بدلہ بدلہ سیاسی موسم

جاوید قاضی  پير 21 دسمبر 2020
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

صرف موجودہ حکمرانوں کو ہی پتہ نہیں! باقی سب کو پتا ہے کہ حکومت کے پہیوں میں اب گریس نہیں وہ چل تو رہی ہے مگر آواز اورہنگامہ سا برپا ہے۔ جن پتوں پر ناز تھا آج وہی پتے ہواؤں میں اڑنے لگے ہیں۔ایسا ہی وقت تھا جب جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقارعلی بھٹو کو مشورہ دیا تھا کہ مذاکرات کے ذریعے سے معاملات کو حل کریں ورنہ بے چینی فوج تک بھی آ پہنچی ہے، جس کو مولانا کوثر نیازی نے اپنی کتاب ’’اور لائن کٹ گئی‘‘ میں رقم کیا ہے۔

اس جنگ میں ایم کیوایم کے مرکزی رہنما خالد مقبول صدیقی تو بیٹھے نظر آئے، ان کے ساتھ مگر پرویز الہی یا پھر ہمارے پیر پگارا نہیں تھے اور پھر خالد مقبول صدیقی کا بھی کیا؟ آج ان کے ساتھ کل کہیں اور بھی چلے جائیں گے۔

اشارے کے بعد… مصطفی کمال نے سارا بھانڈا پھوڑ دیا کہ کراچی میں PTI کوکس طرح جتوایا گیا، جب RTS  بیٹھ گیا، جب نواز شریف سینٹرل پنجاب میں جیت گئے، تب اس شہرکا مینڈیٹ چرا کر خان صاحب کو دے دیا گیا کہ اس شہرکا توکوئی والی وارث ہی نہیں اور یہاں سے کوئی شور بھی نہیں اٹھے گا۔ مجھے مصطفے کمال اچھے لگے ہیں، بھلے ہی ان کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ جمہوریت کے کارواں میں فاطمہ جناح  کے پیروکار نہیں، مگر سندھ میں جو جنرل ضیاء یا پھر بھٹو کے زمانے میں پیدا کردہ دیہی اور شہری دوریاں ہیں وہ ان فاصلوں کو کم کرنے کا بیانیہ ترتیب دے رہے ہیں۔

دراصل ہم اپنے ملک کو میدانِ جنگ بنا بیٹھے ہیں۔ مذہبی فسادات سے لے کر لسانی فسادات تک، لڑاؤ اور حکومت کرو، تقسیم اورحکمرانی جو ہم نے گوروں سے سیکھا۔ گوروں نے یہ اصول برطانیہ میں اپنی قوم پر لاگو نہیںکیا، مگر ہم نے اس اصول کو اپنی قوم پر ہی آزمایا۔ یہ کام کرتے کرتے اب تو ہماری معیشت اور بھی بیٹھ چکی۔ اتنی بیٹھ چکی کہ اب چین سے قرضہ لے کر دیگر دوست ممالک کا قرضہ اتار رہے ہیں۔ ایک طرف ہمیں چین کھینچ رہا ہے تو دوسری طرف ہمارے مائی باپ! ہم سمجھ بیٹھے کہ ہم ایٹمی طاقت ہیں، ہم ایک پر وقار قوم ہیں جن سے سب عزت سے پیش آئیں گے۔

ہمیں جس نے ایٹمی طاقت بنایا ہم نے اس کو تختہ دار تک پہنچا دیا، اپنے مائی باپ کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے کورٹ سے ٹھپہ لگوا کر اور پھرہم یہ بھی کہتے رہے کہ ہم نے سب کچھ اپنے مائی باپ کے کہنے پرکیا، ہاں مگر ہم نے ایٹم بم پر سمجھوتہ نہیں کیا، یہ کچھ دنوں پہلے جنرل اسد درانی کہہ رہے تھے یوٹیوب پر اپنے ایک انٹرویو میں۔ ہمارے اسد درانی صاحب نے اگر ہینری کسنجر کے چوتھائی برابر بھی اگر معاشیات پڑھی ہوتی تو ایسی بات بالکل نہیں کرتے۔

ایک ایٹمی طاقت کو ضرورت ہوتی ہے جمہوریت کی، سول قیادت کی،آئین کی بالا دستی کی،قانون کی بھر پورحکمرانی کی اورپھر کم ازکم اوسطا  5% ہر سال شرح نموکا بڑھنا، مگر یہاںہمارے محصولات بدتر، ہماری لوگوں میں سرمایہ کاری بدتر، ہمارے انسانی  وسائل بدتر اوراب جو محصولات ہیں وہ تمام قرضوں کی ادائیگی اور دفاع پر صرف ہورہے ہیں۔ تمام قوم قرضے میں ڈوبی ہوئی ہے اور اب تو یہ عالم ہے کہ چین سے قرضہ لو اور دوسروں کو قرضہ واپس کرو اور پھر اگر چین کو نہ کردی کہ اسرائیل کو قبول نہیں کریںگے تو یہ بھی ہم سے قرضے واپس مانگے گا۔ ڈر اس بات کا ہے کہ ہم اب کہیں ایٹم بم سے بھی ہاتھ نہ دھو بیٹھیں۔ جس طرح ن ۔ م راشد کہتے تھے ’’حسن کوزہ گر، محبت کرنا امیروں کی بازی ہے۔‘‘

کہاں ایٹم بم اورکہاں سیاست کی پست ترین سطح پر رہتا ہوا پاکستان، اک ایسا نظام جو اب دنیا کے شاید چند ہی ممالک میں باقی ہوگا۔(خدارا، اپنے نظام کا آپ چین کے نظام سے موازنہ نہ کریں  دیکھیے یہاں یہ ایک الگ بحث چھڑ جائے گی۔)

اور اب وقت آگیا ہے ایک نئے عمرانی معاہدے کا، اس نئے عمرانی معاہدے سے ہمارا 1973کا آئین کہیں نہیں جا رہا۔ بس صرف یہ آئین اپنے اوپر عمل درآمد چاہتا ہے۔ توازن اس حد تک بگڑگیا ہے کہ کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ بھی پس پردہ کوئی اور چلاتا ہے۔ وزیر اعظم ہاؤس ہو یا پھر پارلیمنٹ سب جب دکھاؤے ہوں تو پھر بات بہت دور تلک جائے گی۔

مریم نواز ہوں، بلاول بھٹو ہوں یا پھرمولانا فضل الرحمٰن ہوں، اب یہ بہت دورتک جائیں گے، خان صاحب ان حالات کو صرف سینیٹ کے انتخابات کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں، وہ یہ سمجھتے ہیںکہ اس مرتبہ جنوری کی حدیں گزر جائیں گی تو پھر وہ بہت مضبوط ہوجائیں گے کیونکہ ان کو سینیٹ میں اکثریت مل جائے گی۔

وہ یہ نہیں جانتے کہ آٹے، چینی، CNG، پیٹرول کے اسکینڈلز نے ان کی مشکلات میں اضافہ کر دیا وہ اس لیے کہ مہنگائی حد درجے تک بڑھ چکی ہے، بیروزگاری بڑھ گئی ہے اور دور دور تک معیشت کے بہتر ہونے، شرح نموکے بہترہونے کے کوئی آثار نہیں۔ قرضوں کے بوجھ سے نکلنے کے امکانات نہیں۔ خان صاحب سیلیکٹڈ بھلے ہوں، انتخابات میں دھاندلیاں بھلے ہوئی ہوں، مگر خان صاحب نے جو ٹیم بنائی ہے اس سے بڑے بڑے اسکینڈلز نے جنم لیا ہے اور خان صاحب کے پاس ایک ہی سکہ ہے اور وہ ہے سکہ رائج الوقت۔کیونکہ اپوزیشن کہتی ہے کہ خان صاحب ایک نااہل حکمراں ثابت ہوئے ہیں، اناڑی ہیں ۔

سب کچھ ہے ان کے پاس،لاہور میں PDM  کے جلسہ کے بعد میڈیا ان کی ناکامی کے راگ الاپنے لگی۔ سب کے سب ایک آواز ہو گئے۔ ہاں البتہ سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا کسی حد تک حقیقت بتاتی رہی تھی۔ اور پھر ان کی ساری حکمت عملی دم توڑگئی۔ اسد عمر کا ’’میں نہ مانوں‘‘ کا ٹوئیٹ، فیصل واڈوا کی عجب باتیں، اور طرح طرح کے بیانات۔مختلف ترجمانوں کی طرف سے مذاق کا نشانہ بن کر رہ گئے ۔

مذاکرات کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے، اور مذاکرات شروع بھی ہوچکے۔ خان صاحب کو گر پتہ نہیں، پتہ یہ سب کو ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور حزب اختلاف کے درمیان بات چیت شروع ہوچکی ہے۔ یہ بھی سچ ہے جو وہ حل وہ بتا رہے ہیں مگر اس کو اپوزیشن ماننے کو تیار نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ تبدیلی ہو اور اس طرح جنوری گزرجائے۔ PDM کے پاس وقت بہت کم ہے، وہ الیکشن چاہتے ہیں جوکہ کورونا کی وجہ سے ممکن نہیں۔

کیا خان صاحب کے ہاتھ سے گیم نکل چکی ہے، اس لیے کہتے ہیں کہ خان صاحب 92 کا کپ آپ نے نہیں ٹیم نے جیتا تھا اور اب یہ آپ کی ٹیم کی نااہلی ہے جو آپ اس موڑ پر آکے رکے ہیں۔کہا جا رہا ہے کہ اس ٹیم کے لیے اب تو آپ کو لینے کے دینے پڑگئے ہیں۔

مفاہمت واحد راستہ تھا جو خان صاحب نے  گنوا دیا۔اب مفاہمت ہوگی مگر اپوزیشن کا پلڑا بھاری ر ہے گا، اور اب اسٹیبلشمنٹ بھی مذاکرات چاہتی ہے یہ آواز اب ان کے اندر بھی زور پکڑنے لگی ہے کہ خان صاحب کے بس کا روگ نہیں، لیکن اسٹیبلشمنٹ کا سیاست میں ٹانگ اڑانے کا کام اگر ختم نہیں بھی ہے مگرکم ضرور ہوا ہے۔ بات مکمل جمہوریت کی بحالی کی بھی نہیں۔ بات یقیناً جمہوریت کے راستے کو اپنانے کی ہے۔ دہائیوں کے بعد نیشنل قیادت میں تبدیلی آ رہی ہے۔ دو نئے چہرے مریم نواز اور بلاول بھٹوکی شکل میں سنجیدگی سے سیاسی میدان میں ابھرکرآ رہے ہیں۔

اس ملک کا بنیادی مسئلہ ہے، دس سالوں تک سات فیصد یا کم از کم چھ فیصد شرح نموکا بڑھنا۔ ہماری مجموعی پیداوارکا بڑھنا ،قرضوں کا بوجھ کم ہونا۔ یہ تمام مسائل جن سے آج ہم دوچار ہیں یہ اس بات کا نتیجہ ہے کہ ہماری  داخلی سیاست میں یہ بات طے ہی نہیں کہ حکومت عوام کے نمایندے چلائیں گے یا اسٹیبلشمنٹ۔ آج بنگلہ دیش کی شرح نمو سات فیصد تک بڑھ ر ہی ہے کیونکہ وہاں وہ حالات نہیں جو پاکستان میں ہیں۔ ورنہ کبھی ہم بھی ایک ملک تھے اور بنگالی ہمارے ساتھ چھوٹی ذات کی طرح تھے اور آج ان کے ٹکے نے ہمارے روپے کو ٹکے کا کر دیا ہے۔ بنگلہ دیش اب دنیا کی تیز ترین معیشتوں میں سے ایک ہے۔ تو چلیں اب صرف ایک کام کریں کہ بنگلہ دیش ہی بن لیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔