قومی مفاد پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ نہ کریں
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے وزارت پانی و بجلی کی درخواست پر پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو) کا کنٹرول...
اٹھارویں ترمیم کی روشنی میں وزیراعظم نوازشریف آئندہ چند روز میں وزیراعلی پرویزخٹک کو اس حوالے سے خط لکھ دیں گے۔ فوٹو: اے ایف پی
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے وزارت پانی و بجلی کی درخواست پر پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو) کا کنٹرول خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کو دینے کی منظوری دے دی ہے۔ اب ایک دو روز میں وزارت پانی و بجلی وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا اور ان کی حکومت کو باقاعدہ ایک خط لکھے گی جس میں صوبائی حکمران پارٹی تحریک انصاف کے چیئرمین کی خواہش کے احترام میں وزیراعظم کی منظوری کے فیصلے سے آگاہ کیا جائے گا۔
اس وقت تحریک انصاف واحد اپوزیشن پارٹی ہے جو سیاسی میدان میں مسلم لیگ ن کی مرکزی اور صوبائی حکومت کے خلاف جارحانہ انداز اپنائے ہوئے ہے اور وہ موجودہ عوامی مسائل کے حوالے سے مسلم لیگ ن کی حکومت کو مسلسل تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اپنی سیاسی ساکھ کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت کی ہر ممکن کوشش ہے کہ وہ فرینڈلی اپوزیشن کی طرح خاموش رہنے کے بجائے حکومت کے لیے سیاسی میدان کھلا نہ چھوڑے اور اپنی سیاسی ہل چل کی بدولت زیادہ سے زیادہ عوامی ہمدردیاں اپنے دامن میں سمیٹ کر آئندہ انتخابات میں حزب اقتدار کی صف میں شامل ہو جائے۔ گزشتہ دنوں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بجلی کے مسئلے پر یہ دعویٰ کیا تھا کہ اگر انھیں اختیار دیا جائے تو وہ صوبہ خیبر پختونخوا میں بجلی کا نظام بہتر بنا سکتے ہیں۔
وفاقی حکومت کے ارباب نے عمران خان کا یہ چیلنج قبول کرتے ہوئے پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی کا کنٹرول خیبر پختونخوا حکومت کو دینے کا اعلان کر دیا جس کی اب وزیراعظم میاں نواز شریف نے منظوری دے دی ہے لیکن وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے پیسکو کا کنٹرول اپنی صوبائی حکومت کو دینے کی پیشکش کو مذاق قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا ہے۔ انھوں نے وفاقی حکومت سے کہا ہے کہ عمران خان نے پیسکو نہیں واپڈا کا مکمل اختیار مانگا تھا۔ انھوں نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انھیں صوبہ خیبر پختونخوا میں بجلی پیدا کرنے' اس کے نرخ مقرر کرنے' اسے تقسیم کرنے اور بل وصول کرنے سمیت سارا نظام ان کے حوالے کر دے۔ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق وزیراعلیٰ کے پی کے کا یہ مطالبہ درست نہیں ہے کیونکہ واپڈا وفاقی ادارہ ہے 'اسے کسی صوبے کے حوالے نہیں کیا جا سکتا ۔ کل کو کوئی اور صوبہ وفاق کے تحت چلنے والے دیگر ادارے بھی مانگ لے گا ۔قومی مفاد کے ایشو کو سیاست میں پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے' مسلم لیگ ن کی قیادت اور تحریک انصاف کو ایسی سیاست نہیں کرنی چاہیے جو مستقبل میں صوبائی منافرت کا باعث بن جائے' کالا باغ ڈیم اس کی واضح مثال ہے' اس پر سیاست بازی نے ایک قومی منصوبے کومتنازعہ بنا دیا۔
اس معاملے پر صوبائیت کی سیاست کے بجائے وفاقی حکومت اور خیبر پختونخوا حکومت ایک دوسرے سے تعاون کریں تاکہ خیبر پختونخوا میں بجلی کی ترسیل کا نظام بہتر ہو اور بجلی کے بلوں کی وصولی کو بھی یقینی بنایا جاسکے۔وفاقی حکومت کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ صوبائی حکومت کو پیسکو کا کنٹرول سنبھالنے کی دعوت 18 ویں ترمیم کے تناظر میں آئین میں دی گئی سہولت کے تحت دی جا رہی ہے جس کے تحت صوبے بجلی کی ترسیل اور بلوں کی وصولی کی ذمے داریاں سنبھال سکتے ہیں۔ وزیراعلیٰ خیبر پی کے کا موقف ہے کہ پیسکو کا اختیار انھیں دینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ صرف صارفین میں بل تقسیم اور پیسے وصول کریں اور فائدہ مرکز لے۔ ایک خبر کے مطابق سندھ حکومت نے بھی بجلی کمپنیوں کا کنٹرول وفاق سے مانگ لیا ہے اس سلسلے میں سابق صدر آصف علی زرداری اور وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے ایک ملاقات میں فیصلہ کیا کہ سندھ بھی وفاق سے پاور جنریشن اور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کا کنٹرول طلب کرے گا اور اس حوالے سے وفاق کو جلد از جلد باضابطہ طور پر درخواست کی جائے گی۔
اس وقت ملک توانائی کے بحران کا شکار ہے۔ صوبوں کی جانب سے بجلی پیدا کرنے سے لے کر اس کی تقسیم کا اختیار مانگنے کی صورت میں وفاق کے لیے ایک نیا مسئلہ کھڑا ہو سکتا ہے اوروفاق کی پوزیشن کمزور ہو سکتی ہے۔ بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کا موقف ہے کہ وفاقی حکومت بجلی کا پورا نظام صوبوں کے حوالے کردے تو اس میں کچھ حرج بھی نہیں اس طرح بجلی کے بحران کا ذمے دار متعلقہ صوبے کی حکومت ہو گی۔ حکومت بجلی کی پیداوار اور تقسیم کے حوالے سے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دے کر اس مسئلے کو تمام صوبوں کے اتفاق رائے سے حل کرنے کی کوشش کرے اور اس کے لیے کوئی بہتر طریقہ کار طے کرے تاکہ تمام صوبوں میں بجلی کا بحران ختم ہو سکے اور ملک بجلی کے موجودہ بحران سے جلد از جلد نکل سکے۔ اس طرح صوبوں کی اس حوالے سے مرکز سے شکایات بھی ختم ہو جائیں گی لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ قومی مفاد کے معاملات میں سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے گریز کیا جائے' جو بھی کرنا ہے' اسے آئین میں دیے گئے طریقہ کار کے مطابق تمام وفاقی اکائیوں کی مشاورت اور منشا کے مطابق کیا جائے۔
اس وقت تحریک انصاف واحد اپوزیشن پارٹی ہے جو سیاسی میدان میں مسلم لیگ ن کی مرکزی اور صوبائی حکومت کے خلاف جارحانہ انداز اپنائے ہوئے ہے اور وہ موجودہ عوامی مسائل کے حوالے سے مسلم لیگ ن کی حکومت کو مسلسل تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اپنی سیاسی ساکھ کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت کی ہر ممکن کوشش ہے کہ وہ فرینڈلی اپوزیشن کی طرح خاموش رہنے کے بجائے حکومت کے لیے سیاسی میدان کھلا نہ چھوڑے اور اپنی سیاسی ہل چل کی بدولت زیادہ سے زیادہ عوامی ہمدردیاں اپنے دامن میں سمیٹ کر آئندہ انتخابات میں حزب اقتدار کی صف میں شامل ہو جائے۔ گزشتہ دنوں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بجلی کے مسئلے پر یہ دعویٰ کیا تھا کہ اگر انھیں اختیار دیا جائے تو وہ صوبہ خیبر پختونخوا میں بجلی کا نظام بہتر بنا سکتے ہیں۔
وفاقی حکومت کے ارباب نے عمران خان کا یہ چیلنج قبول کرتے ہوئے پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی کا کنٹرول خیبر پختونخوا حکومت کو دینے کا اعلان کر دیا جس کی اب وزیراعظم میاں نواز شریف نے منظوری دے دی ہے لیکن وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے پیسکو کا کنٹرول اپنی صوبائی حکومت کو دینے کی پیشکش کو مذاق قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا ہے۔ انھوں نے وفاقی حکومت سے کہا ہے کہ عمران خان نے پیسکو نہیں واپڈا کا مکمل اختیار مانگا تھا۔ انھوں نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انھیں صوبہ خیبر پختونخوا میں بجلی پیدا کرنے' اس کے نرخ مقرر کرنے' اسے تقسیم کرنے اور بل وصول کرنے سمیت سارا نظام ان کے حوالے کر دے۔ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق وزیراعلیٰ کے پی کے کا یہ مطالبہ درست نہیں ہے کیونکہ واپڈا وفاقی ادارہ ہے 'اسے کسی صوبے کے حوالے نہیں کیا جا سکتا ۔ کل کو کوئی اور صوبہ وفاق کے تحت چلنے والے دیگر ادارے بھی مانگ لے گا ۔قومی مفاد کے ایشو کو سیاست میں پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے' مسلم لیگ ن کی قیادت اور تحریک انصاف کو ایسی سیاست نہیں کرنی چاہیے جو مستقبل میں صوبائی منافرت کا باعث بن جائے' کالا باغ ڈیم اس کی واضح مثال ہے' اس پر سیاست بازی نے ایک قومی منصوبے کومتنازعہ بنا دیا۔
اس معاملے پر صوبائیت کی سیاست کے بجائے وفاقی حکومت اور خیبر پختونخوا حکومت ایک دوسرے سے تعاون کریں تاکہ خیبر پختونخوا میں بجلی کی ترسیل کا نظام بہتر ہو اور بجلی کے بلوں کی وصولی کو بھی یقینی بنایا جاسکے۔وفاقی حکومت کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ صوبائی حکومت کو پیسکو کا کنٹرول سنبھالنے کی دعوت 18 ویں ترمیم کے تناظر میں آئین میں دی گئی سہولت کے تحت دی جا رہی ہے جس کے تحت صوبے بجلی کی ترسیل اور بلوں کی وصولی کی ذمے داریاں سنبھال سکتے ہیں۔ وزیراعلیٰ خیبر پی کے کا موقف ہے کہ پیسکو کا اختیار انھیں دینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ صرف صارفین میں بل تقسیم اور پیسے وصول کریں اور فائدہ مرکز لے۔ ایک خبر کے مطابق سندھ حکومت نے بھی بجلی کمپنیوں کا کنٹرول وفاق سے مانگ لیا ہے اس سلسلے میں سابق صدر آصف علی زرداری اور وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے ایک ملاقات میں فیصلہ کیا کہ سندھ بھی وفاق سے پاور جنریشن اور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کا کنٹرول طلب کرے گا اور اس حوالے سے وفاق کو جلد از جلد باضابطہ طور پر درخواست کی جائے گی۔
اس وقت ملک توانائی کے بحران کا شکار ہے۔ صوبوں کی جانب سے بجلی پیدا کرنے سے لے کر اس کی تقسیم کا اختیار مانگنے کی صورت میں وفاق کے لیے ایک نیا مسئلہ کھڑا ہو سکتا ہے اوروفاق کی پوزیشن کمزور ہو سکتی ہے۔ بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کا موقف ہے کہ وفاقی حکومت بجلی کا پورا نظام صوبوں کے حوالے کردے تو اس میں کچھ حرج بھی نہیں اس طرح بجلی کے بحران کا ذمے دار متعلقہ صوبے کی حکومت ہو گی۔ حکومت بجلی کی پیداوار اور تقسیم کے حوالے سے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دے کر اس مسئلے کو تمام صوبوں کے اتفاق رائے سے حل کرنے کی کوشش کرے اور اس کے لیے کوئی بہتر طریقہ کار طے کرے تاکہ تمام صوبوں میں بجلی کا بحران ختم ہو سکے اور ملک بجلی کے موجودہ بحران سے جلد از جلد نکل سکے۔ اس طرح صوبوں کی اس حوالے سے مرکز سے شکایات بھی ختم ہو جائیں گی لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ قومی مفاد کے معاملات میں سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے گریز کیا جائے' جو بھی کرنا ہے' اسے آئین میں دیے گئے طریقہ کار کے مطابق تمام وفاقی اکائیوں کی مشاورت اور منشا کے مطابق کیا جائے۔