علیحدگی ناگزیر نہ تھی
کوئی بھی ملک اس وقت ترقی کرتا ہے جب اس کے عوام متحد ہوں۔
’’اسلام یا اسلامی ریاست‘‘ کے محافظ یعنی پنجابی مہاجر، جن کا مرکزی حکومت میں غلبہ تھا، ابتدا ہی سے بنگالیوں کو پسماندہ قوم اور مغربی پاکستان پر ایک بوجھ کے طور پر دیکھتے تھے۔ فوٹو : فائل
پاکستان جیسے ایک کثیر النسل ملک میں بنیادی مسئلہ ملک کے تمام معاشرتی گروہوں کے سابقہ اشرافیہ میں قومی اتفاق رائے اور تعلقات کار پیدا کرنا ہوتا ہے۔
اس اتفاق رائے اور اشتراک پر مبنی ایک حکمت عملی اور پروگرام تشکیل دینے کی ضرورت ہوتی ہے، جس میں مندرجہ ذیل پہلوئوں پر زور دیا گیا ہو:
-1 تمام نسلوں کی اشرافیہ پر مشتمل ایک نمائندہ حکومت کا قیام۔
-2 مختلف نسلوں کے درمیان قومی اتفاق رائے اور تعلقات کار کا قیام۔
-3 تمام نسلوں کے اشتراک اور وحدت پر مبنی ایسے قومی اداروں کا قیام اور ترویج جن تک ہر کسی کو آسان اور مساوی رسائی حاصل ہو۔
-4 قوم کی خواہشات اور اہداف کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے مختلف نسلوں کی اشرافیہ کے ذریعے عوام کو منظم کرنا۔
-5 نسلی گروہوں کی کسی بھی علحیدگی پسند تحریک کو سر اٹھاتے ہی دبا دینا۔ تاہم یہ کام طاقت سے نہیں بلکہ مثبت نوعیت کی روک تھام کے ذریعے کیا جانا چاہیے۔
-6 اس بات کو یقینی بنانا کہ معاشی فوائد اور ترقی کے اثرات عوام تک اور نسلی گروہوں تک برابری کی سطح پر پہنچیں۔ مختلف نسلی گرہوں کے اندر دولت اور دوسرے فوائد کی تقسیم ان کے اپنے طبقہ اشرافیہ کی ذمہ داری ہونی چاہیے۔
یہ حکمت عملی ہمارے قومی مسائل کے لیے کوئی امرت دھارا نہیں تھی لیکن اس سے یہ امید پیدا ہوسکتی تھی کہ قومی سیاسی ڈھانچے میں نسلی گروہوں کے اخراج کی بجائے ان کی شمولیت ہمارے کثیر النسلی ملک کے اتحاد کے لیے ایک کلیدی کردار ادا کرسکتی تھی۔ یہ توقع رکھی جاسکتی ہے کہ انصاف کی خاطر عوام اور مختلف نسلی گروہ ایک مخصوص مدت کے لیے سست رفتار صنعتی ترقی اورعصر حاضر کا ساتھ دینے میں کوتاہیوں کو کسی حد تک برداشت کرسکتے ہیں۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں انصاف ہو اور لوگ غلط طریقوں سے حاصل کی گئی دولت کے گھمنڈ میں من مانی نہ کررہے ہوں، کوئی بھی شخص وقتی طور پر غربت کو بھی برداشت کرلیتا ہے۔
کوئی بھی ملک اس وقت ترقی کرتا ہے جب اس کے عوام متحد ہوں۔ اگر وہ مختلف بنیادوں پر منقسم ہیں تو پھر وہاں ایک ایسا نیا طبقہ جنم لے لیتا ہے جو ہر شخص کو یا اکثریتی نسلی گروہوں کو غریب تر اور محرومیت کا شکار بناتا چلا جاتا ہے۔ اس لیے کثیر النسلی ملک میں اشرافیہ کو مل جل کر اپنے اور ملک کے مفاد میں کام کرنا پڑتا ہے۔ وہ بعض اوقات اپنے اپنے نسلی مفادات کی ترویج کے لیے آپس میں لڑبھڑ بھی سکتے ہیں۔ تاہم اس کے باوجود انہیں ایک دوسرے کی رواداری، باہمی افہام و تفہیم اور مصالحت کی صلاحیتوں پر اعتماد کو متزلزل نہیں ہونے دینا چاہیے ورنہ علیحدگی کے پر خطر اور یک طرفہ راستے کے کھلنے کے امکانات یقینی ہوجائیں گے۔
''اسلام یا اسلامی ریاست'' کے محافظ یعنی پنجابی مہاجر، جن کا مرکزی حکومت میں غلبہ تھا، ابتدا ہی سے بنگالیوں کو پسماندہ قوم اور مغربی پاکستان پر ایک بوجھ کے طور پر دیکھتے تھے۔ وہ پوری طرح اس بات کے قائل تھے کہ پاکستانی قومیت کی جو صورت ان کے ذہن میں ہے اور معاشی ترقی کا جذبہ ان میں پایا جاتا ہے، وہ بنگالی نسلیت اور اس کے مخلوط ہندو رجحانات سے متضاد ہے تاہم اس بات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ ایوب حکومت کی معاشی پالیسیاں مشرقی پاکستان میں نئے صنعت کاروں کی تعداد میں اضافے کے لیے معاون اور مددگار ثابت ہوئی تھیں۔
ان نئے ابھرتے ہوئے صنعت کاروں کے لیے مغربی پاکستان کے مستحکم اور مراعات یافتہ صنعتی اداروں سے سے مقابلہ کرنا بہت مشکل تھا۔ ان میں اپنی کمتری اور عدم تحفظ کا احساس بہت بڑھ چکا تھا، اس لیے انہوں نے فوری طور پر ان مقامی بنگالی سیاستدانوں کی طرف دست تعاون دراز کیا جو اس علاقے کے لیے زیادہ سیاسی خود مختاری کی جدوجہد کررہے تھے۔ خود مختاری کے لیے ان کی یہ جنگ بنگالی صنعت کاروں کے لیے کسی حد تک ایک مؤثر ہتھیار تھی جس کی مدد سے وہ مرکزی حکومت پر درآمدی لائسنسوں اور زرمبادلہ کے کوٹے میں اضافہ کے لیے دبائو ڈال سکتے تھے۔
مزید برآں، جدوجہد کے آخری مرحلے میں بنگالی عوام کے مختلف عناصر ایک واحد سیاسی پلیٹ فارم پر جمع ہونے کے لیے متفق ہوسکتے تھے۔ حکمران اشرافیہ ناجائز طور پر اپنے بنگالی ہم وطنوں کو ہندو رجحانات کی حامل پسماندہ نسل کے زمرے میں رکھتی تھی۔ اس قسم کے مسلسل رویے نے علیحدگی کے رجحانات کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا اور ان حالات میں شیخ مجیب پر مقدمہ پہلے سے ہی دیمک زدہ اتحاد کے لیے موت کے پروانے پر دستخط کرنے کے مترادف تھا۔ یہاں دوبارہ اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ شیخ مجیب کے چھ نکات میں کوئی پہلو بھی نیا نہ تھا۔ اسی طرح کے اور حقیقتاً ملتے جلتے خیالات اور نظریات کا اظہار پہلے بھی کئی مرتبہ قومی اسمبلی کے بنگالی ممبران قومی اسمبلی کے ایوان میں کرچکے تھے۔
اس اتفاق رائے اور اشتراک پر مبنی ایک حکمت عملی اور پروگرام تشکیل دینے کی ضرورت ہوتی ہے، جس میں مندرجہ ذیل پہلوئوں پر زور دیا گیا ہو:
-1 تمام نسلوں کی اشرافیہ پر مشتمل ایک نمائندہ حکومت کا قیام۔
-2 مختلف نسلوں کے درمیان قومی اتفاق رائے اور تعلقات کار کا قیام۔
-3 تمام نسلوں کے اشتراک اور وحدت پر مبنی ایسے قومی اداروں کا قیام اور ترویج جن تک ہر کسی کو آسان اور مساوی رسائی حاصل ہو۔
-4 قوم کی خواہشات اور اہداف کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے مختلف نسلوں کی اشرافیہ کے ذریعے عوام کو منظم کرنا۔
-5 نسلی گروہوں کی کسی بھی علحیدگی پسند تحریک کو سر اٹھاتے ہی دبا دینا۔ تاہم یہ کام طاقت سے نہیں بلکہ مثبت نوعیت کی روک تھام کے ذریعے کیا جانا چاہیے۔
-6 اس بات کو یقینی بنانا کہ معاشی فوائد اور ترقی کے اثرات عوام تک اور نسلی گروہوں تک برابری کی سطح پر پہنچیں۔ مختلف نسلی گرہوں کے اندر دولت اور دوسرے فوائد کی تقسیم ان کے اپنے طبقہ اشرافیہ کی ذمہ داری ہونی چاہیے۔
یہ حکمت عملی ہمارے قومی مسائل کے لیے کوئی امرت دھارا نہیں تھی لیکن اس سے یہ امید پیدا ہوسکتی تھی کہ قومی سیاسی ڈھانچے میں نسلی گروہوں کے اخراج کی بجائے ان کی شمولیت ہمارے کثیر النسلی ملک کے اتحاد کے لیے ایک کلیدی کردار ادا کرسکتی تھی۔ یہ توقع رکھی جاسکتی ہے کہ انصاف کی خاطر عوام اور مختلف نسلی گروہ ایک مخصوص مدت کے لیے سست رفتار صنعتی ترقی اورعصر حاضر کا ساتھ دینے میں کوتاہیوں کو کسی حد تک برداشت کرسکتے ہیں۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں انصاف ہو اور لوگ غلط طریقوں سے حاصل کی گئی دولت کے گھمنڈ میں من مانی نہ کررہے ہوں، کوئی بھی شخص وقتی طور پر غربت کو بھی برداشت کرلیتا ہے۔
کوئی بھی ملک اس وقت ترقی کرتا ہے جب اس کے عوام متحد ہوں۔ اگر وہ مختلف بنیادوں پر منقسم ہیں تو پھر وہاں ایک ایسا نیا طبقہ جنم لے لیتا ہے جو ہر شخص کو یا اکثریتی نسلی گروہوں کو غریب تر اور محرومیت کا شکار بناتا چلا جاتا ہے۔ اس لیے کثیر النسلی ملک میں اشرافیہ کو مل جل کر اپنے اور ملک کے مفاد میں کام کرنا پڑتا ہے۔ وہ بعض اوقات اپنے اپنے نسلی مفادات کی ترویج کے لیے آپس میں لڑبھڑ بھی سکتے ہیں۔ تاہم اس کے باوجود انہیں ایک دوسرے کی رواداری، باہمی افہام و تفہیم اور مصالحت کی صلاحیتوں پر اعتماد کو متزلزل نہیں ہونے دینا چاہیے ورنہ علیحدگی کے پر خطر اور یک طرفہ راستے کے کھلنے کے امکانات یقینی ہوجائیں گے۔
''اسلام یا اسلامی ریاست'' کے محافظ یعنی پنجابی مہاجر، جن کا مرکزی حکومت میں غلبہ تھا، ابتدا ہی سے بنگالیوں کو پسماندہ قوم اور مغربی پاکستان پر ایک بوجھ کے طور پر دیکھتے تھے۔ وہ پوری طرح اس بات کے قائل تھے کہ پاکستانی قومیت کی جو صورت ان کے ذہن میں ہے اور معاشی ترقی کا جذبہ ان میں پایا جاتا ہے، وہ بنگالی نسلیت اور اس کے مخلوط ہندو رجحانات سے متضاد ہے تاہم اس بات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ ایوب حکومت کی معاشی پالیسیاں مشرقی پاکستان میں نئے صنعت کاروں کی تعداد میں اضافے کے لیے معاون اور مددگار ثابت ہوئی تھیں۔
ان نئے ابھرتے ہوئے صنعت کاروں کے لیے مغربی پاکستان کے مستحکم اور مراعات یافتہ صنعتی اداروں سے سے مقابلہ کرنا بہت مشکل تھا۔ ان میں اپنی کمتری اور عدم تحفظ کا احساس بہت بڑھ چکا تھا، اس لیے انہوں نے فوری طور پر ان مقامی بنگالی سیاستدانوں کی طرف دست تعاون دراز کیا جو اس علاقے کے لیے زیادہ سیاسی خود مختاری کی جدوجہد کررہے تھے۔ خود مختاری کے لیے ان کی یہ جنگ بنگالی صنعت کاروں کے لیے کسی حد تک ایک مؤثر ہتھیار تھی جس کی مدد سے وہ مرکزی حکومت پر درآمدی لائسنسوں اور زرمبادلہ کے کوٹے میں اضافہ کے لیے دبائو ڈال سکتے تھے۔
مزید برآں، جدوجہد کے آخری مرحلے میں بنگالی عوام کے مختلف عناصر ایک واحد سیاسی پلیٹ فارم پر جمع ہونے کے لیے متفق ہوسکتے تھے۔ حکمران اشرافیہ ناجائز طور پر اپنے بنگالی ہم وطنوں کو ہندو رجحانات کی حامل پسماندہ نسل کے زمرے میں رکھتی تھی۔ اس قسم کے مسلسل رویے نے علیحدگی کے رجحانات کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا اور ان حالات میں شیخ مجیب پر مقدمہ پہلے سے ہی دیمک زدہ اتحاد کے لیے موت کے پروانے پر دستخط کرنے کے مترادف تھا۔ یہاں دوبارہ اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ شیخ مجیب کے چھ نکات میں کوئی پہلو بھی نیا نہ تھا۔ اسی طرح کے اور حقیقتاً ملتے جلتے خیالات اور نظریات کا اظہار پہلے بھی کئی مرتبہ قومی اسمبلی کے بنگالی ممبران قومی اسمبلی کے ایوان میں کرچکے تھے۔