کسے کہ کشتہ نہ شد!

نعمان احمد انصاری  اتوار 29 دسمبر 2013

تبلیغ میں مولانا طارق جمیل کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ وہ اپنے مخاطب میں اپنے خطبات، تقاریر اور آڈیو کیسٹوں میں غیر محسوسانہ طور پر ان اوصاف کو منتقل کر دیتے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ مصائب و بے چینی کا شکار انسان جو کسی طرح اخلاقی تعلیمات سننے کے روادار نہیں ہوتے وہ بھی چند لمحوں میں سب کچھ بھول کر مولانا کی فصاحت بیانی میں گم ہو جاتا ہے، اور یوں پیغام رسانی کا مرحلہ آسان ہو جاتا ہے۔ اس کی شاید سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مولانا طارق جمیل کا ابلاغ وہ بنیادی طریقۂ ابلاغ ہے جس پر ابلاغ کی عمارت کھڑی ہے۔ بہترین ابلاغ یہ ہے کہ آپ کی بات، یا تحریر میں مخاطب یا قاری کو اپنا پن دکھائی دے۔ وہ خود کو اس میں جذب ہوتا محسوس کرے۔ مولانا طارق جمیل کا کام تبلیغ ہے یعنی اسلامی اخلاقی تعلیمات کو سیدھے سادے طریقے سے عوام الناس تک پہنچانا۔ ان کا کام کسی مسئلے میں جج بننا نہیں ہے۔

میری ملاقات مولانا سے تو نہیں ہوئی تاہم اقبال جمیل سے ضرور ہو چکی ہے۔ اقبال جمیل کا نام ویسے تو زبان زد عام نہیں مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان کا جداگانہ انداز گفتگو یا بیان گزشتہ ایک نسل کے ذہنوں میں بہت اچھی طرح پیوست ہے۔ ماضی کے پی ٹی وی کا مخصوص پن ہر اس ذات کا حصہ اور اس کی پہچان ہے جس نے یہاں کام کیا۔ انھی لوگوں کی فہرست میں اقبال جمیل ہیں۔ تاہم ان کا میدان خالصاً صحافت کا نیوز ورلڈ ہے جس میں انھوں نے اپنے خصوصی لائیو بیپرز اور ایکسٹرو کے ساتھ سننے اور دیکھنے والوں میں اپنی پہچان بنائی۔ آج یہ تجربات وہ ہم جیسے نو آموز صحافیوں تک منتقل کر رہے ہیں، یعنی وہ صحافت اور اس کے رموز کی تبلیغ میں مصروف عمل ہیں۔ ہم انھیں مولانا جمیل اسی لیے کہتے ہیں کہ مخاطب تک ابلاغیات کی صحیح منتقلی میں ان کا طریقہ کار، مشورہ اور تعلیم مسلم ہے اور یہ کام وہ کسی پرجوش خطیب اور مبلغ کی طرح کرتے ہیں، وہ دو افراد کے درمیان صحیح اور غلط کی تمیز پر قدرت رکھتے ہیں۔

صحافی ہونے کے ناتے وہ کبھی صحیح یا غلط کے حوالے سے اپنا فیصلہ صادر کرنے کی کوشش نہیں کرتے تاہم ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ غیر جانبدار رہیں۔ ان کے پاس تجربات کا ایک نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے، جس نے انھیں فصیح بنا دیا ہے اور یہی وجہ ہے جس کے باعث وہ اکثر جوشِ خطابت میں یہ بات بھول جاتے ہیں، کہ خطاب کے لیے ان کے علاوہ بھی مقررین موجود ہیں۔ خود ایک سینئر ہیں اپنے سینئرز کی دل سے عزت اور احترام کرتے نظر آتے ہیں۔ رواں ماہ جب بی بی سی، سیربین کے رضا علی عابدی کراچی تشریف لائے تو انھیں سب سے پہلے خوش آمدید کہنے اور نو آموز صحافیوں سے خطاب کے لیے بلانے والوں میں  اقبال جمیل سب سے آگے تھے۔ سینئر کی عزت ہی نہیں بلکہ اپنے ہم عصروں کو خود پر اہمیت دینا بھی ان کا شیوا ہے۔ پی ٹی وی کے سینئر صحافی اور موجودہ تجزیہ کار منور مرزا ہوں یا احفاظ الرحمٰن یا پھر قبیلۂ صحافت کے دیگر قابل قدر لوگ، اپنے طلبا اور پیشہ ور نوجوان صحافیوں میں مذکورہ شخصیات  کی خوب حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور یہ عمل خود اس بات کا غماز ہے کہ صاف دل افراد کا دل کینہ، حسد اور رقابت سے پاک ہوتا ہے۔

کامیاب کیریئر اور خوشحالی کے باوجود اقبال جمیل  کی ذات میں حرص و طمع کا شائبہ تک نہیں ہے۔ اور اگر ان سے اس پہلو کے بارے استفسار کیا جائے تو یہ وہ موقع ہوتا ہے جہاں وہ واقعی ایک مولانا کی طرح اللہ کی وحدانیت اور اس پر ایمان پر یقین رکھنے کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ وہ اوصاف ہیں جن سے ہمارے آج کے صحافیوں اور براڈ کاسٹ جرنلسٹس کو آراستہ ہونا چاہیے۔ آج کا دور کمیٹڈ صحافیوں کا تقاضا کرتا ہے۔ کسی ٹی وی چینل میں چند سال کام کرنے والے اور چند ایک کالم لکھ دینے والے خود کو صحافت کے اوج ثریا پر متمکن نہ سمجھیں تو بہتر ہے۔ دشت صحافت میں جن شخصیات نے خاموشی سے کام کیا ہے وہ پرنٹ میڈیا کے ماتھے کا زیور ہیں۔ آمریت کے خلاف  پرنٹ میڈیا نے خاموش مجاہد کا کردار ادا کیا ہے، مشہور مارشل آرٹسٹ بروس لی نے اسی حوالے سے ایک بار کہا تھا کہ جن کی زبانیں لمبی ہوتی ہیں ان کے دماغ خالی ہوتے ہیں۔

بڑھ چڑھ کر بولنے اور تجزیاتی دعوے کرنے والے آج کے صحافی اور بالخصوص وہ بالغ بچے جو صحافت کو محض ایک آرٹ سمجھتے ہیں خود کو زمینی حقائق، معروضیت، سچائی تک رسائی اور غیر جانبدار ثابت کرنے کے لیے مزید محنت کریں۔ ان کے لیے یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ عہد رفتہ اور عصر حاضر  کے صحافیوں کے نزدیک صحافت کل بھی اور آج بھی ایک مقدس  مشن ہے، انڈسٹری بن جانا اس کی بقا کی ناگزیریت  ہے۔ اہل صحافت  کا کام عوام اور اس کے بہتر مفاد کے لیے بہترین ابلاغ کے ذریعے پیغام رسانی اور دانائی منتقل کرنا ہے۔ اور آج بھی یہی مقصد میرے اس استاد کے مد نظر رہتا ہے۔ دو عشروں قبل صحافت کے پیشے میں پیسہ نہیں شان ہوا کرتی تھی۔ آج اس میدان میں پیسہ ہی پیسہ ہے، صحافی کی شان اور وقار اسی میں ہے کہ پیشے کی تقدیس پر حرف نہ آنے دے، صحافتی قدروں کو قصہ پارینہ بنتے دیکھنا ایک المیہ ہو گا۔

آج کے نوجوان صحافی اور میڈیا کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ ایڈیٹر ان سینئر صحافیوں  کے نام سے واقف نہیں جنہوں نے زندگی کا ایک بڑا حصہ تدبر و سنجیدگی اور غیر پر شور انداز سے صحافت کے لیے وقف کیے رکھا، اور اپنی صلاحیت، وقت اور توانائی کو صرف کیا  اور آج بھی اسی تندہی کے ساتھ وہ اپنے پیشے سے اپنی پر خلوص وفا کا عزم پورا کر رہے ہیں۔ اپنی زندگی کے تیس سال پرنٹ میڈیا کی نذر کرنے والے عبد الحفیظ نوری  کی کمر جھکنے لگی مگر کوئی ان سے صحافت کے گر سیکھنے والا نہیں۔ ایسے کئی گمنام ہیروز ہیں جن کے تجربوں سے نوواردان صحافت کے فیض یاب ہونے کی مثالیں کم ہی ملیں گی۔ موجودہ دور کے میڈیا میں سب کچھ ہے اگر کچھ نہیں ہے تو صحافت کی بنیادی قدروں اور آداب  سے ہے۔

صحافت ہو بھی کیسے سکتی ہے کیونکہ صحافت کا پیشہ کوئی تجارتی سامان نہیں کہ جسے تجارت کے غرض سے اسٹاک رکھا جائے اور سیزن کے وقت فروخت کے لیے مارکیٹ میں پیش کر دیا جائے۔ میرے ممدوح اور ان کے ہم عصر اس گمبھیر صورتحال پر کڑھتے ہیں تاہم  ہم  پر امید ہیں کہ آنے والے دور میں نفسا نفسی اور اندھی تقلید کے بادل میڈیا سے ضرور چھٹ جائیں گے۔ ممتاز صحافی عباس ناصر کہتے ہیں کہ صحافیوں کو ٹھیک ٹھاک پیسے مل رہے ہیں، یہ اچھی بات ہے مگر ابھی بھی صحافت کو بعض خطرناک پہلوئوں سے خود کو بچانا ہے، امید تو ہے کہ صحافت خود کار اصلاح کا کوئی طریق کار تلاش کر لے گی تا کہ حکومت یا کسی ریگولیٹر کے ظلم و جبر سے محفوظ رہ سکے۔ ایک اچھے پیشہ ور صحافی میں یہ خوبی بھی بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے کہ وہ رپورٹنگ کرتے وقت ہر قسم کے حالات  میں ناامیدی کو قریب نہیں آنے دیتا۔ کیونکہ جرنلسٹ امید سے جڑی ہوئی ایک قوت ہے جس کے بارے میں کسی نے کہا ہے کہ

کَسے کہ کُشتہ نہ شُد از قبیلۂ مانیست

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔