معاشی ثمرات کو یقینی بنایا جائے
عوام کی پٹرول، ڈیزل اور بجلی کے مہنگے بلوں سے جان چھوٹنے کا کوئی امکان نہیں ہے
عوام کی پٹرول، ڈیزل اور بجلی کے مہنگے بلوں سے جان چھوٹنے کا کوئی امکان نہیں ہے
عوام کی پٹرول، ڈیزل اور بجلی کے مہنگے بلوں سے جان چھوٹنے کا کوئی امکان نہیں ہے، مہنگائی میں کمی کی جو جزوی خوشی انھیں محکمہ اعداد و شمار سے میسر تھی، اس کا دورانیہ بھی عارضی ثابت ہو گا کیونکہ موٹر سائیکل سواروں نے دل کی بھڑاس ملک کے پٹرول پمپوں پر نکالنا شروع کر دی ہے، عوام کے پاس مجموعی طور پر مہنگائی کی دہائی دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ اوگرا اور نیپرا نے دونوں نے تجویز دی ہے جس میں ایک کے تحت دسمبر سے پیٹرول ساڑھے 5 روپے اور ڈیزل ساڑھے 6 روپے فی لیٹر تک مہنگا ہونے کا امکان ہے۔
میڈیا کے مطابق آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی سمری پیٹرولیم ڈویژن کو ارسال کر دی ہے، ذرایع کے مطابق پیٹرولیم ڈویژن کو بھیجی گئی سمری میں 16 دسمبر سے پیٹرول ساڑھے پانچ روپے فی لیٹر اور ڈیزل ساڑھے 6 روپے فی لیٹر مہنگا کرنے کی تجویز ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں رد و بدل کا حتمی فیصلہ وزارت خزانہ وزیر اعظم کی مشاورت سے کرے گی۔
پیٹرولیم مضنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافے سے عوام کو روزمرہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بھی اضافہ کا سامنا ہے، مارکیٹس، پتھارے، ٹھیلے اور پرچون کی دکانوں میں ایک دوڑ لگی ہوئی ہے، ہر چیز مہنگی ہو گئی ہے، جو چیزیں غریب صارفین کی قوت خرید میں تھیں وہ بھی مہنگی ہیں، میڈیا پر عوام صرف مہنگائی کا رونا روتے ہیں اور مہنگائی میں کمی کا روایتی طریق کار آج بھی چل رہا ہے، کہیں وزیر تجارت، خوراک اورکوالٹی کنٹرول اتھارٹیز اور ملاوٹ کی روک تھام کے لیے حکام اور انسدادی اداروں کی ٹیمیں نظر نہیں آتیں، نہ کوئی اقتصادی اور معاشی ثمرات کے شفاف سسٹم اور میکنزم کے تحت ملک کے عوام کو معیشت سے حاصل ہونے والی آسودگی ملتی ہے، ٹریکل ڈاؤن اور ارباب اختیار کے اہداف صارفین کو فائدہ پہنچانے سے قاصر ہیں۔
ایک بے یقینی اور غیر محسوس معاشی انحطاط ہے جس پر کسی کا زور نہیں چلتا۔ لوگ بھول گئے کہ گورننس نام کی کوئی چیز بھی ہے، بہرحال عوام کی استقامت کو داد دینا چاہیے جو چیلنجزکا سامنا کیے ہوئے ہیں، حکومت نہ تنخواہ بڑھاتی ہے اور نہ ٹیکسز میں کٹوتی کرتی ہے، الٹا بجلی، ٹرانسپورٹ، گیس اور روزمرہ چیزوں کے دام بڑھائے جاتے ہیں اور غریبوں کو اس زیادتی سے عوام کو بچانے کے لیے نہ ادارہ جاتی سسٹم سے کوئی مدد ملتی ہے اور نہ بیروزگای، مہنگائی اور غربت کے خاتمے کا کوئی امکان نظر آتاہے، ایسی صورت حال تو کسی بھی وقت عوام کے صبرکا پیمانہ لبریز کر سکتی ہے۔ عوام کو سیاسی جمود ، بے نتیجہ تکرار، باہمی کشمکش اور محاذ آرائی کی صورت حال مایوسی میں دھکیل دے گی۔ لوگوں کے پاس کہنے کو بہت سے حقائق ہوںگے جن میں ایک یہ بھی ہو گا کہ حکومت نے جس تبدیلی کا عندیہ دیا تھا وہ نہیں ہوا۔
دوسری جانب نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی ایک روپے 11 پیسے فی یونٹ مہنگی کرنے کی منظوری دیدی۔ نیپرا کے مطابق بجلی کی قیمت میں اضافہ ستمبر کے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں ہوا، نیپرا کے مطابق ستمبرمیں فی یونٹ بجلی پیداوار پر فیول لاگت 3 روپے 95 پیسے فی یونٹ رہی اور ستمبرمیں فی یونٹ پیداوار پر فیول لاگت کا تخمینہ 2 روپے84 پیسے فی یونٹ لگایا گیا تھا۔ نیپرا کا کہنا ہے کہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں اضافے کی وصولی دسمبرکے بلوں میں کی جائے گی، نیپرا کے مطابق اس فیصلے کا اطلاق کے الیکٹرک صارفین اور ماہانہ 50 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے لائف لائن صارفین پر بھی نہیں ہو گا۔ نیپرا حکام کے مطابق ستمبر میں ڈیزل اور فرنس آئل سے پیداوار کے باعث 10 ارب روپے کا بوجھ پڑا اور پن بجلی کی پیداوار میں دس فیصد کمی ہوئی ستمبر میں 660 میگاواٹ کا بہترین صلاحیت والا ساہیوال کول پاور پلانٹ بھی بند رکھا گیا۔
المیہ یہ ہے کہ توانائی کے جاری بحران کے حل کا کوئی طریقہ ابھی تک ہمارے چارہ گروں کے پاس نہیں، جب مستقبل قریب میں دنیا میں تیل کی قیمتیں گری تھیں تب بھی ہمیں اس موقعے سے فائدہ اٹھانے کی سمجھ نہیں آئی اور اب ایک بے چارے عوام رہ گئے ہیں جو اس سہ جہتی بوجھ کو اٹھانے پر مجبور ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ عالمی سطح پر خام مال کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے سے پاکستان کے اسٹیل کے شعبے میں بحران کی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ گزشتہ دو سال کے دوران جب اہم شعبوں میں بھاری خسارے ہوئے اس وقت اسٹیل کے شعبے نے ان نقصانات کو برداشت کیا اور اس کا بوجھ صارفین پر منتقل نہیں کیا گیا۔ تاہم، عالمی سطح پر حال ہی میں ہونے والا خام مال کی قیمتوں میں اضافہ اسٹیل کے شعبے کے لیے سخت مشکلات کا سبب بن گیا ہے۔
اسٹیل پروڈیوسرز نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ خام مال پر عائد تمام ڈیوٹیز ختم کر دے تاکہ خام مال کی بڑھتی قیمتوں کا ازالہ ہو سکے، جو اب 400 ڈالرز فی ٹن تک پہنچ چکی ہے جب کہ پٹرول بحران پر قائم حکومتی انکوائری کمیشن نے اپنی حتمی رپورٹ مرتب کر لی ہے ۔
انکوائری رپورٹ میں کہا گیا ہے آئل مارکیٹنگ کمپنیاں ذخیرہ اندوزی میں ملوث رہیں ہیں، تیل کی درآمد پر پابندی، ذخیرہ اندوزی سے ملک میں بحران پیدا ہوا، تیل کمپنیوں نے تیل درآمد کر کے ذخیرہ اندوزی کی جس سے بحران شدت اختیارکر گیا جب کہ ڈی جی آئل و پٹرولیم ڈویژن کے افسر عمران ابڑو وغیر قانونی طور پرکوٹہ مختص کرنے میں ملوث رہے ہیں۔ بحران کے دنوں میں اوگرا اپنی ذمے داریاں پوری کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے اور اس سفید ہاتھی کا کردار محض خاموش تماشائی کے طور پر تھا۔
اوگرا 20 دن تک تیل ذخیرہ کروانے میں ناکام رہا، پٹرولیم ڈویژن بھی آئل بحران کوکنٹرول کرنے میں ناکام رہا ، کمیشن نے سفارش کی ہے کہ پٹرولیم ڈویژن وزارت قانون کے ساتھ مل کر نئے رولزکی تشکیل کے لیے چھ ماہ میں مسودہ تیار کرے، کمیشن نے کہا ہے کہ پٹرولیم ڈویژن میں مانیٹرنگ سیل قائم کیا جائے، مانیٹرنگ سیل آئل مارکیٹنگ کمپنیوں سے روزانہ، ماہانہ کی بنیاد پر ڈیٹا حاصل کرے گا، اسٹرٹیجک اسٹوریج سسٹم قائم کیا جائے جیسے کہ پڑوسی ملک بھارت نے کیا ہوا ہے، اسٹرٹیجک اسٹوریج سسٹم میں 30 دن کا ذخیرہ ہونا چاہیے، متعلقہ اداروں نے ٹرانسپورٹیشن پر بھی توجہ نہیں دی تھی جس کی وجہ سے بحران پیدا ہوا ۔
حکومتی مسیحا اور چارہ گر ناسٹلجیا سے باہر نہیں نکلے، وزارت خزانہ کے ترجمان کے مطابق سابق حکومتوں کی طرف سے لیے جانے والے قرضوں کے صرف سودکی مد میں موجودہ حکومت نے57 کھرب روپے ادا کیے گئے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ارباب اختیار عوام سے کیے گئے وعدوں کی تکمیل کے لیے بھی کچھ وقت نکالیں، جنھوں نے مینڈیٹ دیا ہے ان کی امنگوں کی ترجمانی بھی حکمرانوں کا فرض ہے۔
میڈیا کے مطابق آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی سمری پیٹرولیم ڈویژن کو ارسال کر دی ہے، ذرایع کے مطابق پیٹرولیم ڈویژن کو بھیجی گئی سمری میں 16 دسمبر سے پیٹرول ساڑھے پانچ روپے فی لیٹر اور ڈیزل ساڑھے 6 روپے فی لیٹر مہنگا کرنے کی تجویز ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں رد و بدل کا حتمی فیصلہ وزارت خزانہ وزیر اعظم کی مشاورت سے کرے گی۔
پیٹرولیم مضنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافے سے عوام کو روزمرہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بھی اضافہ کا سامنا ہے، مارکیٹس، پتھارے، ٹھیلے اور پرچون کی دکانوں میں ایک دوڑ لگی ہوئی ہے، ہر چیز مہنگی ہو گئی ہے، جو چیزیں غریب صارفین کی قوت خرید میں تھیں وہ بھی مہنگی ہیں، میڈیا پر عوام صرف مہنگائی کا رونا روتے ہیں اور مہنگائی میں کمی کا روایتی طریق کار آج بھی چل رہا ہے، کہیں وزیر تجارت، خوراک اورکوالٹی کنٹرول اتھارٹیز اور ملاوٹ کی روک تھام کے لیے حکام اور انسدادی اداروں کی ٹیمیں نظر نہیں آتیں، نہ کوئی اقتصادی اور معاشی ثمرات کے شفاف سسٹم اور میکنزم کے تحت ملک کے عوام کو معیشت سے حاصل ہونے والی آسودگی ملتی ہے، ٹریکل ڈاؤن اور ارباب اختیار کے اہداف صارفین کو فائدہ پہنچانے سے قاصر ہیں۔
ایک بے یقینی اور غیر محسوس معاشی انحطاط ہے جس پر کسی کا زور نہیں چلتا۔ لوگ بھول گئے کہ گورننس نام کی کوئی چیز بھی ہے، بہرحال عوام کی استقامت کو داد دینا چاہیے جو چیلنجزکا سامنا کیے ہوئے ہیں، حکومت نہ تنخواہ بڑھاتی ہے اور نہ ٹیکسز میں کٹوتی کرتی ہے، الٹا بجلی، ٹرانسپورٹ، گیس اور روزمرہ چیزوں کے دام بڑھائے جاتے ہیں اور غریبوں کو اس زیادتی سے عوام کو بچانے کے لیے نہ ادارہ جاتی سسٹم سے کوئی مدد ملتی ہے اور نہ بیروزگای، مہنگائی اور غربت کے خاتمے کا کوئی امکان نظر آتاہے، ایسی صورت حال تو کسی بھی وقت عوام کے صبرکا پیمانہ لبریز کر سکتی ہے۔ عوام کو سیاسی جمود ، بے نتیجہ تکرار، باہمی کشمکش اور محاذ آرائی کی صورت حال مایوسی میں دھکیل دے گی۔ لوگوں کے پاس کہنے کو بہت سے حقائق ہوںگے جن میں ایک یہ بھی ہو گا کہ حکومت نے جس تبدیلی کا عندیہ دیا تھا وہ نہیں ہوا۔
دوسری جانب نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی ایک روپے 11 پیسے فی یونٹ مہنگی کرنے کی منظوری دیدی۔ نیپرا کے مطابق بجلی کی قیمت میں اضافہ ستمبر کے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں ہوا، نیپرا کے مطابق ستمبرمیں فی یونٹ بجلی پیداوار پر فیول لاگت 3 روپے 95 پیسے فی یونٹ رہی اور ستمبرمیں فی یونٹ پیداوار پر فیول لاگت کا تخمینہ 2 روپے84 پیسے فی یونٹ لگایا گیا تھا۔ نیپرا کا کہنا ہے کہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں اضافے کی وصولی دسمبرکے بلوں میں کی جائے گی، نیپرا کے مطابق اس فیصلے کا اطلاق کے الیکٹرک صارفین اور ماہانہ 50 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے لائف لائن صارفین پر بھی نہیں ہو گا۔ نیپرا حکام کے مطابق ستمبر میں ڈیزل اور فرنس آئل سے پیداوار کے باعث 10 ارب روپے کا بوجھ پڑا اور پن بجلی کی پیداوار میں دس فیصد کمی ہوئی ستمبر میں 660 میگاواٹ کا بہترین صلاحیت والا ساہیوال کول پاور پلانٹ بھی بند رکھا گیا۔
المیہ یہ ہے کہ توانائی کے جاری بحران کے حل کا کوئی طریقہ ابھی تک ہمارے چارہ گروں کے پاس نہیں، جب مستقبل قریب میں دنیا میں تیل کی قیمتیں گری تھیں تب بھی ہمیں اس موقعے سے فائدہ اٹھانے کی سمجھ نہیں آئی اور اب ایک بے چارے عوام رہ گئے ہیں جو اس سہ جہتی بوجھ کو اٹھانے پر مجبور ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ عالمی سطح پر خام مال کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے سے پاکستان کے اسٹیل کے شعبے میں بحران کی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ گزشتہ دو سال کے دوران جب اہم شعبوں میں بھاری خسارے ہوئے اس وقت اسٹیل کے شعبے نے ان نقصانات کو برداشت کیا اور اس کا بوجھ صارفین پر منتقل نہیں کیا گیا۔ تاہم، عالمی سطح پر حال ہی میں ہونے والا خام مال کی قیمتوں میں اضافہ اسٹیل کے شعبے کے لیے سخت مشکلات کا سبب بن گیا ہے۔
اسٹیل پروڈیوسرز نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ خام مال پر عائد تمام ڈیوٹیز ختم کر دے تاکہ خام مال کی بڑھتی قیمتوں کا ازالہ ہو سکے، جو اب 400 ڈالرز فی ٹن تک پہنچ چکی ہے جب کہ پٹرول بحران پر قائم حکومتی انکوائری کمیشن نے اپنی حتمی رپورٹ مرتب کر لی ہے ۔
انکوائری رپورٹ میں کہا گیا ہے آئل مارکیٹنگ کمپنیاں ذخیرہ اندوزی میں ملوث رہیں ہیں، تیل کی درآمد پر پابندی، ذخیرہ اندوزی سے ملک میں بحران پیدا ہوا، تیل کمپنیوں نے تیل درآمد کر کے ذخیرہ اندوزی کی جس سے بحران شدت اختیارکر گیا جب کہ ڈی جی آئل و پٹرولیم ڈویژن کے افسر عمران ابڑو وغیر قانونی طور پرکوٹہ مختص کرنے میں ملوث رہے ہیں۔ بحران کے دنوں میں اوگرا اپنی ذمے داریاں پوری کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے اور اس سفید ہاتھی کا کردار محض خاموش تماشائی کے طور پر تھا۔
اوگرا 20 دن تک تیل ذخیرہ کروانے میں ناکام رہا، پٹرولیم ڈویژن بھی آئل بحران کوکنٹرول کرنے میں ناکام رہا ، کمیشن نے سفارش کی ہے کہ پٹرولیم ڈویژن وزارت قانون کے ساتھ مل کر نئے رولزکی تشکیل کے لیے چھ ماہ میں مسودہ تیار کرے، کمیشن نے کہا ہے کہ پٹرولیم ڈویژن میں مانیٹرنگ سیل قائم کیا جائے، مانیٹرنگ سیل آئل مارکیٹنگ کمپنیوں سے روزانہ، ماہانہ کی بنیاد پر ڈیٹا حاصل کرے گا، اسٹرٹیجک اسٹوریج سسٹم قائم کیا جائے جیسے کہ پڑوسی ملک بھارت نے کیا ہوا ہے، اسٹرٹیجک اسٹوریج سسٹم میں 30 دن کا ذخیرہ ہونا چاہیے، متعلقہ اداروں نے ٹرانسپورٹیشن پر بھی توجہ نہیں دی تھی جس کی وجہ سے بحران پیدا ہوا ۔
حکومتی مسیحا اور چارہ گر ناسٹلجیا سے باہر نہیں نکلے، وزارت خزانہ کے ترجمان کے مطابق سابق حکومتوں کی طرف سے لیے جانے والے قرضوں کے صرف سودکی مد میں موجودہ حکومت نے57 کھرب روپے ادا کیے گئے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ارباب اختیار عوام سے کیے گئے وعدوں کی تکمیل کے لیے بھی کچھ وقت نکالیں، جنھوں نے مینڈیٹ دیا ہے ان کی امنگوں کی ترجمانی بھی حکمرانوں کا فرض ہے۔