غرناطہ اور ڈھاکا
ماضی پرستی اور ماضی شناسی دو مختلف انداز فکر ہیں، تاریخ کو دیکھنے اور سمجھنے کے لیے
ماضی پرستی اور ماضی شناسی دو مختلف انداز فکر ہیں، تاریخ کو دیکھنے اور سمجھنے کے لیے۔
قوموں کے عروج و زوال کے حوالے سے یہ دونوں رویے ہی اس مقام کا تعین کرتے ہیں جو کسی قوم کو تاریخ میں حاصل ہوتا ہے۔ افراد کی طرح اقوام بھی وقت کے ارتقائی عمل سے گزرتی ہیں۔ شکست و ریخت، تعمیر و تخریب اور ترقی و تنزل کے تمام مرحلے قوموں کے وجود کا حصہ ہیں۔
ماضی پرستی اور عقیدت سے عبارت ہے، جذبات کے سہارے پروان چڑھتی ہے اور کسی قوم کی اجتماعی نفسیات بن جاتی ہے۔ اس پرکیف لیکن مہلک عارضے میں مبتلا قومیں بے بسی اور بے حسی کی علامتوں سے پہچانی جاتی ہیں۔
ماضی شناسی شعور اور حقیقت سے عبارت ہے۔ خود احتسابی کو اپنا فرض اولین سمجھنے والی قومیں گلوبل معاشرے میں پروقار مقام حاصل کرلیتی ہیں۔ اپنی کوتاہیوں کا ادراک رکھنے والے معاشرے زمانے کے سامنے اعتراف جرم کرنے میں کوئی خوف محسوس نہیں کرتے۔
آئیے آج ہم وطن کے تمام طبقات بحیثیت قوم یہ تلخ حقیقت تسلیم کرلیں کہ 41 سال قبل ڈھاکا کا سانحہ ہم سب کے اجتماعی جرائم کا نتیجہ تھا۔ 16 دسمبر پوری قوم کی تاریخی، سیاسی، سماجی اور تہذیبی شکست تھی۔
چار عشرے قبل پاکستان کا دولخت ہوجانا کوئی فوری حادثہ نہیں تھا۔ اس کی بنیاد تو آزادی کے فوراً بعد ہی رکھ دی گئی تھی۔ اس حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا کہ مختصر سے عرصے کی گریہ و زاری کے بعد ہم نے ان ہی غلطیوں کا اعادہ شروع کردیا جن کے نتیجے میں ملک دو ٹکڑے ہوا۔ ہمارے حکمران، سیاست داں اور پالیسی میکرز اسی بے حسی اور بے توجہی کا شکار ہوگئے جو 1971 کے وقت موجود تھی۔
قومیں اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں سے سبق حاصل کرکے مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرتی ہیں۔ اگر مسلم امہ نے شکست بغداد سے کوئی درس لیا ہوتا تو سانحہ غرناطہ کی سیاہی ہمارا مقدر نہ ٹھہرتی۔ اور اگر پاکستانی قوم اس سیاہی سے خودداری و خود آگاہی کے چراغ جلا لیتی تو سقوط ڈھاکا کا تاریک باب ہماری تاریخ میں رقم نہ ہوتا۔
اقبال نے ہسپانیہ کو خون مسلم کا امین تو قرار دیا لیکن اس خون کی ارزانی میں کون کون شریک جرم تھا، اس کا تجزیہ کون کرے گا؟
قرطبہ کے محلات اور غرناطہ کے باغات کا پرکیف رومان اپنی جگہ، لیکن ان خرابیوں کا ذکر کون کرے گا جو اس عظیم الشان سلطنت کی تعمیر میں ہی مضمر تھیں۔ الحمراء کے سحر انگیز نقش و نگار میں ہی وہ تمام نشانیاں بھی عبرت کا سامان فراہم کرتی ہیں جو سات صدیوں پر محیط عظیم الشان ریاست کی بربادی کا باعث ثابت ہوئیں۔ ملوکیت، آمرانہ نظام، موروثی اقتدار، اقربا پروری، عیش و عشرت، قومیت و تعصب نے زوال کو یقینی بنادیا۔ عرب و بربر، عرب و عجم اور ہاشمی و غیر ہاشمی کی تقسیم نے اسپین کے معاشرے کو زہر آلود کردیا تھا۔
عظیم فتوحات اور شاندار علمی خدمات بھی کرہ ارض پر قائم سپر پاور کے عبرتناک انجام کو روک نہ سکیں۔ 1492 مسلمانوں کی تاریخ میں سیاہ باب کے نام سے رقم ہوگیا۔ پانچ صدیاں گزر گئیں، مسلم امہ کو سیکھنے، سمجھنے اور سدھرنے کے لیے۔
مغرب نے 1992 میں مسلمانوں کی عبرت کے لیے بارسلونا اولمپکس کا میلا سجایا تھا۔ فاتح فرڈیننڈ اور مفتوح ابو عبداللہ کا فراموش کردہ باب گم کردہ راہ امہ کو آئینہ دکھانے کے لیے ایک استعارہ تھا۔
مسلمانان برصغیر کے پیش نظر تو ایک ہزار برس کے عروج و زوال کی پوری تاریخ ہے۔ کامیابیوں، ناکامیوں، کوتاہیوں اور غلطیوں کی طویل فہرست ہے۔
جنوبی ایشیا کے نقشے پر برصغیر کا خطہ اپنے مختلف النوع تہذیبی پس منظر کے حوالے سے دنیا کے دیگر ممالک سے منفرد اور ممتاز شناخت رکھتا ہے۔ ہندوستان کی سرزمین تجارتی قافلوں کی گزرگاہ اور حملہ آوروں کی آماجگاہ رہی ہے۔ سیکڑوں زبانوں اور قبیلوں پر مشتمل، رنگا رنگ ثقافتوں سے مزین بے شمار قومیں ہزاروں سال سے یہاں آباد ہیں۔ دنیا بھر کے تمام الہامی اور غیر الہامی مذاہب کے ماننے والے لوگ نسل در نسل یہاں رہتے ہیں۔
تاریخی پس منظر کے حوالے سے ہم دیکھتے ہیں کہ مذہب کے نام پر برصغیر کی تقسیم اور نئی مملکت کے قیام میں دیگر عوامل بھی شامل تھے۔ مسلمانوں کو اپنی دینی اقدار کے تحفظ اور ان پر عمل پیرا ہونے کے لیے ایک نئے وطن کی ضرورت تھی لیکن بیسویں صدی میں ایک قومی ریاست کے قیام کا صرف یہی ایک سبب نہیں تھا بلکہ دیگر معاشی، سماجی، تہذیبی، جغرافیائی اور سیاسی محرکات نے بھی تحریک پاکستان کو مہمیز کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔
آزادی کے بعد نئی ریاست کو بڑے بڑے مسائل درپیش تھے۔ سب سے اہم مسئلہ آئین سازی اور مستقبل کی قومی پالیسی کی تشکیل کا تھا۔ ہمارے حکمرانوں، سیاست دانوں اور پالیسی سازوں نے ایک باوقار قوم اور ترقی یافتہ وطن کے لیے کوئی خاکہ ہی تیار نہیں کیا جو معروضی اور زمینی حقائق کے تقاضے پورے کرتا ہو۔ دنیا کے نقشے پر ابھرتی ہوئی جدید قومی ریاستوں کے ماڈل ہمارے سامنے تھے لیکن ہماری قیادت فکری انتشار کا شکار تھی۔ پالیسی سازوں کو تسلیم کرلینا چاہیے تھا کہ زبان و ادب، رسم و رواج، اقدار و روایات کسی قومی ریاست کی تشکیل اور اس کے تہذیبی ارتقا کے بنیادی لوازمات ہیں۔ اگر نظریہ پاکستان زمینی حقیقت تھی تو ثقافتی وحدتوں کے وجود کو تسلیم کرنا زیر زمین حقیقت تھی۔
اہل پاکستان کا من حیث القوم مجرمانہ کردار ہے کہ تحریک آزادی میں پیش پیش رہنے والے بنگالی مسلمانوں کو مساوی درجہ دینے کے بجائے ان کی ثقافتی وحدت کو مسلم اور غیر مسلم کے حوالے سے دیکھا گیا۔ معاشی اور سماجی حوالے سے بنگالی برصغیر کے پسماندہ ترین مقام پر ہونے کے باوجود ترقی یافتہ زبان و ادب اور بھرپور ثقافتی ورثے کے مالک تھے۔ برصغیر کی تمام زبانوں میں ادب کے شعبے کے حوالے سے واحد نوبل انعام یافتہ رابندر ناتھ ٹیگور بنگالی تھے۔ قاضی نذر الاسلام جیسے عظیم ادیب کا نام کیسے فراموش کیا جاسکتا ہے۔
ہم نے نظریہ پاکستان کے نام پر محبت سے لبریز زبانوں کو باہم متصادم کردیا۔ نتیجتاً زبان کی بنیاد پر انسان متصادم ہوگئے اور۔۔۔۔ پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ اندھیاروں کا سفر جاری رہا۔ محبتوں کے چراغ روشن کرنے کے بجائے نفرتوں کی آگ لگادی گئی۔ جو جلتی رہی، پھیلتی رہی۔ ہر ستمگر نے بقدر توفیق اس آگ کو پھیلانے میں اپنے حصے کا کردار ادا کیا۔
اور پھر 1971 آگیا۔ رشتے ٹوٹ گئے، اپنے روٹھ گئے، سنہرے ریشے کی سرزمین اپنوں کے ہی خون سے سرخ ہوگئی۔ خون کی یہ سرخی ہمارے ناراض بھائیوں کے لیے امیدوں کی نئی صبح لے کر طلوع ہوئی لیکن برصغیر کے مسلمانوں کو ندامت کا داغ دے کر تاریخ کا حصہ بن گئی۔
فیض صاحب یہ حسرت لیے دنیا سے چلے گئے:
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
قوموں کے عروج و زوال کے حوالے سے یہ دونوں رویے ہی اس مقام کا تعین کرتے ہیں جو کسی قوم کو تاریخ میں حاصل ہوتا ہے۔ افراد کی طرح اقوام بھی وقت کے ارتقائی عمل سے گزرتی ہیں۔ شکست و ریخت، تعمیر و تخریب اور ترقی و تنزل کے تمام مرحلے قوموں کے وجود کا حصہ ہیں۔
ماضی پرستی اور عقیدت سے عبارت ہے، جذبات کے سہارے پروان چڑھتی ہے اور کسی قوم کی اجتماعی نفسیات بن جاتی ہے۔ اس پرکیف لیکن مہلک عارضے میں مبتلا قومیں بے بسی اور بے حسی کی علامتوں سے پہچانی جاتی ہیں۔
ماضی شناسی شعور اور حقیقت سے عبارت ہے۔ خود احتسابی کو اپنا فرض اولین سمجھنے والی قومیں گلوبل معاشرے میں پروقار مقام حاصل کرلیتی ہیں۔ اپنی کوتاہیوں کا ادراک رکھنے والے معاشرے زمانے کے سامنے اعتراف جرم کرنے میں کوئی خوف محسوس نہیں کرتے۔
آئیے آج ہم وطن کے تمام طبقات بحیثیت قوم یہ تلخ حقیقت تسلیم کرلیں کہ 41 سال قبل ڈھاکا کا سانحہ ہم سب کے اجتماعی جرائم کا نتیجہ تھا۔ 16 دسمبر پوری قوم کی تاریخی، سیاسی، سماجی اور تہذیبی شکست تھی۔
چار عشرے قبل پاکستان کا دولخت ہوجانا کوئی فوری حادثہ نہیں تھا۔ اس کی بنیاد تو آزادی کے فوراً بعد ہی رکھ دی گئی تھی۔ اس حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا کہ مختصر سے عرصے کی گریہ و زاری کے بعد ہم نے ان ہی غلطیوں کا اعادہ شروع کردیا جن کے نتیجے میں ملک دو ٹکڑے ہوا۔ ہمارے حکمران، سیاست داں اور پالیسی میکرز اسی بے حسی اور بے توجہی کا شکار ہوگئے جو 1971 کے وقت موجود تھی۔
قومیں اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں سے سبق حاصل کرکے مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرتی ہیں۔ اگر مسلم امہ نے شکست بغداد سے کوئی درس لیا ہوتا تو سانحہ غرناطہ کی سیاہی ہمارا مقدر نہ ٹھہرتی۔ اور اگر پاکستانی قوم اس سیاہی سے خودداری و خود آگاہی کے چراغ جلا لیتی تو سقوط ڈھاکا کا تاریک باب ہماری تاریخ میں رقم نہ ہوتا۔
اقبال نے ہسپانیہ کو خون مسلم کا امین تو قرار دیا لیکن اس خون کی ارزانی میں کون کون شریک جرم تھا، اس کا تجزیہ کون کرے گا؟
قرطبہ کے محلات اور غرناطہ کے باغات کا پرکیف رومان اپنی جگہ، لیکن ان خرابیوں کا ذکر کون کرے گا جو اس عظیم الشان سلطنت کی تعمیر میں ہی مضمر تھیں۔ الحمراء کے سحر انگیز نقش و نگار میں ہی وہ تمام نشانیاں بھی عبرت کا سامان فراہم کرتی ہیں جو سات صدیوں پر محیط عظیم الشان ریاست کی بربادی کا باعث ثابت ہوئیں۔ ملوکیت، آمرانہ نظام، موروثی اقتدار، اقربا پروری، عیش و عشرت، قومیت و تعصب نے زوال کو یقینی بنادیا۔ عرب و بربر، عرب و عجم اور ہاشمی و غیر ہاشمی کی تقسیم نے اسپین کے معاشرے کو زہر آلود کردیا تھا۔
عظیم فتوحات اور شاندار علمی خدمات بھی کرہ ارض پر قائم سپر پاور کے عبرتناک انجام کو روک نہ سکیں۔ 1492 مسلمانوں کی تاریخ میں سیاہ باب کے نام سے رقم ہوگیا۔ پانچ صدیاں گزر گئیں، مسلم امہ کو سیکھنے، سمجھنے اور سدھرنے کے لیے۔
مغرب نے 1992 میں مسلمانوں کی عبرت کے لیے بارسلونا اولمپکس کا میلا سجایا تھا۔ فاتح فرڈیننڈ اور مفتوح ابو عبداللہ کا فراموش کردہ باب گم کردہ راہ امہ کو آئینہ دکھانے کے لیے ایک استعارہ تھا۔
مسلمانان برصغیر کے پیش نظر تو ایک ہزار برس کے عروج و زوال کی پوری تاریخ ہے۔ کامیابیوں، ناکامیوں، کوتاہیوں اور غلطیوں کی طویل فہرست ہے۔
جنوبی ایشیا کے نقشے پر برصغیر کا خطہ اپنے مختلف النوع تہذیبی پس منظر کے حوالے سے دنیا کے دیگر ممالک سے منفرد اور ممتاز شناخت رکھتا ہے۔ ہندوستان کی سرزمین تجارتی قافلوں کی گزرگاہ اور حملہ آوروں کی آماجگاہ رہی ہے۔ سیکڑوں زبانوں اور قبیلوں پر مشتمل، رنگا رنگ ثقافتوں سے مزین بے شمار قومیں ہزاروں سال سے یہاں آباد ہیں۔ دنیا بھر کے تمام الہامی اور غیر الہامی مذاہب کے ماننے والے لوگ نسل در نسل یہاں رہتے ہیں۔
تاریخی پس منظر کے حوالے سے ہم دیکھتے ہیں کہ مذہب کے نام پر برصغیر کی تقسیم اور نئی مملکت کے قیام میں دیگر عوامل بھی شامل تھے۔ مسلمانوں کو اپنی دینی اقدار کے تحفظ اور ان پر عمل پیرا ہونے کے لیے ایک نئے وطن کی ضرورت تھی لیکن بیسویں صدی میں ایک قومی ریاست کے قیام کا صرف یہی ایک سبب نہیں تھا بلکہ دیگر معاشی، سماجی، تہذیبی، جغرافیائی اور سیاسی محرکات نے بھی تحریک پاکستان کو مہمیز کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔
آزادی کے بعد نئی ریاست کو بڑے بڑے مسائل درپیش تھے۔ سب سے اہم مسئلہ آئین سازی اور مستقبل کی قومی پالیسی کی تشکیل کا تھا۔ ہمارے حکمرانوں، سیاست دانوں اور پالیسی سازوں نے ایک باوقار قوم اور ترقی یافتہ وطن کے لیے کوئی خاکہ ہی تیار نہیں کیا جو معروضی اور زمینی حقائق کے تقاضے پورے کرتا ہو۔ دنیا کے نقشے پر ابھرتی ہوئی جدید قومی ریاستوں کے ماڈل ہمارے سامنے تھے لیکن ہماری قیادت فکری انتشار کا شکار تھی۔ پالیسی سازوں کو تسلیم کرلینا چاہیے تھا کہ زبان و ادب، رسم و رواج، اقدار و روایات کسی قومی ریاست کی تشکیل اور اس کے تہذیبی ارتقا کے بنیادی لوازمات ہیں۔ اگر نظریہ پاکستان زمینی حقیقت تھی تو ثقافتی وحدتوں کے وجود کو تسلیم کرنا زیر زمین حقیقت تھی۔
اہل پاکستان کا من حیث القوم مجرمانہ کردار ہے کہ تحریک آزادی میں پیش پیش رہنے والے بنگالی مسلمانوں کو مساوی درجہ دینے کے بجائے ان کی ثقافتی وحدت کو مسلم اور غیر مسلم کے حوالے سے دیکھا گیا۔ معاشی اور سماجی حوالے سے بنگالی برصغیر کے پسماندہ ترین مقام پر ہونے کے باوجود ترقی یافتہ زبان و ادب اور بھرپور ثقافتی ورثے کے مالک تھے۔ برصغیر کی تمام زبانوں میں ادب کے شعبے کے حوالے سے واحد نوبل انعام یافتہ رابندر ناتھ ٹیگور بنگالی تھے۔ قاضی نذر الاسلام جیسے عظیم ادیب کا نام کیسے فراموش کیا جاسکتا ہے۔
ہم نے نظریہ پاکستان کے نام پر محبت سے لبریز زبانوں کو باہم متصادم کردیا۔ نتیجتاً زبان کی بنیاد پر انسان متصادم ہوگئے اور۔۔۔۔ پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ اندھیاروں کا سفر جاری رہا۔ محبتوں کے چراغ روشن کرنے کے بجائے نفرتوں کی آگ لگادی گئی۔ جو جلتی رہی، پھیلتی رہی۔ ہر ستمگر نے بقدر توفیق اس آگ کو پھیلانے میں اپنے حصے کا کردار ادا کیا۔
اور پھر 1971 آگیا۔ رشتے ٹوٹ گئے، اپنے روٹھ گئے، سنہرے ریشے کی سرزمین اپنوں کے ہی خون سے سرخ ہوگئی۔ خون کی یہ سرخی ہمارے ناراض بھائیوں کے لیے امیدوں کی نئی صبح لے کر طلوع ہوئی لیکن برصغیر کے مسلمانوں کو ندامت کا داغ دے کر تاریخ کا حصہ بن گئی۔
فیض صاحب یہ حسرت لیے دنیا سے چلے گئے:
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد