بھیرہ حکومتی توجہ کا منتظر

محمد عمران چوہدری  پير 4 جنوری 2021
بھیرہ 2400 سال قدیم شہر ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

بھیرہ 2400 سال قدیم شہر ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

یہ ذکر ہے 1540 کا، جب ہمایوں نے شیر شاہ سوری کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد راہ فرار اختیار کی۔ شیر شاہ کو ہمایوں کے بھیرہ میں قیام کی اطلاع ملی تو وہ اس کا پیچھا کرتے ہوئے بھیرہ آن پہنچا، مگر اس وقت تک شہر کو کھنڈر میں تبدیل کرنے کے بعد ہمایوں جاچکا تھا۔ شیر شاہ نے شہر کو دوبارہ تعمیر کروانے کے ساتھ ایک جامع مسجد بھی تعمیر کروائی، جو آج بھی ان کی یاد دلاتی ہے۔

اگر آپ لاہور سے اسلام آباد موٹروے پر سفر کریں تو نصف مسافت طے کرنے کے بعد بھیرہ انٹرچینج کا بورڈ نظر آئے گا۔ یہاں سے 15 منٹ کی مسافت پر تاریخی شہر بھیرہ واقع ہے۔ تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ بھیرہ 2400 سال قدیم شہر ہے۔ بعض مورخین کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ 326 قبل مسیح میں راجہ پورس سے لڑائی کے دوران سکندراعظم کا گھوڑا بیوس فیلس مارا گیا۔ سکندر نے اس گھوڑے کے نام پر یہ شہر آباد کیا۔ سنسکرت میں بیوس فیلس کو بھیرہ کہا جاتا ہے۔ دریائے جہلم پار کرنے سے پہلے سکند نے چار روز اس شہر میں قیام کیا۔ تزک بابری میں بھی بھیرہ کا ذکر ملتا ہے۔

1300 سال قبل لوگ طب اور جغرافیہ کا علم سیکھنے بھیرہ آیا کرتے تھے۔ میراں صاحب جیسے عظیم صوفی جن کے ہاتھوں سیکڑوں لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے، آپ کا تعلق بھی بھیرہ سے ہے۔ آج بھی لوگ دور دور سے آپ کے دربار پر حاضری دے کر آپ کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

آپ اسے اس تاریخی شہر کی بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ سابق چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت پیر کرم شاہ الازہری، سابق وزیر خزانہ احسان الحق پراچہ (مرحوم)، سابق وزیر مملکت مذہبی امور امین الحسنات شاہ، وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی ندیم افضل چن اور موجودہ الیکشن کمشنر کا تعلق بھیرہ سے ہونے کے باوجود یہ شہر ایک تاریخی سیاحتی مقام نہ بن سکا اور آج زبوں حالی کا شکار ہے۔

شیر شاہ سوری کے نام سے منسوب تاریخی جامعہ مسجد میں تعمیر و مرمت کا کام سست روی کا شکار ہے۔ نامناسب دیکھ بھال اور محکمہ آثار قدیمہ کی عدم توجہی کی بدولت بھیرہ کے آٹھ تاریخی دروازوں میں سے 4 تاریخ میں گم ہوچکے ہیں۔ ریل سروس بند ہونے کی وجہ سے اب حالت یہ ہے کہ تاریخی ریلوے اسٹیشن کے نشانات تک معدوم ہورہے ہیں۔ انگریز کے دور سے قائم گورنمٹ ہائی اسکول بھیرہ، جو کبھی وسیع و عریض رقبے پر پھیلا ہوا تھا، اب دھیرے دھیرے اپنے تابناک ماضی سے محروم ہوتا جارہا ہے۔ انتظامیہ کی غفلت کی بدولت بھیرہ کے بازار سیاحوں کےلیے نوگو ایریاز بن چکے ہیں۔ اورنگزیب عالم گیر کی تعمیر کردہ حافظانی مسجد ہو، مغلیہ دور کا قائم کردہ ٹکسال، یا پھر بھیرہ کے دیگر تاریخی مقامات، عدم توجہی کی بدولت حوادث زمانہ کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ اگر مناسب اور بروقت توجہ نہ دی گئی تو پاکستان ایک بڑے ثقافتی ورثے سے محروم ہوجائے گا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سے پہلے تاریخ، تاریک ہوجائے، بھیرہ کے تاریخی اور ثقافتی ورثے کو محفوظ کیا جائے۔ ٹوٹ پھوٹ کے شکار تاریخی دروازوں کو ازسر نو تعمیر کیا جائے۔ شیر شاہ سوری کی تعمیر کردہ مسجد کی تعمیر و مرمت کی جائے۔ ریل سروس کو بحال یا پھر میوزیم بنا کر محفوظ ہی کرلیا جائے۔ اورنگزیب عالمگیر کی مسجد حافظانی کی مرمت اور تزئین و آرائش کرکے حوادث زمانہ کا شکار ہونے سے بچایا جائے۔ بھیرہ کے بازاروں کو تجاوزات سے پاک کرکے انہیں وسیع کیا جائے تاکہ سیاحوں کےلیے آسانی پیدا ہوسکے۔ ہندوؤں کی واحد عبادت گاہ کو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے سے بچاکر محفوظ کرلیا جائے۔ شہر میں امن و امان قائم کرنے کے لیے اسے بلاتفریق اسلحہ سے پاک کیا جائے۔ اور آخر میں بھیرہ کے عوام کا ایک دیرینہ اور عصر حاضر کا اہم ترین مطالبہ کہ تحصیل ہیڈکوارٹر اسپتال میں ایمرجنسی وارڈ کو فعال کیا جائے، کیونکہ موٹروے پر آئے روز حادثات معمول بن چکے ہیں، اور بدقسمتی سے قریب ترین اسپتال بھیرہ ایمرجنسی سہولیات سے محروم ہے۔

اگر حکومت پاکستان بھیرہ کی بطور ایک تاریخی اور ثقافتی شہر کے مناسب تشہیر کرے تو یہ ایک بڑے سیاحتی مرکز کے طور کثیر زرمبادلہ کمانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ بصورت دیگر جلد یہ شہر بھی اپنی تاریخی حیثیت کو گنوا کر تاریخ کا حصہ بن جائے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد عمران چوہدری

محمد عمران چوہدری

بلاگر پنجاب کالج سے کامرس گریجویٹ ہونے کے علاوہ کمپیوٹر سائنس اور ای ایچ ایس سرٹیفکیٹ ہولڈر جبکہ سیفٹی آفیسر میں ڈپلوما ہولڈر ہیں اور ایک ملٹی اسکلڈ پروفیشنل ہیں؛ آپ کوچہ صحافت کے پرانے مکین بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔