نیا سال اور ہماری قومی ترجیحات

اکرام سہگل  ہفتہ 2 جنوری 2021

2020دنیا بھر میں حکومتوں کے لیے آزمائش کا سال ثابت ہوا۔ پاکستان میں حکومت کی کارکردگی بُری نہیں رہی، بلکہ بھارت سمیت خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بہتر رہی۔

عمران خان کو ادراک تھا کہ ملک کی بہت بڑی آبادی دیہاڑی دار مزدوروں پر مشتمل ہے اس لیے دیگر ملکوں کی اندھی تقلید سے گریز کرتے ہوئے پاکستان میں سخت لاک ڈاؤن کی پالیسی اختیار نہیں کی گئی۔

اگر یہ غیر دانش مندانہ قدم اٹھایا جاتا تو ملک میں کورونا سے زیادہ لوگ بھوک سے مرتے۔ غریب عوام کی مدد کے لیے حکومت کے زیادہ تر اقدامات مؤثر ہوئے اور بعض کے مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ سبھی مستحقین تک مدد نہیں پہنچ سکی۔

کورونا کے باعث انتظامی ڈھانچے میں کئی مسائل پیدا ہوئے جنھیں یہ بحران ختم ہونے کے بعد حل کرنا ہوگا۔ تاہم 2021 کے لیے منصوبہ بندی کرتے ہوئے ملک کے لیے بنیادی اہمیت رکھنے والے چند امور سے متعلق منصوبہ بندی پر غور کرنا چاہیے۔ 2020 کے آخری نصف میں اشیائے صرف کی قیمتیں تیزی سے بڑھیں جس کی وجہ سے 2021 میں تیار شدہ اشیا کی قیمتوں میں اضافہ یقینی ہوگا۔ موقعہ پرست عناصر کے خلاف بروقت کارروائی کے باعث مہنگائی میں ہوش رُبا اضافہ ہوا۔ مسلسل بڑھتی مہنگائی نے عوام کے پیمانۂ صبر کو لبریز کردیا ہے۔

عدلیہ کو قوانین کی اصل روح کے نفاذ کی جانب توجہ دینا ہوگی۔ سندھ ہائیکورٹ نے 2دسمبر 2020 کو صوبائی حکومت کو ان تمام ملازمین کی تفصیلات جمع کروانے کی ہدایت کی ہے جنھوں نے نیب میں پلی بارگین کیا ہے یا رضاکارانہ طور پر کرپشن کے مال سے دست بردار ہوئے ہیں۔ ان میں سے 500بدعنوان افسران آج بھی سندھ کی سول انتظامیہ میں اہم عہدوں پر بیٹھے لوٹ مار کررہے ہیں۔

کرپٹ افسران کو ملازمت جاری رکھنے کی اجازت دینے سے نظام کھوکھلا ہورہا ہے۔ انھیں تحفظ فراہم کرنے والوں کو بھی بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا دنیا میں کہیں بھی کرپشن کو ایسی کھلی چھٹی دی جاسکتی ہے؟

پاکستان میں احتساب کا شور تو بہت ہے لیکن نتائج معمولی ہیں۔ اتنی آگ نہیں جتنا دھواں اٹھتا ہے۔ اگر کرپشن کیسز میں سیاسی قائدین کسی طرح گرفت میں آبھی جائیں تو ان کی ضمانتیں ہوجاتی ہیں۔ پوری دنیا میں دہشت گردی کی مالی معاونت، منی لانڈرنگ، غیرقانونی آف شور اکاؤنٹ اور مالی بے ضابطگیوں کو اولین ترجیح حاصل ہے۔ منی لانڈرنگ میں ملوث افراد کے اثاثے ملک ہی میں نہیں بیرون ملک بھی منجمد کیے جاتے ہیں چاہے ایسا علامتی طور ہی پر کیوں نہ کیا گیا ہو لیکن ایسے جرائم کے خلاف عدم برداشت ظاہر کرنے کے لیے ایسے اقدامات ہوتے ہیں۔

نیب کو چھوٹے چوروںکے بجائے اپنی زیادہ توانائی موٹی گردنیں دبوچنے میں صرف کرنی چاہیے۔ ملک میں اپوزیشن اپنی کرپشن اور بیرون ملک منتقل کی گئی دولت بچانے ہی کے لیے تو ایک جگہ جمع ہے۔ منی لانڈرنگ ہی کے ذریعے تو ماضی میں یہ جماعتیں باری باری کا کھیل جاری رکھے ہوئے تھیں۔ بلاول ان مسائل کی بنیاد پر عمران خان سے استعفی کے مطالبہ کررہے ہیں جو ان کے والد اور اتحادیوں کے ادوار میں پیدا کیے گئے۔ تاہم اس صورت حال کے باوجود سیاسی، معاشی اور بین الاقوامی سطح پر کہیں کہیں امید کے آثار نمایاں ہورہے ہیں۔

ماضی کی حکومتوں نے ملکی زراعت کو نظر انداز کیے رکھا۔ وبا میں گندم، چاول، پھل اور سبزی کی وافر رسد نے ہمارا بھرم رکھ لیا۔ کھیتوں سے منڈیوں تک پیداوار کی رسد کمیشن ایجنٹ ہماری زراعت کا بڑا مسئلہ ہیں۔ ایک دور تھا کہ ہم زرعی پیداوار میں نہ صرف خود کفیل تھے بلکہ بہت سے پھل، سبزیاں اور نقد آور فصلیں برآمد بھی کیا کرتے تھے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ فرسودہ زرعی طریقوں کے باعث ہماری پیداوار تیزی سے نیچے آرہی ہے۔ چینی پر دی جانے والی سبسڈی اور اس کی پیداوار سے خرید و فروخت تک کا پورا نظام کرپشن کے اس کھیل کی مثال ہے۔

تمباکو نوشی جس طرح صحت کے لیے مضر ہے اسی طرح جس زمین پر اس کی کاشت ہورہی ہے وہاں سے غذائی اجناس ختم ہورہی ہیں۔ تمباکو کا استعمال اپنے نشے کا عادی بنا لیتااور انسان کی سوچنے کی آزادانہ صلاحیتوں کو اپنے قابومیں کرلیتا ہے، اسی لیے نشے کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔

تمباکو نوشی کا فوری خاتمہ ممکن نہیں تاہم بھاری ٹیکس عائد کرکے اسے محدود کیا جاسکتا ہے۔ سب سے بڑھ کرہم اپنی صحت برباد کرنے کے ساتھ اپنا اجتماعی مستقبل دھوئیں میں اُڑا رہے ہیں۔ حکومتوں کی جانب سے دولت یا تعلق نبھانے کے لیے عام آدمی کی قیمت پر سرمایہ کاروں کو نوازنے کی ایک اور بڑی مثال کے الیکٹرک ہے۔

2010میں اختیارات کی صوبوں کی منتقلی کے لیے اٹھارہویں ترمیم کی گئی لیکن یہ قانون سازی سماجی ، معاشی اور سیاسی سطح پر ملکی ترقی میں معاون ہونے کے بجائے رکاوٹ ثابت ہوئی ہے۔ اس کے باعث معیشت کی مکمل بربادی کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے اور ڈر ہے کہ کہیں ریاست کا وجود ہی خطرے میں نہ پڑ جائے۔ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی نے یوگو سلاویہ کو ٹکڑے کردیا تھا۔ ٹیکسیشن اور این ایف سی ایوارڈ کی مثالیں سامنے ہیں۔2021کے الیکشن پر اٹھارہویں ترمیم پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔

پاکستان میں سینیٹ الیکشن ایک تماشا بن چکے ہیں اور عدلیہ بھی اس میں ہونے والی بدعنوانی سے واقف ہے۔ خفیہ رائے شماری سے ووٹوں کی خریدو فروخت کا بازار گرم ہوتا ہے۔ اب کھلے عام رائے شماری کے طریقے ہی سے سینیٹ کا وقار بچایا جاسکتا ہے۔  اسی طرح مردم شماری سے متعلق مسائل و تنازعات کو بھی فوری حل ہونا چاہیے۔ ایسی جمہوریت جہاں آبادی کا شمار سیاسی و انتخابی چالبازی کے دور پر کیا جائے وہاں بے چینی اور خلیجیں بڑھتی ہیں۔

ہم اپنی قومی سلامتی کے اہم ترین پہلو تعلیم سے متعلق ابہام کا شکار ہیں اور اٹھارہویں ترمیم کے تحت اسے صوبوں کے سپرد کرچکے ہیں۔ اس کی وجہ سے ذریعہ تعلیم اور متضاد نکتہ ہائے نظر ایک ہی ملک کے نظام تعلیم کا حصہ بن گئے ہیں۔ ایک موقف یہ ہے کہ ریاضی اور سائنس انگریزی میں پڑھائے جائیں جب کہ دیگر مضامین کی تعلیم اردو یا مادری زبان میں دی جائے۔

یکساں قومی نصاب سے سرکاری، نجی اور دینی تعلیمی اداروں میں ہم آہنگی اور برابری پیدا کی جاسکتی ہے۔ وفاقی حکومت نے اس مقصد کے تحت پری پرائمری اور پہلی سے پانچویں کلاس تک کی نصابی کتابیں تیار کر لیں۔ تاہم ان کتابوں کی منظوری دینے والے مجاز بورڈز صوبائی اختیار میں ہیں جہاں اس مقصد کے لیے درکار اہلیت ہی نہیں پائی جاتی۔ اس نصاب کے فوری نفاذکے لیے وفاقی سطح پر ایک مرکزی ادارہ قائم ہونا چاہیے جو تیزی سے توثیق اور نفاذ کے مراحل طے کرے۔

بھارت کی جانب سے فالس فلیگ کارروائیوں کے خطرات سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ سی پیک اس خطے ہی کے نہیں پوری دنیا کے اقتصادی و تہذہبی منظرنامے کو تبدیل کرنے والا ایک غیر معمولی منصوبہ ہے۔ اس سے کئی نئے اتحاد جنم لیں گے اور ہمارے چین سے دیرینہ تعلقات مزید گہرے ہوں گے۔

روس بھی سرد جنگ میں اپنے خلاف کھڑے ہونے والے پاکستان کے بارے میں اپنا تناظر بدل رہا ہے اور اسے ایک توازن قائم کرنے والی غیر جانب دار قوت کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ امن 2021کی جنگی مشقوں میں شرکت سے روس نے مستقبل کی کئی تبدیلیوں کی جانب اشارہ دیا ہے۔ کئی برسوں سے روس  کے ساتھ جس پائپ لائن پر بات جاری ہے اس کی تکمیل سے ہماری توانائی کی ضروریات کو بڑا تحفظ ملے گا۔

(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں۔)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔