دہشت گردی کا خاتمہ اور رواداری کی ضرورت

دہشت گردی ، ٹارگٹ کلنگ، پراسرا ر ہلاکتوں اور دو سیاسی جماعتوں کے مابین تصادم کی خبریں اپنے منفی اور غم انگیز...

۔ فوٹو: فائل

RAWALPINDI:
دہشت گردی ، ٹارگٹ کلنگ، پراسرا ر ہلاکتوں اور دو سیاسی جماعتوں کے مابین تصادم کی خبریں اپنے منفی اور غم انگیز پیغام کے سبب کراچی سے لے کر ٹھٹھہ (اندرون سندھ ) تک خوف ودہشت اور بے یقینی کی تشویش ناک نئی لہرکی نشاندہی کرتی ہیں۔ کراچی میں دہشت گردی کے خاتمے کے سارے سرکاری دعوے یوں بھی غلط ثابت ہوگئے کہ ٹارگٹ کلرز نے ایک ہی خاندان کے 4 افراد، 3 مذہبی کارکنوں اور پولیس اہلکار سمیت 12افراد کی زندگیوں کے چراغ گل کردیے ۔ ڈی ایس پی کیماڑی سہیل افضل کے مطابق ماڑی پور میں یونین کونسل کے دفتر کے قریب گھر کے احاطے سے 40 سالہ شازیہ، اس کے شوہر 45 سالہ مظفر، اس کے بیٹے 22سالہ عمران اور 10 سالہ سمیر کی لاشیں ملیں جنھیں فائرنگ کرکے ہلاک کیا گیا جب کہ مظفر کی ایک بیٹی 15سالہ منیزہ زخمی ہے ، واقعہ گینگ وار کے کارندوں کی کارروائی بتائی جاتی ہے۔

ادھر عزیز بھٹی کے علاقے ڈالمیاکالونی اسٹیڈیم روڈ پر یلو کیب میں سوارمجلس وحدت المسلمین گلشن اقبال مغل ہزاہ گوٹھ کے رہنما 45 سالہ علیم عرف عالم، کارکن23سالہ صفدر عباس اور40 سالہ سید علی شاہ جاں بحق ہوگئے جب کہ خاتون راہ گیر سکینہ بی بی زخمی ہوگئی۔اسی تناظر میں بلاول ہاؤس کے قریب پیپلز پارٹی اورتحریک انصاف کے کارکنوں میں تصادم کو چشم تصور میں لائیے تو قتل و غارت اور پر تشدد واقعات کا تسلسل ایک طلسم ہوشربا سا لگتا ہے ، محسوس یہ ہوتا ہے کہ دہشت گرد اپنے نیٹ ورک کو سندھ کی مشہور لوک داستان ''نوری جام تماچی'' کے دور افتادہ کینجھرجھیل کے عین وسط میں واقع مزار تک لے گئے ہیں جہاں مختلف پکنک منانے والے خاندان، نوجوان جوڑے اور ہزاروں سیاح گزشتہ کئی برسوں سے بے خوف و خطر پہنچ جایا کرتے تھے۔


کیا کینجھر جھیل پر لائف گارڈز یا سیکیورٹی کا کوئی انتظام نہیں جب کہ مزار تک کشتی کے ذریعہ ہی پہنچا جاسکتا ہے۔ ادھرشک پرحراست میں لیے گئے تینوں ماہی گیروں کورہا کردیا گیا ہے، مقتولین کے ورثا نے اعلیٰ حکام سے واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کامطالبہ کردیا،ابھی تحقیقات ابتدائی مرحلہ میں ہے تاہم ہلاکتوں کا پراسرار واقعہ دہشت گردی کی توسیعی سازش کے طور پر زیر تفتیش لایا جانا چاہیے،اس لرزہ خیز قتل کے محرکات کا پتا لگانا ضروری ہے تاکہ تمام ملزمان قانون کی آہنی گرفت میں لائے جائیں جنھوں نے اپنی وحشیانہ واردات سے ایک دلگداز داستان محبت کے دو محو خواب کرداروں کی روحوں کو بے چین کردیا۔اس میں شک نہیں کہ حکومتی ٹیموں، پولیس و رینجرز اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کارکردگی اور تپتے ہوئے زمینی حقائق ایک دوسرے کا منہ چڑا رہے ہیں، کراچی اوراندرون سندھ دہشت گردی کے اس نئے سلسلے پر حکومت سندھ کو خود اپنے ایک وزیر کے اس انتباہ پر توجہ دینی چاہیے جو حیدرآباد سمیت دیگر علاقوں میں دہشت گردوں کی روپوشی سے متعلق ہے۔

سندھ کے وزیراطلاعات شرجیل میمن کچھ روز قبل کہہ چکے تھے کہ دہشت گرد کراچی سے فرار ہوکراندرون سندھ فرار ہورہے ہیں جب کہ ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا ہے کہ کراچی میں ٹارگٹڈآپریشن کوکامیاب ہونا چاہیے، آپریشن کی ناکامی سب کی ناکامی ہوگی ،اور حقیقت بھی یہی ہے کہ خطرناک دہشت گردوں،عادی مجرموں، گینگ وار ملزمان اور ٹارگٹ کلرز کی صرف گرفتاریوں کا چرچا ہے، قاتل آج بھی دندناتے پھرتے ہیں۔دوسری طرف بلاول ہاؤس کے قریب بوٹ بیسن پر پی پی اور پی ٹی آئی کے کارکنوں میں تصادم اور پولیس کی پر تشدد کارروائی افسوسناک ہے ۔ تحریک انصاف چاہتی تو کسی اور جگہ بھی احتجاج ریکارڈ کرسکتی تھی ، اسی طرح پی پی کی مقامی قیادت دو طرفہ مفاہمت اور بات چیت سے معاملہ کو ٹھنڈا کرلیتی تو مناسب تھا۔ تحریک انصاف کے رہنما عارف علوی نے کہا کہ سندھ ہائیکورٹ نے شہر بھر سے غیر قانونی رکاوٹیں ہٹانے کا حکم دیا تھا، اس کے باوجود یہاں رکاوٹیں موجود ہیں، ہمارا احتجاج پر امن تھا ۔

دریں اثنا بلاول ہاؤس کے ترجمان نے کہا کہ بلاول ہاؤس شہید بی بی کا گھرہے، اس میں داخل ہونے کی اجازت کسی کو نہیں دی جائے گی، وزیر اطلاعات سندھ نے کہا کہ شہر میں کئی دیگر سڑکیں بھی بند ہیں، تحریک انصاف کو وہاں بھی احتجاج کرنا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے واقعات کی آڑ میں منی پاکستان میں کئی گروہ اپنا کام کر جاتے ہیں۔یہ وقت سیاسی عدم استحکام اور معیشت کو ابتری اور دشمنون کے گھناؤنے ایجنڈے سے بچانے کا ہے ، اس لیے ضرورت تصادم سے پہلے ہی بات چیت اور صلح کی تھی۔امید ہے کہ دونوں جماعتوں کی فعال قیادت کراچی کی صورتحال کے حوالہ سے رواداری اور جمہوری طرز عمل اختیار کرے گی۔ انہیں بلدیاتی انتخابات سے پہلے حالات سازگار کرنے اورجذباتی کارکنوں کو صبر و تحمل اور رواداری کی ضرورت کا احساس بھی دلانا چاہیے۔ سیاسی مفاہمت اور رواداری کے اس سفر میں کارکنوں کا کردار بے حد اہم ہے۔
Load Next Story