیکل 17 جلسے جلوس کی اجازت دیتا ہے، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ یہ تقریب کسی پرائیوٹ ہوٹل میں ہوتی تو اور بات تھی ا ور اس تقریب کے لیے ٹیکس کے پیسوں کا استعمال کیا گیا۔
دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی نے مولانا عادل شہادت کیس میں شیخ رشید کو شامل تفتیش کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے لیکن یہ سمجھ نہیں آرہی کہ وزیر تعلیم سندھ سعید غنی مولانا عادل کی شہادت کے کیس میں وزیر ریلوے شیخ رشید کو شامل تفتیش کرنے کا مطالبہ کرکس سے رہے ہیں کیونکہ سندھ میں حکومت ان کی اپنی ہے۔ اگر شیخ رشید کو شامل کرنا ہے تو کیس بنائیں اور طلب کر لیں، یہ مطالبے والی بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے یا وہ اس معاملے پر بھی سیاست کر رہے ہیں۔البتہ سعید غنی کی جانب سے پریس کانفرنس میں شیخ رشید کے حوالے سے اٹھائے جانے والے سوالات وزن ضرور رکھتے ہیں۔
سعید غنی کا کہنا تھا کہ شیخ رشید نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کے جلسوں میں کورونا اور دہشت گردی پھیلنے کا خدشہ ہے، اگر شیخ رشید کو دہشت گردی کا علم ہے تو حکومت نے کیا انتظامات کیے، لہذا اس سے متعلق شیخ رشید کو شامل تفتیش کیا جائے۔ ابھی آگے اپوزیشن کے جلسے و جلوس ہونے جا رہے ہیں ، حکومت اور اپوزیشن دونوں کو اس حالیہ واقعہ کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے، ابھی اگرچہ وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت سیاسی امور پر حکومتی رہنماؤں کے اجلاس میں بڑا فیصلہ سامنے آیا ہے جسے سیاسی تجزیہ کاروں کی جانب سے سراہا جا رہا ہے۔
وزیراعظم کی زیر صدارت ہونیوالے اس اجلاس میں ملکی سیاسی صورتحال پر غور ہوا اور اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک پر مشاورت کی گئی۔ حکومتی پولیٹیکل کمیٹی نے صورتحال سے متعلق تجاویز پیش کی اور اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ حکومت اپوزیشن جماعتوں کے جلسوں اور ریلیوں میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالے گی اور اپوزیشن ملک بھر میں جہاں جلسے کرے اجازت ہوگی، پی ڈی ایم کو جلسوں کے این او سی جاری کیے جائیں گے، تاہم اپوزیشن کو جلسوں میں کورونا ایس او پیز کا پابند بنایا جائے گا۔
اس موقع پر وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ پرامن احتجاج اور جلسے کرنا اپوزیشن کا حق ہے، لیکن احتجاج کی آڑ میں انتشار پھیلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، اپوزیشن کی تحریک عوام کی نہیں بلکہ سیاسی ایلیٹ کے مفادات کے تحفظ کے لیے ہے، اپوزیشن حکومت پر دباو ڈال کر کرپشن کیسز سے چھٹکارا چاہتی ہے، عوام کو سیاستدانوں کی کرپشن بچاو تحریک میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اب یہ تو وقت بتائے گا کہ عوام کو اپوزیشن کے جلسوں میں دلچسپی ہے یا نہیں ہے مگر ابھی کارنرز میٹنگز نے ہی حکومتی رہنماوں کو پریشان کر رکھا ہے اور ان چیلنجز سے نمٹنا پی ٹی آئی حکومت کیلئے ایک بڑا امتحان ہے۔
اپوزیشن کی جانب سے دباو تو چیلنج ہے ہی لیکن اس سے بڑا چیلنج مہنگائی کے جن کا بے قابو ہونا آئی ایم ایف کے ساتھ جاری مذاکرات اور آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام کو دوبارہ ٹریک پر لانا اور پھر فیٹف کی لٹکتی ہوئی تلوار اس سے بھی بڑے چیلنجز ہیں۔ فیٹف کا اکیس اکتوبر سے اہم اجلاس ہونے جا رہا ہے۔
پاکستان فیٹف میں حمایت کیلئے لابنگ کر رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ فیٹف سے نکلنے کا فیصلہ سیاسی بنیادوں پر ہوگا اور اسکی پاکستان کو کونسی بھاری قیمت چکانا ہوگی یہ سب سے اہم ہے کیونکہ عالمی طاقتین اس پلیٹ فارم کو اپنی باتیں منوانے کیلئے بازو مروڑنے کے آلہ کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔
فیٹف سے مذاکرات میں شامل شخصیات کا کہنا ہے کہ پاکستان جو کچھ کر سکتا تھا وہ کر لیا ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں ہو سکتا ہے۔ فیٹف سے نکلنے کے دو ہی راستے ہیں، پہلا شرائط پر پورا عملدرآمد کرنا جو کہ ناممکن ہے اور دوسرا راستہ مطلوبہ تعداد میں ممبر ممالک کی حمایت حاصل کرنا اور یہ حمایت عالمی قوتوں کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں ہے، البتہ دوست ممالک کے ویٹو کرنے سے پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں جانے کے امکانات انتہائی کم ہیں۔
اگر سیاسی سطح پر عالمی قوتوں نے پاکستان کو ریلیف دیا تو نام گرے لسٹ سے نکل سکے گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ مزید کچھ عرصے کیلئے گرے لسٹ میں ہی رکھا جائے اور فیٹف کے معاملے میں امریکی انتخابات کا بھی عمل دخل بہت زیادہ ہے، اب اگر سیاسی بنیادوں پر پاکستان فیٹف گرے لسٹ سے نام نکلوانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ موجودہ حکومت کا بڑا معرکہ ہوگا مگر ساتھ ہی یہ حکومت کیلئے ایک بڑا چیلنج ہوگا کہ اگر سیاسی بنیادوں پر نام نکلوایا جاتا ہے تو اسکی قیمت کیا چکانا پڑے گی۔
مستقبل کے عالمی منظر نامے میں ہمارا کیا کردار ہوگا ۔ کچھ ایسی ہی صورتحال آئی ایم ایف کے معاملے میں ہے اور آئی ایم ایف کی اپنی ساکھ بھی اب داو پر لگی ہے اور پاکستان کو پروگرام ٹریک پر لانے کیلئے بجلی،گیس کی قیمتوں میں اضافہ سمیت ڈومور کا کہا جا رہا ہے۔ ان حالات میں اگر حکومت آئی ایم ایف کی شرائط مانتی ہے اور دسمبر تک یا جنوری میں منی بجٹ لاتی ہے تو اس سے حکومت کی مشکلات مزید بڑھ جائیں گی۔
اس کے علاوہ کورونا بھی پھر سے سراٹھانا شروع ہوگیا ہے اور کورونا کیسز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور پھر حکومت اپوزیشن تحریک کو ناکام بنانے کیلئے بھی کورونا کارڈ استعمال کرنے کی تیاریاں کر رہی ہے اب یہ وقت بتائے گا کہ کیا حکومت کا یہ کارڈ کامیاب ہو پائے گا یا نہیں۔
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جاری سیاسی جنگ ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید تیز ہوتی جا رہی ہے اور یہ اعصاب کی جنگ ہے یہ جنگ وہی فریق جیت پائے گا جو مضبوط اعصاب کا مالک ہوگا اور ایک دوسرے کے اعصاب کمزور کرنے کیلئے فریقین اپنے اپنے کارڈز بطریق احسن کھیل رہے ہیں، اعصاب کی اس جنگ میں حکومت اور اپوزیشن کیلئے چیلنجز بھی مزید بڑھتے جا رہے ہیں۔
اپوزیشن کیلئے حکومت کی دفاعی حکمت عملی کو ناکام بنانے کے ساتھ ساتھ حکومت مخالف تحریک کو کامیاب بنانے کیلئے عوام کو چارج کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھنا اور حکومت مخالف محاذ کا وجود برقرار رکھنا بھی بڑا چیلنج ہے۔ ادھر حکومت کیلئے چیلنجز بڑھتے جا رہے ہیں پی ٹی آئی پر فارن فنڈ نگ کیس کی تلوار لٹک رہی ہے اور کافی عرصے سے یہ معاملہ لٹکایا جا رہا ہے اور کپتان و اسکی جماعت نے عدالتی حکم امتناعی حاصل کر رکھا تھا جو کہ اب ختم ہوگیا ہے۔
ایک تو اس کیس میں حکومت کی مشکلات بڑھیں گی تو اوپر سے پاکستان کی سپریم کورٹ نے وزیر اعظم عمران خان کو اْن کی اپنی ہی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے وکلا (انصاف لائرز فورم) کی ایک تقریب پر شرکت کرنے پر نوٹس جاری کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ نو اکتوبر (جمعہ) کو وزیر اعظم عمران خان نے انصاف لائرز فورم کی جانب سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں شرکت کی تھی اور حاضرین سے خطاب بھی کیا تھا جس میں انھوں نے اپنے سیاسی حریفوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے یہ نوٹس اسی تقریب میں شرکت پر جاری کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ میں یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب عدالت صوبہ پنجاب کے ریونیو کے ایک مقدمے کی سماعت کر رہی تھی۔ اس مقدمے کی سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے کی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ بادی النظر میں وزیر اعظم نے اس تقریب میں ذاتی حیثیت میں شرکت کی اور وزیراعظم کسی خاص گروپ کے ساتھ الائن نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ پورے ملک کے وزیرِ اعظم ہیں اور وزیراعظم نے وکلا کی تقریب میں شرکت کر کے وکلا کے کسی ایک گروپ کی حمایت کی ہے۔
جسٹس قاٰضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ یہ معاملہ آئین کی تشریح اور بنیادی حقوق کا ہے۔ پنجاب کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل قاسم چوہان نے عدالت کو بتایا کہ ہر سیاسی جماعت کا ایک وکلا ونگ ہے اور آئین کا آرٹیکل 17 جلسے جلوس کی اجازت دیتا ہے، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ یہ تقریب کسی پرائیوٹ ہوٹل میں ہوتی تو اور بات تھی ا ور اس تقریب کے لیے ٹیکس کے پیسوں کا استعمال کیا گیا۔
دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی نے مولانا عادل شہادت کیس میں شیخ رشید کو شامل تفتیش کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے لیکن یہ سمجھ نہیں آرہی کہ وزیر تعلیم سندھ سعید غنی مولانا عادل کی شہادت کے کیس میں وزیر ریلوے شیخ رشید کو شامل تفتیش کرنے کا مطالبہ کرکس سے رہے ہیں کیونکہ سندھ میں حکومت ان کی اپنی ہے۔ اگر شیخ رشید کو شامل کرنا ہے تو کیس بنائیں اور طلب کر لیں، یہ مطالبے والی بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے یا وہ اس معاملے پر بھی سیاست کر رہے ہیں۔البتہ سعید غنی کی جانب سے پریس کانفرنس میں شیخ رشید کے حوالے سے اٹھائے جانے والے سوالات وزن ضرور رکھتے ہیں۔
سعید غنی کا کہنا تھا کہ شیخ رشید نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کے جلسوں میں کورونا اور دہشت گردی پھیلنے کا خدشہ ہے، اگر شیخ رشید کو دہشت گردی کا علم ہے تو حکومت نے کیا انتظامات کیے، لہذا اس سے متعلق شیخ رشید کو شامل تفتیش کیا جائے۔ ابھی آگے اپوزیشن کے جلسے و جلوس ہونے جا رہے ہیں ، حکومت اور اپوزیشن دونوں کو اس حالیہ واقعہ کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے، ابھی اگرچہ وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت سیاسی امور پر حکومتی رہنماؤں کے اجلاس میں بڑا فیصلہ سامنے آیا ہے جسے سیاسی تجزیہ کاروں کی جانب سے سراہا جا رہا ہے۔
وزیراعظم کی زیر صدارت ہونیوالے اس اجلاس میں ملکی سیاسی صورتحال پر غور ہوا اور اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک پر مشاورت کی گئی۔ حکومتی پولیٹیکل کمیٹی نے صورتحال سے متعلق تجاویز پیش کی اور اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ حکومت اپوزیشن جماعتوں کے جلسوں اور ریلیوں میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالے گی اور اپوزیشن ملک بھر میں جہاں جلسے کرے اجازت ہوگی، پی ڈی ایم کو جلسوں کے این او سی جاری کیے جائیں گے، تاہم اپوزیشن کو جلسوں میں کورونا ایس او پیز کا پابند بنایا جائے گا۔
اس موقع پر وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ پرامن احتجاج اور جلسے کرنا اپوزیشن کا حق ہے، لیکن احتجاج کی آڑ میں انتشار پھیلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، اپوزیشن کی تحریک عوام کی نہیں بلکہ سیاسی ایلیٹ کے مفادات کے تحفظ کے لیے ہے، اپوزیشن حکومت پر دباو ڈال کر کرپشن کیسز سے چھٹکارا چاہتی ہے، عوام کو سیاستدانوں کی کرپشن بچاو تحریک میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اب یہ تو وقت بتائے گا کہ عوام کو اپوزیشن کے جلسوں میں دلچسپی ہے یا نہیں ہے مگر ابھی کارنرز میٹنگز نے ہی حکومتی رہنماوں کو پریشان کر رکھا ہے اور ان چیلنجز سے نمٹنا پی ٹی آئی حکومت کیلئے ایک بڑا امتحان ہے۔
اپوزیشن کی جانب سے دباو تو چیلنج ہے ہی لیکن اس سے بڑا چیلنج مہنگائی کے جن کا بے قابو ہونا آئی ایم ایف کے ساتھ جاری مذاکرات اور آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام کو دوبارہ ٹریک پر لانا اور پھر فیٹف کی لٹکتی ہوئی تلوار اس سے بھی بڑے چیلنجز ہیں۔ فیٹف کا اکیس اکتوبر سے اہم اجلاس ہونے جا رہا ہے۔
پاکستان فیٹف میں حمایت کیلئے لابنگ کر رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ فیٹف سے نکلنے کا فیصلہ سیاسی بنیادوں پر ہوگا اور اسکی پاکستان کو کونسی بھاری قیمت چکانا ہوگی یہ سب سے اہم ہے کیونکہ عالمی طاقتین اس پلیٹ فارم کو اپنی باتیں منوانے کیلئے بازو مروڑنے کے آلہ کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔
فیٹف سے مذاکرات میں شامل شخصیات کا کہنا ہے کہ پاکستان جو کچھ کر سکتا تھا وہ کر لیا ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں ہو سکتا ہے۔ فیٹف سے نکلنے کے دو ہی راستے ہیں، پہلا شرائط پر پورا عملدرآمد کرنا جو کہ ناممکن ہے اور دوسرا راستہ مطلوبہ تعداد میں ممبر ممالک کی حمایت حاصل کرنا اور یہ حمایت عالمی قوتوں کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں ہے، البتہ دوست ممالک کے ویٹو کرنے سے پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں جانے کے امکانات انتہائی کم ہیں۔
اگر سیاسی سطح پر عالمی قوتوں نے پاکستان کو ریلیف دیا تو نام گرے لسٹ سے نکل سکے گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ مزید کچھ عرصے کیلئے گرے لسٹ میں ہی رکھا جائے اور فیٹف کے معاملے میں امریکی انتخابات کا بھی عمل دخل بہت زیادہ ہے، اب اگر سیاسی بنیادوں پر پاکستان فیٹف گرے لسٹ سے نام نکلوانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ موجودہ حکومت کا بڑا معرکہ ہوگا مگر ساتھ ہی یہ حکومت کیلئے ایک بڑا چیلنج ہوگا کہ اگر سیاسی بنیادوں پر نام نکلوایا جاتا ہے تو اسکی قیمت کیا چکانا پڑے گی۔
مستقبل کے عالمی منظر نامے میں ہمارا کیا کردار ہوگا ۔ کچھ ایسی ہی صورتحال آئی ایم ایف کے معاملے میں ہے اور آئی ایم ایف کی اپنی ساکھ بھی اب داو پر لگی ہے اور پاکستان کو پروگرام ٹریک پر لانے کیلئے بجلی،گیس کی قیمتوں میں اضافہ سمیت ڈومور کا کہا جا رہا ہے۔ ان حالات میں اگر حکومت آئی ایم ایف کی شرائط مانتی ہے اور دسمبر تک یا جنوری میں منی بجٹ لاتی ہے تو اس سے حکومت کی مشکلات مزید بڑھ جائیں گی۔
اس کے علاوہ کورونا بھی پھر سے سراٹھانا شروع ہوگیا ہے اور کورونا کیسز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور پھر حکومت اپوزیشن تحریک کو ناکام بنانے کیلئے بھی کورونا کارڈ استعمال کرنے کی تیاریاں کر رہی ہے اب یہ وقت بتائے گا کہ کیا حکومت کا یہ کارڈ کامیاب ہو پائے گا یا نہیں۔